عابد میر کی کتاب: ڈپریشن ڈائری


عابد میر وہ لکھاری ہے جس نے عصر حاضر میں ایک ایسی کتاب لکھ لی ہے جو نہ فکشن ہے، نہ ناول اور نا ہی نان فکشن بلکہ کھلے عام اعتراف ہے اور اس اعتراف کا برملا اظہار ہے۔

ڈپریشن ڈائری اسی کتاب کا نام ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے بھی میں عابد میر کے چند اور کہانیوں والی کتابیں پڑھ چکا ہوں مگر یہ کتاب دیگر کتابیں جیسا کہ دو رنگی، کہانی صلیب پر، جنگ محبت اور کہانی وغیرہ سے مختلف ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر میں ششدر بیٹھا اور پھر بھی اس تشنگی کے ساتھ پڑھتا رہا کہ مصنف نے اور کون کون سے اعترافات کیے ہیں۔

اس کتاب کے مطالعے کے دوران میری حیرانی پہلی دفعہ تو نہ تھی اس سے پہلے میں نے پاولو کوئیلو کے موٹیویشنل کتابیں پڑھی پھر پاؤلو کوئیلو کی ایک ایسی کتاب میرے ہاتھ آئی جو ان کے دیگر کتابوں سے بہت مختلف تھی اور اس کتاب کا نام گیارہ منٹ تھا۔ عابد میر کے اس کتاب کو پڑھ کر بھی مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ بہت مختلف ہے۔ میں بطور ایک قاری اس کتاب کو لکھنے پر عابد میر کو داد دیتا ہوں کہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں اس نے ایسے ایسے اعتراف کھلے عام لوگوں کے سامنے لائیں ہیں جس کا کوئی شخص اظہار تو خیر بہت مشکل ہے بلکہ کوئی بھی شخص اس کا تصور تک نہیں کر سکتا ہے۔

جن وجوہات کی بنا پر مصنف ڈپریشن میں چلا گیا شاید ان میں سے چند اس معاشرے کے ہر دوسرے فرد کے ساتھ ہوئی ہوں گی لیکن میرا نہیں خیال کہ لوگوں کو یہ احساس تک ہو کہ یہ واقعی غلطی ہے اور بہت بڑی غلطی ہے۔ عابد میر ایک حساس لکھاری ہے اس لئے خود کو ڈپریشن سے باہر نکالنے اور ہلکان محسوس کروانے کے لئے انہوں نے یہ اعترافات کھلے عام لکھ کر لوگوں کے سامنے اپنی کتاب کی صورت میں رکھ لئے اور برملا اظہار کیا ہے کہ اس میں کوئی عار نہیں کہ جن اسباب کی بنیاد پر میں ڈپریشن میں چلا گیا اس کا اظہار ضروری تھا۔

ڈپریشن ڈائری کتاب کے حوالے سے میں کئی ریویو پڑھ چکا ہوں۔ میں ہر ریویو میں ایک سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہتا تھا کہ اس کتاب کے لکھنے کا اصل مقصد کیا تھا مصنف کو اس کے لکھنے کی نوبت کیوں پیش آئی اور ایسے کون سے وجوہات تھیں جن کے سبب کی بنیاد پر یہ لکھی جا چکی ہے مجھے کچھ پوائنٹس تو مل گئے لیکن تشنگی پھر بھی باقی تھی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے ان سوالات کے جوابات مل گئے اور ساتھ میں یہ بھی سوچتا رہا نہ صرف یہ کہ اپنی ڈپریشن کو Decrease کرنے کے لئے یہ کتاب لکھ لی ہے بلکہ انہوں نے اس معاشرے میں ایک ایسا initiative لیا ہے جس سے بہت سے ایسے لکھاریوں کے لئے راستہ کھول دیا گیا ہے جو اس معاشرے میں اس قسم کے یا اور نوعیت کے اعتراف لکھنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو اپنی تخلیقات سے یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اعتراف بذات خود ایک خوشی ہے اور خوشی کی ایک کیفیت ہے۔

امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس خطے کا ہر حساس بلکہ ہر شخص کھلے عام اعتراف کریں اور اس چیز کو سر عام کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں یہ روایت اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے کہ اپنی غلطی پر ڈٹ کر کھڑا رہنا ہے لیکن اب وقت ہے کہ اس کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے چونکہ اب عابد میر نے ہمارے لئے راستہ کھول دیا گیا ہے تو یہ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اس میں حصہ ڈالتے رہیں اور یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ یہ میرے اپنے خیالات ہیں تاہم مصنف کو اس سے اتفاق ہے یا نہیں یا میں مصنف پر چھوڑتا ہوں۔

اس معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں مطالعہ کرنے والوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے مگر پھر بھی اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہیں تاکہ وہ آگاہ ہو سکے کہ مصنف کو یہ کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ڈپریشن ڈائری میں موجود اسباب میں سے جو مصنف پر اثرانداز ہوئے ممکن ہے کہ ہر فرد انہی اسباب میں سے کسی نہ کسی سبب کی بنیاد پر ڈپریس ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ایک میرے ڈپریشن کا سبب بھی ہے تاہم یہاں اس کا اظہار نہیں کر سکتا لیکن مجھے عابد میر نے یہ حوصلہ ضرور دیا ہے کہ میں کسی نہ کسی وقت اس کا برملا اظہار کروں۔

عابد میر صاحب خوش قسمت ہیں کہ وہ دوستوں کے حوالے سے امیر ہے۔ شاہ محمد مری جیسے عصر حاضر کے معروف شخصیت تک ان کی دسترس حاصل ہیں اور بھی بہت سارے لکھاری ہیں جنہوں نے مصنف کو مشکل وقت میں سپورٹ کیا ہے اور حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ بہر حال یہ پاکستانی خصوصاً بلوچستان کے لوگوں کے لئے ایک بہترین کتاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments