سیاسی عدم استحکام اور غیر مستحکم معیشت


کل ہی ایک خبر میری نظر سے گزری کہ متحدہ عرب امارات حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی حکومتی ملازم کاروبار کرنا چاہے تو اس سے ایک سال کی رخصت مل سکتی ہے اسی دوران وہ حکومت سے تنخواہ لینے کا مجاز بھی ہو گا۔ اگر اس دوران اس کا کاروبار مستحکم ہوا تو وہ اپنا استعفیٰ دے کر اپنے کاروبار کو جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی سکیم ہے، جس کے تحت سرکاری ملازمین اپنے ذاتی کاروبار کے لئے کوشش کر سکیں گے۔

سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کی ذہانت اور محنت سے مستقبل میں متحدہ عرب امارات کی معیشت مستحکم ہو سکے گی۔ تمام ماہرین سیاسیات و معیشت اس امر پر متفق ہیں کہ ایک مستحکم حکومت ہی اپنی معیشت کی عمارت کو عمدہ طریقے سے تعمیر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، یعنی سیاسی استحکام اور معیشت نہ صرف لازم و ملزوم ہیں بلکہ ایک دوسرے کے براہ راست متناسب بھی ہیں۔ اگر کسی ملک کی سیاست دھرنے، جلوس اور بلوے کا شکار ہو گی تو لامحالہ اس ملک کی معیشت زوال پذیر ہو گی۔

ایک غیر مستحکم حکومت کے دور میں سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے حجم میں اضافہ اور مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح مشاہدے میں آتی ہے۔ خاص طور پر مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح بھی کسی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جس کی بنا پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ مہنگائی کسی بھی ملک کی معیشت پر چاروں طرف سے حملہ آور ہوتی ہے، جس کی بنا پر برآمدات کے اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے جس کی وجہ سے لامحالہ ان میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مہنگائی صارفین کی جیب پر بھاری بوجھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے نظام کو بھی متاثر کرتی ہے۔

پاکستان اس نظریہ پر قائم ہوا کہ یہ بہترین معاشی ریاست ہو گا لیکن گزشتہ پچاس سالوں کے دوران وہ سیاسی کھینچا تانی ہوئی کہ الامان، منتخب سیاسی حکومتوں کی بلا وجہ بر طرفی، ڈکٹیٹر شپ کا نفاذ اور حکومت، عدلیہ، مقتدرہ، بیوروکریسی کے درمیان محاذ آرائی نے ہماری معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ تقسیم پاکستان کے بعد 1973 میں جب روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی، تو اس عرصے میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا اور غربت کی سطح 35 فیصد تک پہنچ گئی، اسی دوران پیپلز پارٹی کو احتجاجی سیاست کا سامنا کرنا پڑا۔

جب فوج نے دیکھا کہ اب سیاسی تفہیم و مفاہمت ممکن نہیں تو ایک بار پھر جنرل ضیاالحق کی قیادت میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ یہ مارشل لاء کے فوجی اور جونیجو کی کٹھ پتلی حکومت کی صورت میں 1988ء میں ختم ہوا۔ 1988ء سے لے کر آج تک کسی بھی حزب اختلاف نے حزب اقتدار کو قبول نہیں کیا، دھاندلی اور مقتدرہ کی حمایت کے الزامات لگا کر ہمیشہ نہ صرف حکمران جماعت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس کے متوازی معیشت کا بھی دھڑن تختہ ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ ہر سرمایہ کاری والے ادارے سے بھاری شرح سود پر قرضے لئے گئے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے توانائی اور زراعت کے شعبہ میں سبسڈیز کی اتنی بھر مار کی گئی کہ پہلے سے موجود قرضے کر سود در سود کی صورت میں واپس کرنے کی یقین دہانی پر قرضے کا حصول ممکن بنایا گیا۔

سیاسی استحکام کے انڈیکس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان سیاسی استحکام کے لحاظ سے اس وقت 181 ویں نمبر پر ہے اور 1996ء سے لے کر 2021ء تک یہ انڈیکس۔ 1.67 فیصد رہی ہے۔ مزید یہ کہ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بے روزگاری اور کرپشن کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 2013 سے 2018 تک مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کی طرف بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قرضوں کی شرح میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان کو کئی معاشی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔

دور نہیں جاتے ماضی کی بات کرتے ہیں جب عمران خان کے 126 دن اسلام آباد میں بیٹھنے کی وجہ سے ملک کے تمام تجارتی راستے بند اور کاروبار ٹھپ ہو گیا جس سے کم از کم 600 سے 700 ملین کا نقصان ہوا۔ سابقہ دور حکومت میں گو عمران خان کو عدلیہ اور مقتدرہ کا بھر پور ساتھ رہا ہے لیکن بھاری مارک اپ، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور سیاسی افراتفری کا سامنا رہا۔ ملکی سرمایہ کاروں نے سیاسی عدم تحفظ کی بنا پر نہ صرف چپ سادھ لی بلکہ تیزی سے اپنا سرمایہ بیرون ممالک منتقل کرنے میں لگے رہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم دوبارہ حکومت میں تو آ گئی ہے لیکن سیاسی عدم استحکام کے باعث مہنگائی کی شرح 16.8 فیصد سے 20.3 فیصد تک ہو گئی ہے۔

جب کوئی بھی سیاسی حکومت غیر مستحکم ہوتی ہے تو اس کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مختلف اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار اداروں سے قرضہ لے کر اضافی اخراجات پورے کرے، اپنے اس مقصد کے حصول کے دوران بیرونی قرضہ جات کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے، بجٹ خسارہ اور مہنگائی کی شرح بھی بڑھتی ہے جس کا سب سے زیادہ بوجھ عوام پر پڑتا ہے (ایلسینا، 1990 ) ۔ اس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی عوام پر گرفت کمزور ہوتی ہے اور عوام میں انقلابی خیالات اور سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

عوام کے اذہان میں باغیانہ سوچ پیدا ہوتی ہے اور ملک میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے (گراسمین 1991 ) ۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی موجودہ صورت حال اس تھیوری کے مطابق دکھائی دیتی ہے، گزشتہ تیس سالوں کے دوران ہر کمزور اور غیر مستحکم حکومت نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر قرضوں اور سبسڈی کے نام پر مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کیا، جس کی وجہ سے غیر ملکی طاغوتی طاقتوں نے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے سہارے پر تحریک انصاف کی قیادت کو ایک مسیحا کے روپ میں پیش کیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ذی شعور اور تعلیم یافتہ فرد کی نظریں اس وقت عمران خان پر لگی ہوئی ہیں کہ یہی وہ لیڈر ہے جو پاکستان کی ڈولتی ناؤ کو اس طوفان سے نکال سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ حکومتیں کیوں ناکام ہوئیں؟ دراصل جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئی اس کا مطمح نظر ذاتی مفاد تھا نہ کہ ملک کو بیرونی قرضوں سے نجات دلا کر بنگلہ دیش اور بھارت جیسی معیشت بنانا تھا۔ قلیل المیعاد حکومتی پالیسیوں نے گو وقتی طور پر ناؤ میں پیوند کا کام تو کیا لیکن ہمیں کوئی بھی ایسا حکمران میسر نہ ہو سکا تو کوئی ایسی طویل المیعاد پالیسی نافذ کرتا جس کی وجہ سے نہ صرف غیر ملکی قرضوں سے نجات مل جاتی بلکہ مہنگائی کا خاتمہ بھی ممکن ہوتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ ہمارے ملک پر سب سے زیادہ طویل عرصہ حکمرانی کرنے والے تمام ڈکٹیٹر ہی تھے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اندرونی غداروں اور بیرونی سازشوں کے سامنے کسی کو بھی دم مارنے کی مجال نہ ہوئی اور ہمارے معیشت سود اور مارک اپ کے جال میں ایسی پھنسی کہ اب تو سانس لینا بھی محال ہے۔

ان تمام حقائق سے نتیجہ اخذ کرنے میں بہت آسانی ہو گی کہ سیاسی استحکام سے ہی معیشت کی ترقی ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان ابتداء سے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی ترقی میں ناکام رہا ہے۔ وسائل کے درست استعمال، کرپشن کو کم کرنے کے لیے مناسب چیک اینڈ بیلنس، طویل المدتی منصوبہ بندی، مناسب اور باقاعدہ انتخابات جیسے اقدامات کر کے پاکستان ایک بہتر معاشی ملک بن سکتا ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق اگر مقتدرہ، عدلیہ اور سیاست دان مل بیٹھ کر صرف سیاسی استحکام کے حصول کی ٹھان لیں تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم ایک پرامن اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments