ماضی سے جڑی چسکہ بھری کہانیاں


میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے ”حقوق“ کے تحفظ کے لئے مختلف النوع آئینی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ہمیں ”بااختیار“ بنانے کے لئے اگرچہ وہ شاذ ہی بروقت متحرک نظر آئے۔ فقط اپنا اختیار ثابت کرنے ہی کو اکثر ہوش میں آتے ہیں۔

جمہوری نظام کا استحکام منتخب بلدیاتی حکومتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ بدقسمتی مگر ہماری یہ رہی کہ 1958ء سے عسکری اداروں کی بالادستی کی وجہ سے اقتدار پر قابض ہونے والوں ہی نے ”اصل جمہوریت“ کے قیام کے لئے منتخب بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو اجاگر کرنا لازمی شمار کیا۔”نااہل اور بدعنوان“ ٹھہرائے قومی سطح کے سیاستدانوں کے متبادل ڈھونڈنے کے لئے نام نہاد ”گراس روٹس“ سے دکھائی یہ محبت بدنیتی پر مبنی تھی۔ اسی باعث آمروں کی رخصت کے ساتھ ہی ان کے متعارف کردہ بندوبست بھی فضا میں تحلیل ہوتے رہے۔

میں جن دنوں پرائمری جماعتوں کا طالب علم تھا تو وطن عزیز میں ”بی ڈی ممبروں“ کا چرچا ہوا کرتا تھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں ضلعی کونسلیں وجود میں آئیں۔ جنرل مشرف نے البتہ نقوی صاحب کی صورت ایک جید ”ارسطو“ دریافت کر لئے۔ برطانوی استعمار کے متعارف کردہ انتظامی بندوبست کو انہوں نے پاش پاش کرنے کا عہد باندھا۔ ڈی سی کو ڈی سی او بنادیا۔ اس کے اختیارات میں کمی نے مگر میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو بااختیار نہیں بنایا۔ سرکاری افسران کی دیگر اقسام ہی کو مزید اختیارات منتقل کر دئیے گئے۔ ”ٹاپ ڈاﺅن“ انتظامی ماڈل کی جگہ طاقت و اختیار کے متوازی مراکز نمودار ہو گئے۔

جنرل مشرف اور ان کے ہم نوا اپنے متعارف کردہ بلدیاتی بندوبست کے بارے میں بہت فخر محسوس کرتے تھے۔ اسلام آباد کا 1975ء سے رہائشی ہوتے ہوئے میرا جھکی ذہن نجی محفلوں میں اکثر ان کے روبرو یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوجاتا کہ اگر ان کا متعارف کروایا بلدیاتی بندوبست اتنا ہی شاندار ہے تو اسلام آباد کو اس سے محروم کیوں رکھا گیا ہے۔ یہ واحد شہر تھا جسے مشرف حکومت نے منتخب مقامی حکومت سے ”بچائے“رکھا۔ وجہ اس کی بہت سادی تھی۔ اسلام آباد کی زمینیں بہت مہنگی ہورہی تھیں۔امن وامان کے حوالے سے بھی یہ شہر بقیہ پاکستان کے مقابلے میں صاف ستھرا اور محفوظ جزیرہ نظر آتا تھا۔اسی باعث دیگر شہروں کے لوگ یہاں آباد ہونے کو ترجیح دینا شروع ہو گئے۔ انہیں آباد کرنے کو نئے سیکٹر درکار تھے جن کے قیام کا اجارہ سی ڈی اے کی افسر شاہی تک محدود رکھنا لازمی تھا۔ یہ اجارہ بھی لیکن اس شہر کے نواحی مضافات کے ”زرعی رقبوں“ کو ”ہاﺅسنگ سوسائٹیوں“ کے سیلاب سے محفوظ نہیں رکھ پایا۔ زرعی رقبوں کی تیز رفتار تباہی اسلام آباد کے موسم کو بتدریج پریشان کن انداز میں بدل رہی ہے۔ درختوں کی بے رحم کٹائی کے بعد ”کنکریٹ کے جنگل“ نمودار ہو رہے ہیں۔ مضافات میں تیزی سے پھیلتی ”کچی“ اور ”باقاعدہ“ بستیوں میں زیر زمین پانی تقریباََ نایاب ہو چکا ہے۔ اسلام آباد کے آسمان پرمٹی کی تہیں ماحول کو اداس بنائے رکھتی ہیں۔ جو مضافات نمودار ہوئے ہیں وہاں بنیادی صحت اور تعلیم کا بندوبست نظر ہی نہیں آتا۔”ہنگامی“ حالتوں میں مریض کو اس شہر کے واحد مرکزی ہسپتال ہی لانا پڑتا ہے جس کا معیار چند دن قبل ہی اپنی آنکھوں سے کامل تباہ ہوا دیکھا ہے۔

عمران خان صاحب بھی کئی برسوں سے اسلام آباد کے شہری بن چکے ہیں۔ وہ خود کو ماحول کا فکر مند محافظ بنا کر بھی دکھاتے ہیں۔ اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے خواہاں بھی ہیں۔ امید تھی کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران اسلام آباد کو ایک ”مثالی“ اور منتخب ”مقامی حکومت“ میسر ہو جائے گی۔”ایسا مگر ہو نہیں پایا۔بارہ منٹ کی تاریخی عجلت میں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے والا قانون منظور کروانے والی عمران حکومت مطلوبہ حکومت کا قانون ہی اپنے دور اقتدارمیں تیار نہ کر پائی۔

سیاست کی ستم ظریفی مگر یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے تحریک انصاف ہی اسلام آباد کے ”شہری حقوق“ کی واحد وتنہا چمپئن نظر آ رہی ہے۔کافی لیت و لعل کے بعد بالآخر گزشتہ برس کے 31 دسمبر کو اس شہر میں ”پرانے قانون“ کے تحت ہی بلدیاتی انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا۔ طے شدہ انتخابات کے لئے چلائی مہم نے واضح انداز میں یہ پیغام دیا کہ مذکورہ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف اگر واضح اکثریت حاصل نہ کرپائی تب بھی 101 میں سے کم از کم 45 سے 50 نشستیں جیت جائے گی۔ شہباز حکومت کے چہیتے افسر مذکورہ امکان سے گھبرا گئے۔ اچانک انہیں یاد آ گیا کہ اسلام آباد کی آبادی تو بہت بڑھ چکی ہے۔ 101 یونین کونسلیں اس کے لئے کافی نہیں۔ ان کی تعداد 125 ہونا چاہیے۔ عجلت میں کئے اس فیصلے کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے انکار نے موجودہ حکومت کو اپنا ”اختیار“ ثابت کرنے کو اکسایا۔ راتوں رات ایک ”نیا“ قانون تیار ہوا۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے اسے شرمناک عجلت سے منظوربھی کر دیا۔ الیکشن کمیشن کے ہاتھ یوں باندھ دئے گئے۔

الیکشن کمیشن کے ہاتھ کھولنے کو نظر بظاہر اسلام آباد ہائیکورٹ تب اپنا ”اختیار“ دکھانے کو مجبور ہوئی۔ 31 دسمبر سے عین ایک دن قبل الیکشن کمیشن کو حکم ملا کہ وہ ہر صورت طے ہوئے دن ہی انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔عملی اعتبار سے اس حکم کی تعمیل ممکن ہی نہیں تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کو اب اپنا ”اختیار“ ثابت کرنے کو مزید دن درکار ہوں گے۔ دریں اثنا صدر مملکت عارف علوی کو بھی یاد آ گیا کہ ان کے بھی چند ”اختیارات“ ہیں۔پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوئے قانون پردستخط کرنے کے بجائے اسے اعتراضات لگاکر واپس بھیج دیا جائے۔ وفاقی حکومت اب جواباََ اپنا ”اختیار“ ثابت کرنے کا بھی ہر صورت جتن کرے گی۔ نیا تماشا لگ جائے گا۔یہ تماشہ میڈیا میں شاید زیادہ رونق لگا نہیں پائے گا۔ وہ بے تابی سے ”نئے“ آڈیوز یا وڈیوز کا منتظر ہے۔ ان کے آنے تک ابلاغ ہنر کے ماہر میرے قابل احترام ساتھی جاوید چودھری صاحب کے کالموں میں ہوئے انکشافات ہی سے اپنی ہٹی چلارہا ہے۔ باجوہ صاحب عمران خان صاحب کے مذکورہ انکشافات کی بدولت محسن نظر آرہے ہیں۔ ان کی ”احسان مندی“ مگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ”بابا رحمتے“ والی پہچان پر سوال اٹھا رہی ہے۔ ان کی ذات ہی فقط نشانہ بنی ہوتی تو عام شہری کی حیثیت میں ذاتی طورپر میں ہرگز فکر مند نہ ہوتا۔ ہمارے عدالتی نظام کی ”آزادی“بھی ”انکشافات“کی وجہ سے مشکوک محسوس ہونا شروع ہو گئی ہے۔ عمران خان صاحب مگر اس کی بابت فکر مند نہیں۔ باجوہ صاحب پر مزید الزامات لگائے جارہے ہیں۔ماضی سے جڑی چسکہ بھری کہانیاں ہمیں مستقبل کے حوالے سے سنگین تر ہوتے معاملات پر توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دے رہیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments