تحریک انصاف کی مومنہ وحید نے پرویز الہیٰ کو ووٹ نہ دینے کی وجوہات بتا دیں


تحریک انصاف کی ممبر پنجاب اسمبلی مومنہ وحید نے آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ نہیں دیں گی۔ اس بارے میں ان کا موقف لینے کے لیے ”ہم سب“ سے ٹویٹر سپیس پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مومنہ وحید نے تصدیق کی کہ وہ چودھری پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے ممبران کو بیس دن تک ہوٹل میں قید رکھا گیا۔ اس دوران ان کی بیٹی شدید بیمار ہوئی لیکن نہ تو اس سے رابطہ کرنے اور نہ ہی ملنے کی اجازت دی گئی۔ صبح شام گنتی کی جاتی ہے، فون ٹیپ کیے جاتے ہیں، توہین کی جاتی ہے۔ پھر ووٹ کی توقع کرتے ہیں۔ ہم نے چیئرمین کے حکم کے احترام میں یہ سب بدسلوکی برداشت کی۔

یاد رہے کہ جب حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے ووٹنگ کی جا رہی تھی تو اس دوران پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جو خواتین ممبران سب سے نمایاں دکھائی دیں، ان میں مومنہ وحید شامل تھیں۔ مومنہ وحید نے بتایا کہ اس سلسلے میں ان پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے، باقی ممبران کی جلد ضمانت ہو گئی لیکن ان کی ضمانت دو مہینے بعد جا کر ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ چودھری پرویز الٰہی سے تحریک انصاف کے ممبران اور وزرا کی ملاقات بہت مشکل سے کروائی جاتی ہے۔ تین تین مہینے تک وقت نہیں دیا جاتا۔ وقت ملنے پر انہیں چار چار گھنٹے انتظار کروایا جاتا ہے اور اس دوران کلاس فورس کے ملازمین یعنی دربان ویٹرز وغیرہ کے ساتھ آپریٹر روم میں بٹھا کر انتظار کروایا جاتا ہے۔ جبکہ قاف لیگ کے ممبران بغیر روک ٹوک کے ان کی آنکھوں کے سامنے چودھری پرویز الہیٰ سے ملاقات کے لیے اندر جا رہے ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی تحریک انصاف سے پندرہ برس کی وابستگی ہے۔ ووٹ نہ دینے کی صورت میں انہیں نا اہل کیا گیا تو انہیں فرق نہیں پڑے گا۔ وہ ہر حال میں تحریک انصاف کی کارکن رہیں گی۔ چیئرمین عمران خان کے حکم پر اسمبلی توڑی جاتی تو ان کی رکنیت تو ویسے ہی ختم ہو جاتی اور وہ اس کے لیے تیار تھیں۔

انہوں نے کہا کہ چودھری پرویز الہیٰ اپنا الیکشن بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی پوزیشن خراب کر رہے ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ان کا یہ فیصلہ کسی قسم کے دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا ہے، یا پھر جیسا کہ الزامات لگائے جا رہے ہیں، ایسا کسی لالچ کی وجہ سے کیا گیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ اگر لالچ کرنا ہوتا تو اس وقت کرتی جب حمزہ شہباز اعتماد کو اعتماد کا ووٹ دینے کے لیے بہت پرکشش وعدے کیے جا رہے تھے۔ اس وقت ہم لالچ میں نہیں آئے تو اب کیا آئیں گے۔ جس طرف آپ کا اشارہ ہے مجھے وہاں سے یا کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے کوئی کال تک نہیں آئی۔

پارٹی چیئرمین نے پہلے بھی چودھری پرویز الہیٰ صاحب کو وزیراعلی بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہم نے باقاعدہ ایک جنگ لڑی اور آخر تک ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ اب دوبارہ یہ فیصلہ ہوا ہے تو اب چھے مہینے ہم نے ان کے اقتدار کو دیکھ لیا ہے، اور معاملات کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ فیصلہ پہلے بھی غلط تھا اور آنے والے وقت میں بھی غلط ثابت ہو گا۔

ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے اکیلے یہ فیصلہ کیا ہے یا آپ کے ساتھ دوسرے ممبران بھی شامل ہیں۔ کیا پارٹی کے اندر اس پر بات ہوئی ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر تو اس وقت بات ہو جب آپ کی کسی تک رسائی ہو۔ میں نے تو جب کووڈ کی بیماری کے دوران اپنے چیف وہپ کو اپنی بیماری سے مطلع کیا اور انہیں میڈیکل رپورٹ بھی بھیجی، تو اس وقت جب میرا بار بار پوچھا جا رہا تھا، انہوں نے کسی کو انفارم ہی نہیں کیا۔ چیف وہپ کا کام ہے سی ایم آفس اور باقی قیادت کے دوران رابطہ کرنا۔ یوں ایک پروپیگنڈا بنتا گیا جبکہ میں تو پچھلے تین ماہ سے نہیں جا رہی تھی۔ میرے اعلان کے بعد تین ممبران نے اور اناؤنس کر دیا۔ پارٹی کے اندر بات نہیں کرنے دی جاتی۔ اتنا زیادہ کنٹرول کیا جاتا ہے جتنا سکول میں بچوں کو بھی نہیں کیا جاتا۔ بات کریں تو سوشل میڈیا پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے۔

پنجاب میں کوئی کمٹ منٹ پوری نہیں کی گئی۔ پہلے بزدار صاحب تھے جو نہ بولتے تھے نہ سنتے تھے، اب پرویز صاحب ہیں جن کا سارا زور اپنا الیکشن جیتنے اور گجرات اور منڈی بہا الدین کو پیرس بنانے پر ہے۔ میری پندرہ برس کی وابستگی ہے، گراس روٹ لیول پر کام کیا ہے، اور آج یہ انصافی اٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ گفٹ میں سیٹ دی گئی تھی۔ تو یہ گفٹ 2013 میں کیوں نہیں دے دیا گیا؟ اسے احسان بنا رہے ہیں کہ جسے دیں وہ آپ کا احسان مند رہے۔ یہ میرا حق تھا۔

اس سوال پر کہ آپ کو پارٹی کے مرضی کے خلاف ووٹ دینے پر نا اہل کر دیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے میں خود جا کر اپنا استعفیٰ خان صاحب کو پیش کرو دوں گی۔

اس سوال پر کہ کیا آپ سے پیپلز پارٹی یا کسی دوسری جماعت نے اس اعلان سے پہلے یا بعد میں رابطہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، میں اپنے گھر میں بیٹھی ہوں۔ مجھ پر کسی کا دباؤ یا لالچ نہیں ہے، میں خان صاحب کو استعفیٰ پیش کر دوں گی مگر پرویز الہیٰ کو ووٹ نہیں دوں گی۔

سوال: کیا آپ سے پارٹی قیادت نے رابطہ کیا ہے؟

مومنہ وحید نے جواب دیا کہ پارٹی قیادت میں بہت سے لوگوں نے رابطہ کیا ہے، ممکن ہے کہ ایک دو روز میں ملاقات ہو۔

اس سوال پر کہ اگر عمران خان صاحب نے آپ کو حکم دیا کہ آپ پرویز الہٰی کو ووٹ دیں، تو پھر آپ کا کیا فیصلہ ہو گا، انہوں نے کہا کہ تو پھر پاکستان تحریک انصاف کا کوئی امیدوار لے آئیں، بہت قابل اور شاندار لوگ موجود ہیں۔ انہیں نومی نیٹ کریں، ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ پہلے بھی اعتراض نہیں تھا، آئندہ بھی نہیں ہو گا، پی ٹی آئی کا تو ہو۔

سوال کیا گیا کہ عمران خان کو وزیر آباد میں گولی لگی، ان کا پرچہ درج نہیں ہوا۔ لیکن پھر بھی وہ چودھری پرویز الہیٰ کی حمایت کر رہے ہیں، تو آپ کیوں نہیں کر رہیں۔

اس پر مومنہ وحید نے جواب دیا کہ چیئرمین صاحب کا دل بہت بڑا ہے، وہ بہت عظیم آدمی ہیں، وہ بہت بڑے لیڈر ہیں، ان کا ظرف بہت بڑا ہے، وہ معاف کر سکتے ہیں۔ ہم چھوٹے لوگ ہیں، ہمارے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ لیکن ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران ان کے گھر کے نیچے ہمارے چیئرمین اور ہمارے لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، لیکن آج تک ہمارے کہنے کے مطابق ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ کیا ہمارا اتنا بھی حق نہیں تھا؟

سوال: کیا پرویز الہیٰ کو اعتماد کا ووٹ مل جائے گا؟

مومنہ وحید نے کہا کہ ضرور ملنا چاہیے، یہ جو الزام لگ رہا ہے کہ ووٹ خریدے جا رہے ہیں، تو آپ بھی پچاس سال سے سیاست کر رہے ہیں، ایسے ہی ووٹ بک رہے ہیں آپ بھی ووٹ خرید لیں پھر۔ اپنا نمبر پورا کر لیں۔ آپ نے عمران خان پر سارا انحصار کیا ہوا ہے کہ وہ آپ کو ووٹ لے کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments