فرخ سہیل گوئندی: منفرد سیاح


فرخ سہیل گوئندی کی ذات کی کوئی ایک دو تھوڑی بہت ساری جہتیں ہیں۔

کتاب اور علم کا دیوانہ، سیاحت جیسے مشکل شغل کا پروانہ، سیاست جیسے گندے کھیل میں خوبصورت خواب دیکھنے والا مستانہ۔ اس کی سوچ انقلابی ہے۔ فکرو عمل میں دانشوری ہے۔ کم عمری میں اس صفت کا اس کے اندر نمو پانے کا سبب وہ بہت پڑھے لکھے لوگ تھے جن کے ساتھ اس کے شب و روز گزرے تھے۔

حرف لکھتا ہے اس سے محبت کرتا ہے۔ اس کو شائع کرنے، پبلشنگ کو نئے رنگ، نئے انداز دینے اور اپنے کارکنان کو تحفظ دینے کا داعی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا سے بھی اس کا تعلق گہرا رہا۔ مختلف شخصیات کے انٹرویوز لینا اس کی ڈیوٹی کا ایک حصہ تھا۔ ”لوگ در لوگ“ پڑھیں تو اس کے اس جوہر کا زیادہ گہرائی سے احساس ہوتا ہے۔ اس درجہ خوبصورت خاکے کہ جن میں ان شخصیات کی اپنی حیثیت کے ساتھ ساتھ درمیان میں تعلق کا وہ ناتا بھی نظر آتا ہے جو فرخ اور ان کے درمیان تھا اور ہے۔

فرخ سے پہلی باقاعدہ ملاقات کب ہوئی۔ سالوں پہلے جب ترکی جانے کو دل مچلا۔ سیما نے کہا ”کسی سے معلومات لیں“ ۔ ”لووہ لڑکا اپنا فرخ ہے نا۔ ارے بھائی ایک ہی تو بندہ ہے اس لاہور میں جو زمانوں سے ترکی کے عشق میں مبتلا ہے۔ اور جب اس کے گھر کے دروازے پر دستک کے بعد اندر داخل ہوئیں تو ہر سو ترکی ہی ترکی بکھرا پڑا تھا۔ کہیں ترکی کی اعلیٰ قیادتیں بلند ایجوت شریک زندگی راشان ایجوت، طیب اردگان، صاحب خانہ کے ساتھ محبتیں بگھارتے تھے۔

بلغاریہ جانا اور اس پر لکھنا فرخ کا سب سے اہم کام ہے۔ روس بیسویں صدی کا سوویت یونین اگر آہنی پردوں کے پیچھے تھا تو بلغاریہ بارے ہلکی پھلکی سی شناسائی بھی عام لوگوں کے لیے صفر برابر تھی۔

سچی بات ہے بلغاریہ کا پڑھنے سے تعلق ہے۔ مشرقی یورپ تو یوں بھی تہذیبوں کے عروج و زوال کے آئینوں کا دلفریب عکس ہے۔ کمیونزم سے بھی اس کا عشق زوردار رہا۔ ایسے میں سوویت سمیت یہ خطہ انقلابی اور نظریاتی لوگوں کے خوابوں اور آرزووں کا مسکن تھا۔ کامریڈ فرخ بھی میری طرح انہی گھمن گھیریوں کا اسیر تھا۔

تمہارا بہت شکریہ فرخ۔ تم نے جب مجھے یہ کہا کہ ”میں ہوں جہاں گرد“ میں اور کچھ پڑھیں نہ پڑھیں بلغاریہ ضرور پڑھنا ہے۔ تمہاری اطلاع کے لیے تمہارے ایران اور ہند ترکی کے اسفار تو میں بہت پہلے سے پڑھے بیٹھی ہوں۔ اسی لیے میں نے سب سے پہلے ملک ممنوع بلغاریہ کو کھولا۔ سامنے فرخ کی خوبصورت تحریر تھی۔ اب میں اس کے ساتھ ساتھ ہوں اس کی سرخ جنت میں جانے کے لیے۔ اردنی عمار کی بات نے میری آنکھوں کو گیلا کر دیا ہے۔ اگر مجھے سوویت یونین میڈیکل میں داخلہ نہ ملتا تو میں پاکستان کے شہر لاہور میں پڑھ رہا ہوتا۔ میرے اللہ میرا ملک تو مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے طالب علموں کا کبھی بہترین تعلیمی مرکز تھا۔ آج یہ کہاں ہے؟

آنسو پونچھ لیے ہیں اور اندھیرے میں فرخ کی آنکھوں سے نظارے دیکھ رہی ہوں۔ ٹرین کی فینٹسی کا بھی کیا لطف ہے۔ ایدرنے کی تاریخ تفصیل۔ وہ سلطان محمد فاتح اور امیگریشن افسر سے دلچسپ مکالمہ۔

میں اعتراف کروں گی کہ بلغاریہ کا پڑھنا میرے لیے ویسا ہی انوکھا تجربہ تھا جو ”روس کی ایک جھلک“ لکھتے ہوئے میرے اندر اترتا تھا۔

کامریڈ فرخ کی سرخ جنت جس کے آسمانوں اور زمین کے ٹکڑوں پر بکھرے ہر ہر منظر پر وہ فدا ہو ہو جاتا تھا۔ جس کی سڑکوں پر چلتے ہوئے وہ خواہشوں کے جلو میں سفر کرتا تھا۔ کامریڈ لیڈروں کے جابجا نصب مجسموں سے محبت اور وابستگی کی اس رو میں بہتا تھا جس میں بہنے کی خواہش ہر کامریڈ کی دلی آرزو ہوتی ہے۔ اس کی ارضی پیمائی وہ اپنے قدموں سے کر رہا تھا۔ اس کے چشموں کا پانی وہ آب حیات سمجھ کر پی رہا تھا۔

خوف، ڈر اور الٹے پلٹے خدشات کے سائے بھی میری طرح فرخ کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ ڈر کے سنپولیے اسے پیر پر ڈنگ مارتے تھے۔ کہیں اس کے اندر خوشی و سرشاری کے جذبے نہال کرتے تھے۔ اسے شادمان کرتے تھے اس احساس کے ساتھ کہ وہ اپنے خوابوں کی سرزمین پر ہے اور اسے دیکھ رہا ہے۔ بعینہ میری طرح۔

ابھوئے رائے، امر لعل، خٹک صاحب اور ان جیسے بے شمار غیر مقامیوں اور مقامیوں کا ملنا ویسا ہی تھا جیسا کہ ایک سچے سیاح کا ان اجنبی سرزمینوں پر خدائی عنایات کا نصیب ہونا ہوتا ہے۔

شہروں کے ان قدیمی گلی کوچوں کے منہ متھوں پر تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانیں رقم ہیں۔ کبھی اس کے تاج محل میں گھستا ہے۔ اس کی وادیوں کو جنت نظیر کہتا ہے۔ شہر شہر گھومتا ہے۔ نائٹ کلبوں میں رقص دیکھتا اور گیت سنتا اور جھومتا ہے۔ There lived a certain man in Russia long ago پڑھتے ہوئے میں خود بھی

جھومی تھی کہ ایسے انوکھے تجربے مجھے بھی ملے تھے۔ فرخ کا اسلوب دل میں گھر کرنے والا ہے۔ سچا خلوص سے بھرا ہوا۔ جو اندر ہے وہ باہر ہے۔ اس نے یونہی تحریر کو لفظوں کے پھول بوٹوں سے نہیں سجایا۔ تشبیہیں، استعاروں سے اسے نہیں چمکایا۔ یہاں دل کی زبان ہے۔ جذبات کی زبان ہے۔ اور صرف یہی وجہ ہے کہ قاری اگر اسے شروع کرے تو ممکن ہی نہیں کہ چھوڑ دے۔ کہ بیانیے کی روانی میں تاریخ کا بہاؤ بھی شامل ہوتا ہے۔ شور شرابا کرتے ہوئے نہیں۔

بس دھیمے سے لطافت کے ساتھ اتنا ہی کہ جتنا مناسب ہے۔ تہذیبی رنگوں کی پھوار بھی ماحول کو گل و گلزار کرتی ہے۔ تاریخی عمارات، حسین جگہوں اور کہیں کہیں اس کا سانس رکتا ہے کہ پیارا سا پرعزم لڑکا کسی سیاپے میں نہ پڑ جائے۔ مگر پھر اس کی سانسیں ہموار ہوجاتی ہیں۔ اور وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کمیونسٹ بڑھیا کا گھر، یونانیوں کا اپالونیا، باغ بہشت سے اذن سفر تک بندہ سانس روکے پڑھتا چلا جاتا ہے۔ چلا جاتا ہے نہ اسے ظہر کا پتہ نہ عصر کا ۔

اور پھر آنکھ کھلتی ہے خواب ٹوٹتا ہے تو جانتا ہے کہ وہ کس سحر انگیز دنیا میں تھا۔ اس وقت میں جیسے ایک ٹرانس میں تھی۔ کچھ یاد آ رہا تھا۔ کم و بیش وہی ماہ و سال جب تم بلغاریہ کے چوکوں، چوراہوں، سڑکوں، گلیوں، بازاروں، کیفوں میں مختلف قوموں، ملکوں اور مقامی لوگوں سے بات چیت کے سے شناسائی کے رنگوں سے ابھری دل کش تصویریں بنا رہے تھے۔ میں شمالی علاقہ جات کی وادیوں میں خجل ہو رہی تھی۔ میرے اندر ایک سرگوشی ابھری تھی اس نے مجھ سے کہا تھا۔

کاش میں تمہاری بڑی بہن ہوتی۔ تمہاری ماں ہوتی تو بلغاریہ کا سفر تمہارے ساتھ کرتی۔ اور تم روس اور چین کا سفر میرے ساتھ کرتے۔ ہم پشکن اور دو ستووسکی کے گھر بیٹھ کر مزے سے ان کی کتابوں پر باتیں کرتے اور بیجنگ کے تھین آن من سکوائر میں 1989 کے شہید ہونے والے بچوں کی فاتحہ پڑھتے تو فرخ کیسا مزہ آتا۔

جیو میرے بچے بہت مبارک باد اتنا خوبصورت سفر نامہ لکھنے پر ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments