سیاسی بحران، اعلی عدلیہ اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کردار
موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں پاکستان سیاست میں ایک بھونچال کی صورتحال رہی ہے۔ موجودہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم اور سابقہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں سیاسی تلخی آخری حدوں کو چھوتی نظر آئی ہے۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ جس طرح دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے آئین اور قانون کو روندنے سے بھی گریز نہیں کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں عدلیہ پر ایک بہت بھاری اور ناخوشگوار ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔ جس جماعت کے حق میں فیصلہ نہیں آتا وہ عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیتی ہے اور سوشل میڈیا پر ان جماعتوں کے حامی ایک طوفان برپا کر دیتے ہیں مگر ان حالات میں اعلی عدلیہ نے عمر عطا بندیال کی سرکردگی میں آئین اور قانون کی عملداری کو برقرار رکھا ہے اور ان جماعتوں کی تنقید اور نکتہ چینی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دلیرانہ فیصلے صادر کیے ہیں۔
مارچ میں سیاسی بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب حکمران جماعت تحریک انصاف کے کئی ارکان سندھ ہاؤس میں پی ڈی ایم کے کیمپ میں پائے گئے اور تحریک انصاف کی قیادت کو اپنی حکومت مٹھی میں ریت کی مانند سرکتی محسوس ہوئی اس پر ایک صدارتی ریفرینس سپریم کورٹ بھیجا گیا اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان منحرف ارکان کے ووٹ کاؤنٹ نہ کرنے کا فیصلہ دے دیا جس کی بنا پر پی ڈی ایم کو مجبوراً تحریک انصاف کی اتحادی اور اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتوں مثلاً باپ، ایم کیو ایم، اور جمہوری وطن پارٹی کی مدد طلب کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ منحرف ارکان پی ڈی ایم کی حمایت میں ووٹ نہ ڈال سکے۔ یہ لوٹا کریسی ختم کرنے کے لئے ایک شاندار فیصلہ تھا۔ اس فیصلہ پر پی ڈی ایم کے حامیوں کی جانب سے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اسکے بعد جب ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے ایک رولنگ کے ذریعے تحریک عدم اتحاد کو ایک غیر ملکی سازش قرار دے کر بغیر ووٹنگ کے مسترد کر دیا تو ایک دفعہ پھر ملک بحران کا شکار ہو گیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ ایک دفعہ پھر فوری طور پر حرکت میں آئی اور آئین کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سپیکر کو عدم اتحاد پر ووٹنگ کرانی پڑے گی۔ اگر یہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو مستقبل میں کوئی نہ کوئی عذر تراش کر حکومت وقت اپنے خلاف تحریک اعتماد کا دروازہ بند کر دیتی جو آئین اور پارلیمانی روایات کے خلاف ہوتا۔ اگرچہ اس پر سپریم کورٹ کو سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے غیب و غضب کا سامنا کرنا پڑا مگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئینی بالادستی کو اپنے فیصلے سے برقرار رکھا۔
وفاق میں معاملات کچھ سنبھلے تو ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب سیاسی بحران کا شکار ہو گیا۔ حکمران جماعت کے کئی ارکان نے اپنی جماعت سے بغاوت کرتے ہوئے اپوزیشن مسلم لیگ نون کے امیدوار حمزہ شہباز شریف کے حق میں ووٹ ڈالتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اب تحریک انصاف عدلیہ سے مدد کی طلب گار ہوئی اور ان ارکان کے خلاف عدالت میں جا پہنچی۔ ایک دفعہ پھر عدلیہ نے آئین اور قانون کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے ان منحرف ارکان کو ڈس کوالیفائی کر دیا۔ ان کی خالی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے پنجاب حکومت دوبارہ حاصل کر لی۔ حمزہ شہباز کو وزارت اعلی کی کر سی چھوڑنی پڑی تو عدلیہ مسلم لیگ نون کے نشانے پر آ گئی اور ان کے وفاقی وزرا نے بر سر عام اپنے غیظ و غضب کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں نئے ججوں کی تعیناتی روکتے ہوئے چیف جسٹس کو زچ کرنے کی کوشش کی گئی مگر چیف صاحب کسی پریشر کو خاطر میں نہ لائے۔
حال ہی میں جب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا تاکہ ان صوبوں میں دوبارہ انتخابات کروائے جائیں تو مسلم لیگ نون نے پنجاب اسمبلی تحلیل نہ ہونے دینے کے لئے نہ صرف تحریک عدم اتحاد جمع کروائی بلکہ گورنر پنجاب نے وزیراعلی کو پہلے سے جاری اجلاس کے دوران ہی اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس پر سپیکر سبطین خان نے رولنگ دیتے ہوئے گورنر کے حکم نامے کو غیر قانونی قرار دے دیا اور مقررہ وقت پر اعتماد کا ووٹ نہ لیا گیا جس پر گورنر پنجاب نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے منتخب وزیراعلی اور ان کی کابینہ کو برطرف کر دیا۔
حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ گورنر سپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالت جاتے اور وہاں سے جو فیصلہ صادر ہوتا اس کے مطابق آگے معاملات چلتے۔ مگر یک جنبش قلم ایک منتخب حکومت کی برطرفی نے آٹھویں ترمیم کی یاد دلا دی۔ حکومت کی برطرفی پر وزیراعلی پرویز الہی نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وہاں سے ان کی حکومت کی بحالی کا فیصلہ آیا جس پر ایک دفعہ پھر پی ڈی ایم نے اعلی عدلیہ پر تنقید شروع کر دی۔ مگر اعلی عدلیہ نے صحیح معنوں میں اپنے فیصلوں میں آئین کی سر بلندی کو مقدم رکھا ہے۔ ان بڑے فیصلوں سے دونوں جماعتوں کو بعض اوقات فائدہ ہوا اور بعض اوقات نقصان بھی مگر عدلیہ کے ان فیصلوں نے ملک کو بڑے بحرانوں سے بچایا۔ اس کے لئے بجا طور پر موجودہ چیف جسٹس تحسین کے حقدار ہیں۔
- مونی کے جنگی کارنامے - 10/05/2025
- پرانے زمانے کے بابے اور معصوم عاشق - 02/05/2025
- مصری کا ڈبہ۔ ایک پراسرار داستان - 23/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).