شہنشاہ جارج پنجم اور علمائے دیوبند کا اعلان جہاد


برصغیر میں ایک رواج ہے کہ ہر ایک کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا گروہ یا اس کے آبا و اجداد کی تمام عمر انگریز سامراج کے خلاف جد و جہد میں گزری تھی اور جب انگریز یہاں پر حکومت کر رہا تھا تو ہم ہی تو تھے جو فرنگیوں کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے اور انگریز ہمارے خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اور جس گروہ سے عداوت ہو اسے یا جس کو نیچا دکھانا ہو تو اس کا ایک آسان طریق یہ ہے کہ یہ الزام لگا دو یہ گروہ انگریز حکومت کے مصاحبوں کا گروہ تھا۔

آج تک ہماری سیاست اور ہمارا فن الزام تراشی اسی مرکز کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے۔ اس قسم کے الزامات مسلم لیگ پر بھی لگائے گئے تھے۔ اس کے بارے میں اس عاجز کے تین کالم ہم سب پر شائع ہوئے۔ ان کالموں کا لب لباب یہ تھا کہ جذباتی دعووں کی بجائے حقائق کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم افسانوں کا شکار بننے کی بجائے اپنی آراء کی بنیاد حقائق پر رکھیں۔

اب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ جب انگریز بادشاہ یہاں حکومت کر رہا تھا اس وقت علماء نے کیا کردار ادا کیا تھا؟ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ برصغیر میں تو بہت مسالک موجود تھے۔ اس کالم میں ہم صرف علمائے دیوبند کے خیالات کا تجزیہ کریں گے۔ اس مطالعہ میں ایک مشکل یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے سینکڑوں اساتذہ اور ہزاروں طالب علم گزرے ہیں، ان کی آراء میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ایسے جریدے کا جائزہ لیا جائے جو کہ اس مدرسہ کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ عرض یہ ہے کہ یہ جریدہ ماہوار رسالہ القاسم تھا۔ اور جس کے سرورق پر یہ لکھا ہوا ہوتا تھا ”مدرسہ اسلامیہ دیوبند“ نے شائع کیا۔ اور برٹش لائبریری نے اس کا کچھ ریکارڈ آن لائن مہیا کر دیا ہے۔

اس سلسلہ میں 1911 کا سال ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم اور ملکہ میری خود ہندوستان آئے اور دہلی میں باقاعدہ ان کی تاجپوشی ہوئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ 6 مئی 1910 کو ایڈورڈ ہفتم کا انتقال ہوا اور جارج پنجم برطانیہ کے بادشاہ بن گئے۔ برطانیہ میں ان کی باقاعدہ تاجپوشی 22 جون 2011 کو ہوئی اور اس کے بعد شاہی جوڑا آئرلینڈ گیا۔ اس کے قبل ہی یہ تجویز کیا گیا تھا کہ ان کی ایک تاجپوشی ہندوستان میں ہونی چاہیے کیونکہ اس وقت ہندوستان برطانوی سلطنت کا اہم ترین حصہ تھا۔ اس کا اعلان مارچ 2011 کو کیا گیا تھا۔ 7 دسمبر کو بادشاہ سلامت نے بذریعہ بحری جہاز ہندوستان میں قدم رکھا اور کچھ روز بعد دہلی میں داخل ہوئے۔ تاجپوشی کی رسم بڑے کروفر سے ادا کی گئی۔ اس کروفر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو تاج خاص طور پر اس موقع کے لئے تیار کیا گیا وہ اس زمانے میں ساٹھ ہزار پاؤنڈ میں تیار ہوا تھا۔ اس میں ہزاروں ہیرے جواہرات جڑے گئے تھے۔

اگر کسی گروہ کی تلواریں بے نیام ہونے کے لئے تڑپ رہی تھیں تو اس سے بہتر موقع ممکن نہیں تھا اور کیونکہ بادشاہ سلامت خود ہندوستان میں موجود تھے گویا شکار خود چل کر صیاد کے پاس آ گیا تھا۔ اب جائزہ لیتے ہیں کہ اس موقع پر مدرسہ اسلامیہ دیوبند کی طرف سے کیا اعلان شائع ہوا تھا۔ یہ اعلان ذوالقعدہ 1329 ہجری کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس کا متن درج کیا جاتا ہے۔

”آج کل ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہمارے شہنشاہ کی پر فوائد آمد آمد کا غلغلہ بلند ہے اور ہمارے ملک معظم نہایت وقیعانہ اور مربیانہ شان و شکوہ سے سرزمین دہلی میں مرتبہ افزائی فرمانے والے ہیں۔ تمام رعایا کا عموماً اور مسلمانان ہند کا جو کہ فطرتاً اور مذہباً حکومت کے حق میں وفادار پیدا کیے گئے ہیں خصوصاً یہ فرض ہے کہ وہ اپنی سچی وفاداری اور قلبی مسرت اور جوش عقیدت کا ایک ایسے مناسب پیرائے میں اظہار کریں جو کہ ایک ایسے بڑے جاہ و جلال اور محسن اور آزادی بخش بادشاہ کی جناب کے شایان شان ہو۔

مذہبی گروہ جس پر سب سے زیادہ شریعت کی حدود و قیود کی پابندی لازم ہے اسی کو سب سے بڑھ کر اپنے ایک بے نظیر منعم اور محافظ کی شکر گزاری اور احترام کا حق حاصل ہے۔ اس مقدس گروہ کو ہمارے نزدیک اس بے مثال اور گرامی قدر آزادی کی پوری قدر و عافیت سمجھنا چاہیے جو ان کو مذہبی فرائض کے ادا کرنے میں گورنمنٹ کی فیاضی سے ادا ہو رہی ہے۔

ہماری التجا ہے کہ مسلمان اس نادر موقع پر اپنی کامل اطاعت و فرمانبرداری اور دلی خوشی کے ظاہر کرنے میں کسی ممکن طریقہ سے دریغ نہ کریں گے اور اپنے شہنشاہ معظم کے حقیقی فلاح و بہبود کے دل سے دعا گو رہیں گے۔ ”

آپ اس اعلان کو کئی بار بھی پڑھیں تو اس میں کسی اعلان جنگ کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا۔ اس میں اگر ذکر ہے تو یہ کہ مسلمان مذہبی طور پر فطرتی طور پر اس حکومت کے وفادار پیدا ہوئے ہیں۔ اور موجودہ بادشاہ سلامت تو وہ فرمانروا ہیں جنہوں نے ہندوستان کو آزادی عطا کی ہے اور مذہبی گروہ کے لئے بادشاہ سلامت ایک محافظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر علماء پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ سلامت کی اطاعت کریں۔ اور مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ شہنشاہ جارج پنجم کے لئے دعا گو رہیں۔

بہر حال شہنشاہ جارج پنجم ہندوستان کو مستفید فرما کر شکار کے غرض کے لئے نیپال روانہ ہوئے۔ اور وہاں پر ان کی ٹیم نے 39 شیر، 18 گینڈے اور چار ریچھ مار کر بصد کامرانی برطانیہ کا رخ کیا۔ جہاں تک یہ عاجز تحقیق کر سکا ہے اس دورے کے دوران کسی طرف سے کسی بغاوت کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments