سیلاب زدہ حاملہ خواتین طبی سہولیات سے محروم


فاضلہ کچھ اور گرد و نواح کا علاقہ بنیادی مرکز صحت کوہ سلیمان سے 20 کلومیٹر اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے 50 کلومیٹر کے دشوار گزار فاصلے پر واقع ہے۔ فاضلہ کچھ کے رہائشی 25 سالہ ذبیح اللہ کی اہلیہ تیسرے بچے کی پیدائش کے وقت طبی مسائل اور دائی کے علاج میں پیچیدگی کی مشورے کی وجہ سے پہلی مرتبہ زچگی کے علاج کے لئے اپنے گھر سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو) کوہ سلیمان لے گیا لیکن وہاں ڈاکٹر نہیں ہونے کی وجہ سے 50 کلومیٹر دور تونسہ شریف لے جانے کی کوشش کی۔ جس کے لئے پہلے خاتون کو چارپائی پر لٹا کر پہاڑ پر واقع گھر سے مرکزی سڑک تک لایا گیا۔ تونسہ شریف جانے والی یہ سڑک بھی سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اس لیے مریضہ کو لے جانے کے لیے فور ویل گاڑی کا استعمال کیا گیا لیکن راستے کی ان رکاوٹوں کی وجہ سے مریضہ راستے میں ہی دم توڑ گئیں۔

کوہ سلیمان، کے علاقے و یہاں کے رہائشی اور قبائلی سردار عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے پر 2 سال قبل تحصیل کا درجہ دیا گیا تھا لیکن اب تک یہاں واقع بنیادی مرکز صحت کو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کے طور پر اپ گریڈ کرنے کے لئے کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ یہاں ایک ڈاکٹر اور ایک ہی لیڈی ڈاکٹر تعینات ہے جن کی ڈیوٹی پر روزانہ موجودگی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ 28 جولائی کو مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے بنیادی مرکز صحت و کوہ سلیمان کی عمارت پانی سے بھر گئی جس کی وجہ علاج کی رہی سہی سہولت بھی چھن گئی۔

تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال تونسہ شریف کے شعبہ گائنی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نویدہ انجم کہتی ہیں کہ کوہ سلیمان کی پسماندگی اور غربت، دوران زچگی شرح اموات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن سیلاب کے بعد انفراسٹرکچر مزید تباہ ہو گیا ہے جس سے حاملہ خواتین کو طبی مقامات تک پہنچنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سیلاب سے متاثرہ ضلع ڈی جی خان کے 70 بنیادی مراکز صحت میں سے 40 سیلاب و بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں 25 بی ایچ یوز مکمل طور پر تباہ ہو گئے، 15 مراکز صحت میں عمارت کے ساتھ طبی آلات و مشینری کو نقصان پہنچا اور مشینری و آلات ناکارہ ہو گئے۔ پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بلند ترین شرح والے علاقوں میں ضلع ڈی جی خان بھی شامل ہے جہاں سالانہ 80 ہزار زچگیوں کے دوران کم و بیش سالانہ 250 سے 300 حاملہ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ محکمہ صحت ڈی جی خان کے مطابق زچگی کے دوران خواتین کی اموات کو کم سے کم کرنے کے لئے کوشاں ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ ایل ایچ ویز کی کمی کو پورا کرنے کے مزید گائناکالوجسٹس کی بھرتی جلد مکمل کرنے کے لئے آسامیاں بھی مشتہر کر دی گئی ہیں اور جلد بھرتی مکمل کر لی جائے گی۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ضلع ڈی جی خان کا شمار ملک کے سب سے پسماندہ ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا واحد زمینی راستہ بھی اسی ضلع سے گزرتا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد کے رپورٹ 2021 ء کے مطابق ضلع ڈی جی خان غربت کی شرح میں ملک بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔ جہاں غربت کی شرح ساڑھے 42 فیصد ہے۔ حالیہ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق پاکستان اپنے گراس ڈیموسٹک پروڈکٹ (جی ڈی پی ) کا صرف 1.2 فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے جبکہ صوبہ پنجاب اپنے کل بجٹ کا 4.5 فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے۔

کوہ سلیمان کے علاقہ فاضلہ کچھ کے سابق چیئرمین یونین کونسل اسلم بزدار کا کہنا ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے انگریز دور میں بنایا گیا ہیلتھ یونٹ اب بنیادی مرکز صحت کوہ سلیمان کے نام سے جانا جاتا ہے یہاں 25 سال پہلے تک پنجاب کی رہائشی خاتون ایل ایچ وی کے طور پر کام کر رہی تھی لیکن سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی کوششوں سے یہاں مرد و خاتون ڈاکٹر تعینات ہوئے تاہم دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ڈیوٹی پر موجود رہنا ایک مشکل امر ہے اور یہاں کا عملہ تبادلے کے لئے کوشاں رہتا ہے جبکہ یہاں سے اکا دکا پڑھ لکھ جانے والے ڈاکٹر بننے کے بعد یہاں کا رخ نہیں کرتے ہیں اور بڑے شہروں میں جا بستے ہیں۔

ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈی جی خان عدنان خان کے مطابق ضلع کی 47 لاکھ آبادی کے لئے طبی عملہ میں میڈیکل آفیسرز، لیڈی میڈیکل آفیسرز اور ڈینٹل سرجنز کی تعداد 258 جبکہ ایل ایچ ویز، ایم ٹیز، لیب اسسٹنٹس، ویکسینیٹرز، ڈسپنسر، سوشل آرگنائزر اور فیمیل سوشل آرگنائزر کی تعداد 1570 ہے۔ یہ محکمہ صحت پنجاب کے پے رول پر ہے۔

سماجی کارکن رشدہ احمد کہتی ہیں کہ کوہ سلیمان میں زچگی کیسز کو 50 کلومیٹر دور تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال لے جانا پڑتا ہے یا پھر اسی فاصلے پر تونسہ شہر تک کا مشکل راستہ عبور کر کے پرائیویٹ ڈاکٹرز کے پاس جانا پڑتا ہے جو آپریشن کے ساتھ ڈیلیوری کے لئے 30 سے 40 ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے 10 لاکھ کی آبادی کے لئے قائم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں صرف 5 خواتین گائنی ڈاکٹرز تعینات ہیں لیکن حالیہ سیلاب کے بعد سے راستوں کی بندش کی وجہ سے یہاں تک آنا ہی دشوار ہو گیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر نویدہ انجم کے مطابق ضلع ڈی جی خان کی آبادی دوردراز رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور حکومتی وسائل کے مطابق سب کو طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا سکتی ہیں، تاہم گھر گھر جا کر موبائل یونٹ کے ذریعے شرح اموات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جن علاقوں میں لوگ ہسپتالوں تک پہنچ نہیں پاتے ہم مقامی لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کو تربیت دیں تاکہ وہ بہتر خدمات فراہم کرسکیں۔ سیلاب کے بعد تربیت کی فراہمی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

مقامی شہری زبیح اللہ کے مطابق 15 ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل فاضلہ کچھ کے علاقے میں ایسا کوئی نجی کلینک بھی نہیں ہے کہ جہاں کوئی ماہر ڈاکٹر زچگی میں پیچیدگی کا شکار ان کی اہلیہ کی جان بچا سکے۔ اس کے علاوہ غربت کی وجہ سے وہ پہلے علاقہ میں موجود دائی کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ یونین کونسل فاضلہ کچھ سمیت 7 یونین کونسلوں کو صرف ایک بنیادی مرکز صحت کوہ سلیمان کی سہولت حاصل ہے۔ ان یونین کونسلوں کی آبادی لگ بھگ 60 ہزار ہے، اس بی ایچ یو میں صرف ایک مرد اور ایک خاتون میڈیکل افسر کے ساتھ ایک ایل ایچ وی اور دیگر تھوڑا سا طبی عملہ تعینات ہے جبکہ اکثر صرف طبی عملہ ہی دستیاب ہوتا ہے۔

ایک بنیادی مرکز صحت 25 سے 30 ہزار آبادی کی بنیاد پر بنائی جاتی ہے تاہم بنیادی مرکز صحت کے ڈھانچے میں 4 کمرے، ایک سٹور روم، عملے میں ایک میڈیکل افسر ، ایک لیڈی میڈیکل افسر ، فی میل میڈیکل ٹیکنیشن، میل میڈیکل ٹیکنیشن، ویکسینیٹر، چوکیدار اور سویپر شامل ہیں۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ضلع ڈی جی خان کے 70 بنیادی مراکز صحت میں سے 30 مکمل طور پر فعال ہیں جبکہ بارشوں سے متاثرہ بنیادی مراکز صحت کو بھی علاج کی بنیادی سہولیات کے لئے فعال کر دیا گیا ہے۔ جہاں رواں سال 2022 ء میں 10 ہزار 320 ڈیلیوریاں رپورٹ ہوئی ہیں جن میں 4 ہزار 110 بی ایچ یوز اور 6 ہزار 210 گھروں میں ہوئیں۔

36 سالہ معین الدین کا تعلق کوہ سلیمان کے علاقے بستی گنجانی سے ہے وہ ضلع ڈی جی خان ایک سرکاری محکمے میں بطور ڈرائیور ملازمت کرتے ہیں۔ معین الدین کا کہنا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کے بعد آج بھی ہمارے علاقے میں پانی موجود ہے۔ جب بارشیں شروع ہوئیں اور پہاڑ سے معمول سے زیادہ پانی اترنا شروع ہوا تو اس کی اہلیہ امید سے تھی۔ اس کی اہلیہ پہلے بھی آپریشن کے ذریعے ایک بچہ پیدا کر چکی ہے۔ گو کہ ابھی پیدائش میں وقت تھا لیکن پیدائش کی ہنگامی حالت کے امکان کے ساتھ قدرتی آفت کی وجہ سے وہ پہلے ہی اپنی اہلیہ کو اپنے ادارے کے سرکاری کوارٹر میں لے گیا اور ادارے کے ہسپتال میں میرے بچے کی ڈیلیوری ہوئی ہے اگر اس کی بیوی اپنے علاقے میں ہوتی تو شاید وہ یا بچہ یا پھر دونوں میں کوئی نہیں رہتا۔

اس لئے بروقت اقدام کی وجہ سے آج وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہے جبکہ اس کے علاقہ کی صورتحال کئی ماہ بعد بھی ابتر ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں صحت کے شعبے میں کام کرنے والی سماجی تنظیم کی رکن سدرہ خضر کے مطابق دور دراز علاقوں میں حاملہ خواتین کی زندگی بچانے کے لئے تربیت اور کٹس کی فراہمی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حکومت سے زیادہ سماجی تنظیموں نے میڈیکل کیمپ منعقد کئے گئے جہاں معالجین نے ایک لاکھ سے زائد مریضوں کو او پی ڈی کی سہولت فراہم کی اور مریضوں کو مفت ادویات بھی فراہم کی گئیں۔ اس کے ساتھ سماجی تنظیموں کی جانب سے ڈیلیوری کٹس فراہم کی گئیں جن میں ضرورت کا تمام طبی سامان ہونے کے ساتھ بچے کے کپڑے اور ماں کے لئے پنجیری تک موجود تھی نیز خواتین کو ان کا استعمال بھی سمجھایا گیا۔

محکمہ صحت کے انچارج وبائی امراض ڈاکٹر ریاض حسین کہتے ہیں کہ سیلاب کے بعد صورتحال گمبھیر ہو گئی ہے، البتہ گائناکالوجسٹس اور تربیت یافتہ دہائیوں کی کمی کے لئے محکمہ صحت کوششیں کر رہی ہے۔ آئندہ 5 سالوں میں ایل ایچ ویز کا خلاء پورا کیا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت ڈی جی خان کی مختلف تحصیلوں میں تربیت فراہم کی جا رہی ہے وہ کہتے ہیں کہ تربیت یافتہ ایل ایچ ویز کی سیلاب کے دوران سب سے زیادہ ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ ماہر امراض نسواں کی کمی کو دور کرنے کے لئے گائناکالوجسٹس کی تعیناتی کی سمری بھیج دی گئی ہے جلد ہی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments