بھوک کی اقسام


جب چھوٹے تھے تو بس بھوک سے مراد پیٹ پوجا ہی لگا کرتی تھی۔ جو وقت بے وقت آپ کو محسوس ہوتی رہتی تھی۔ صبح بستر سے نکلو، تو بھوک۔ اسکول جاؤ تو آدھے دن کے بعد بھوک۔ گھر واپسی پر دوپہر کے کھانے کی بھوک۔ پھر سونے سے پہلے رات کے کھانے کی بھوک۔ اور جو بس یونہی چلتے پھرتے، ہر کھیل کے بعد ، ہر مہمان کی آمد پر چھوٹی موٹی بھوک لگا کرتی تھیں، ان کا تو شمار ہی نہیں۔ لیکن جیسے جیسے بڑے ہوئے، پتہ چلا کہ یہ ساری بھوک تو بڑی معصومانہ تھیں۔ بے ضرر، کم پر مطمئن ہونے والی، غیر متقاضی۔ پراٹھا، انڈا، نمکو، بسکٹ، ٹافی، دال، چاول، شکر، گڑ، دودھ، رس قلفی، بھٹہ، مکھن، ساگ، کڑھی، دہی، چٹنی، سبزی، اور کبھی کبھی گوشت پر سیری ہونے والی۔ زبان کا چٹخارا، پیٹ کی آگ کو جو بجھا دیتا۔ وہ کھانا ہی بھوک مٹانے کو کافی ہوتا۔

لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، معلوم ہوا کہ اس نیرنگی اور ظالم دنیا میں بچپن کی اس بے چاری بھوک کے علاوہ بھی کئی اقسام ہیں جن کا واسطہ آپ سے وقتاً فوقتاً پڑتا ہے۔ مثلا:

نظروں کی بھوک: جب معدہ منہ تک کھانے سے بھرا ہو۔ سانس تک زیادہ کھانے سے حلق میں پھنستا ہو۔ بیٹھنا دشوار اور مزید لقمہ نگلنا محال ہو۔ تب بھی نہاری کی بوٹیاں، حلیم کا ڈونگا، ایک اور روٹی کی چاہ، بکرے کی بھنی چانپ، میٹھے کی پیالی وغیرہ وغیرہ پر آپ کی رال ٹپکے تو یہ بس اسی طرح کی بھوک کے زمرے میں آتا ہے۔

اچھا اگر کوئی خاتون و مرد سادہ، با حیا، باحجاب ہوتے ہوئے بھی بازار، دفتر، جامعہ، سفر، گھر میں کسی دوسری جنس کی وجہ سے اپنے دوپٹے کا پلو سیدھا کرے، بات کرنے میں ہچکچائے، بات کہنے میں غیر آرام دہ ہو، بیٹھنے میں پہلو بدلے، کترائے۔ کہ کسی کی نظریں آپ کو سر سے پیر تک بھوکی آنکھوں سے تول رہی ہوں۔ آپ کے پردوں کے پیچھے بھی آپ کو بے لباس کر رہی ہوں۔ آپ کے محفوظ ہونے کی خوش فہمیوں کو غیر محفوظ بنائے۔ تو یہ بھی نفس اور نیت کی بھوک ہے۔

ہوس و لالچ کی بھوک: یہ وہ قسم ہے جس میں مزید در مزید کی چاہ ہو۔ ضروریات بلکہ خواہشات تک کے پورا ہونے کے لوازمات موجود ہوں لیکن نہ دل بھرتا ہو۔ نہ نیت۔ نہ بانٹنے کی چاہ ہو، نہ دینے کا شوق۔ بس جمع کرنے اور اکٹھا کرنے کی محبت آکٹوپس کی طرح جکڑے رہتی ہو۔ آپ ایک مناسب گھر میں رہتے ہوں۔ آنے جانے کو سواری ہو۔ پیٹ بھر کر تین وقت کھانا بھی میسر ہو۔ لیکن ایک کار کو دو، پلاٹس خریدتے رہنے کی طلب، ہر وقت کپڑے، زیور، جوتے، فرنیچر اور آرائش کا سامان لینے کا چلن۔ جس کی نہ ضرورت ہو، نہ رکھنے، سجانے کی گنجائش، نہ استعمال کا موقع۔ نہ سال ہا سال پہننے، اوڑھنے، دیکھنے کی باری۔ یہ بھوک بڑی ظالم ہے جو خرچواتی اور ڈھیر تو لگواتی ہے لیکن فیض کسی کو نہیں پہنچاتی۔

فاسٹ فوڈ کی بھوک: یہ اکثر بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کو لگتی ہے۔ جس دن دستر خوان پر کریلے، کدو، بینگن، ٹینڈے، توری، مونگرے، میتھی وغیرہ رکھے ہوں۔ ساتھ کوئی اور کھانا بھی موجود نہ ہو۔ تو پانچ سے پچیس سال کے لوگوں کو یہ بھوک لگتی ہے۔ جس کی آگ پزا، زنگر، شوارما، فرائیڈ مرغی کے ٹکڑوں سے ہی ٹھنڈی پڑتی ہے۔ اور اگر اس کو ان چیزوں کا ایندھن نہ ملے تو یہ تب تک جلتی اور بھڑکتی رہتی ہے۔ بے چین اور بے کل رکھتی ہے۔ جب تک اسے یہ سب مہیا نہ کیا جائے۔ تب تک پلاؤ، بریانی، قورمہ، دال، چاول سب ہی بے رونق لگتے ہیں۔

کرسی کی بھوک: اس میں پیٹ بھلے خالی رہے لیکن حکمرانی میں آپ کا حصہ ہی آپ کو سیری کرتا ہے۔ خواہ وہ کسی گھر کی سربراہی ہو، یا کسی ادارے کی یا کسی شہر، اسٹیٹ یا ملک کی۔ جتنا بڑا اقتدار، اتنا بڑا چسکا۔ اس بھوک کی لذت طاقت اور بادشاہت میں ہے۔ جس کو ختم کرنے کو اس کے عادی افراد آخری حد تک جاتے ہیں۔ اس کی خوراک غلامی، افسر شاہی، کرپشن اور ہیر پھیر ہے۔ اس کا نشہ معدے کی دہائیوں کو نہیں سنتا۔

شہرت و تعریف و ستائش کی بھوک: آپ بہت اچھے ہیں۔ آج تو آپ کمال لگ رہے ہیں۔ ان جیسا کھانا تو ہمارے پورے حلقہ احباب میں کوئی نہیں بناتا۔ آپ کے بغیر تو ہمارے دفتر کے سارے کام رک جاتے ہیں۔ ہمارے خاندان میں ان جیسا اچھا شوہر کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔ آپ تو ہیرا ہیں ہیرا۔ ان سے ملیے ہماری خوبصورت ترین بیٹی۔ چچا جی! آپ کے بنا کسی میں یہ اہلیت نہیں کہ شادی بیاہ کے انتظامات دیکھ سکے۔ یہ وہ آوازیں اور جملے ہیں جو آپ کو اپنے بارے میں سننے کی عادت ہو جاتی ہے۔ اور اگر سارا دن میں ایک دفعہ بھی ایسی باتیں آپ کے کان نہ سنیں۔ تو آپ کی بھوک نہیں مٹتی۔ دل بوجھل رہتا ہے اور نا محسوس کی جانے والی اداسی گھیرے رکھتی ہے۔ آنتوں کا قل ہو اللہ پڑھنا سنائی نہیں دیتا۔ بس آنکھوں کے آگے آیا اندھیرا اسی وقت چھٹتا ہے، جب کوئی ایسی میٹھی، سریلی نفس کو تھپکی دیتی بات آپ سنیں۔

فیس بک اور سوشل میڈیا میں دکھائی دینے کی بھوک: یہ ’لائکس اور فالورز‘ کی دوڑ ہے۔ جتنی جلدی جتنے لائکس ملتے ہیں۔ آپ کا پیٹ پھول کر کپا ہو جاتا ہے۔ کتنے گھنٹوں میں کتنے فالورز بڑھے، آپ کی تسکین اس سے ہوتی ہے۔ اگر کسی پوسٹ پر پہلے کچھ لمحوں اور گھنٹوں میں پسندیدگی نہیں ملتی تو آپ کا بی۔ پی کم ہو رہا ہوتا ہے۔ اور بھوک اوپر کی حد تک چلی جاتی ہے۔ ادھر ’کلکس‘ زیادہ ہوئے، ادھر آپ کی بھوک کا گراف نیچے آیا۔ ورنہ بار بار اسکرین اسکرولنگ اور آنکھیں تو بس موبائل کی جلتی بجھتی روشنی اور سماعت ان نوٹیفکیشن کی آوازوں کی منتظر رہتی ہے جو آپ کی تشفی کر سکیں۔

یہ تو جناب چیدہ چیدہ بھوک کی اقسام ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ہیں، جیسے کہ محبت کی بھوک، جی حضوری کی بھوک وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان پر پھر کسی وقت خیال آرائی ہو گی۔ ابھی تو انھی پر اکتفا کریں۔ ویسے ہمیں تو کھانے سے پیٹ بھرنے اور فاسٹ فوڈ والی بھوک ہی سمجھ میں آتی ہیں۔ وگرنہ باقی سب تو نفس و ذہن کی بیماریاں معلوم ہوتی ہیں۔ جن کا علاج بھی معمول کی روٹی، چاول نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments