دس سال سے مستقلی کے منتظر اساتذہ اور ارباب اختیار


مسلسل دوسرے روز کھلے آسماں تلے مرد و خواتین اساتذہ ( ایس ایس ایز، اے ای اوز ) اپنے حق کی خاطر لاہور میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ اور حق ہے مستقلی کا۔ کینال روڈ بند ہے۔ زمان پارک کے سامنے ڈیرے لگ رہے۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جن کی بھرتی نہ تو کسی سیاسی شخصیت کی مرہون منت تھی نہ انہوں نے کسی چودھری کے حقے کی چلم سیدھی کر کے نوکری پائی۔ بلکہ مقابلے کا امتحان دیا۔ کڑے میرٹ کی کسوٹی پہ پرکھے گئے۔ انٹرویو ہوا اور پھر ان کی سلیکشن ہوئی۔ یہ میٹرک پاس پی ٹی سی سفارشی اساتذہ نہ تھے بلکہ ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی تھے۔ ان جواں ہمتوں نے عملی میدان میں جہد مسلسل اور کڑی مشقت کے بعد گورنمنٹ سکولز کا بھرم قائم کیا اور ان سکولز کا کھویا ہوا وقار پھر سے لوٹا دیا۔

اگر وزیر تعلیم قوم کو فخر سے داخلوں کے حاصل کردہ اہداف، شرح خواندگی اور ٹارگٹس بتاتے ہیں تو اس کا کریڈٹ صرف اور صرف ان اساتذہ کو جاتا ہے جنہوں نے اس فرسودہ سسٹم کے رگ و پے میں جواں لہو دوڑا دیا۔ شجرکاری مہم ہو، ہم نصابی سرگرمیاں، ڈینگی سے آگاہی و تدارک، کووڈ 19 کے ایس او پیز پہ عملدرآمد، طلباء کی سیمپلنگ، انرولمنٹ ٹارگٹ، تدریسی ذمہ داری، بورڈ پیپرز الیکشن و مردم شماری کی اضافی ڈیوٹی۔ سب میں انہوں نے بھرپور حصہ ڈالا

مگر جناب والا!
آپ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
آنسو گیس، شیلنگ، پکڑ دھکڑ، تذلیل، نوکری سے برخواستگی کے لیٹرز، دھمکیاں۔ اور یہ سب گزشتہ سال اسلام آباد میں ہو چکا۔

جناب وزیر اعلی صاحب!

یہ آپ سے بھیک نہیں مانگ رہے۔ یہ 18۔ 2014 کے باقاعدہ پروسیس سے گزر کے بھرتی ہونے والے اساتذہ مستقلی کا حق مانگ رہے۔ پبلک سروس کمیشن کے تحت دوبارہ ٹیسٹ کاہے کو! اگر تو یہ بغیر امتحان دیے بھرتی ہوتے تو بات سمجھ میں آتی۔ قانون بن رہا 2018 میں۔ تو اس کا اطلاق سابقہ پہ کیوں۔ کیا اس وجہ سے کہ آپ نے مستقبل میں اساتذہ بھرتی ہی نہیں کرنے کیونکہ دیہاڑی دار بندے لگانے کا منصوبہ تو سامنے آ چکا محکمہ تعلیم میں۔ دو ہزار نو سے تیرہ تک کے ایس ایس ایز بھی مستقل ہو چکے۔ خیبر پختونخوا والوں نے بھی مستقل کر دیا۔ قانون بن گیا تو ترمیم بھی آپ کے اختیار میں ہے۔ پھر بلا وجہ کی ذہنی اذیت کیوں؟

مارچ دو ہزار اکیس میں تحریک انصاف کے ایک وفد نے بارہ روزہ دھرنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ عید سے قبل مستقل کیا جائے گا مگر یہ وعدہ بھی دیگر وعدوں جیسا نکلا۔ ہر سال کانٹریکٹ میں توسیع کی اذیت سے گزرنا پڑتا۔

یہ اساتذہ اپنے بل بوتے پہ وہاں پہنچے ہیں۔ ان کی طاقت ان کا نظم و ضبط اور اتفاق ہے۔ یہ آپ کے وزراء کے رویوں سے تنگ آ کر خود اپنا حق مانگنے نکلے ہیں۔ یہ بے چارے اپنے راشن و ضروریات کا بندوبست بھی خود کر رہے۔ اس دھرنے کے لیے فنڈ بھی ”غیب“ سے نہیں آ رہے بلکہ ہر استاد دامے درمے قدمے سخنے حصہ ڈال رہا۔

خدارا۔ ایک معلم کو تو عزت دے لیں۔ اسے اس کا حق دیں۔ معیشت تو آپ ڈبو ہی چکے، تعلیم کو تو بخش دیں۔ یہ چودہ ہزار اساتذہ نہیں، چودہ ہزار خاندان ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments