تصویر کہاں سے لاؤں؟


مقام گلگت میں استور تھا، جہاں کیپٹن ڈاکٹر مجاہد مرزا کی پہلی تعیناتی ہوئی تھی، وہاں مسلسل شرمسار سی ہنسی ہنسنے والا ایک لیفٹیننٹ تھا نام جس کا اشفاق تھا۔ تھا تو اشفاق حسین لیکن بلاتے سبھی اشفاق تھے کیونکہ مجھ سمیت وہاں سبھی اس سے سینئر تھے۔ ڈی کیو میجر اکبر شریف، بی ایم میجر عبدالعزیز، ایڈجوٹنٹ کیپٹن طاہر، پھر سگنل کے میجر شاہد، آرٹلری کے میجر عالم اور میجر افتخار، انجنیئرز کے میجر ضیا اور کیپٹن فدا، این ایل آئی میں متعین انفنٹری کے میجر عثمان قریشی، کیپٹن طارق ہمایوں درانی، کیپٹن نعیم، دوسرے کیپٹن نعیم، کیپٹن ناصر پاشا، میجر اکرم اور ظاہر ہے بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر داود جو جند ماہ بعد وہیں استور میں ہوئے ہیلی کاپٹر حادثہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے اور ان کے بعد آنے والے بریگیڈیئر نشاط جو بعد میں میجر جنرل کے طور پر نیشنل ڈیفنس کالج کے سربراہ رہے اور ہاں فیلڈ ایمبولنس کے سی او لیفٹیننٹ کرنل انعام الحق جن کے مقدر میں میرا افسر بالا ہونا لکھا تھا۔

جو بات کرنی ہے وہ یہ کہ میں نے سب سے پہلے بریگیڈیئر داود سے لیفٹیننٹ اشفاق کے متعلق ایجوکیٹڈ ینگ مین سنا تھا۔ لمحہ بھر کا تحیر ہوا تھا کہ باقی کیا ان پڑھ ہیں؟ پھر دو ایک اور افسروں سے مزید سنا۔ اب کچھ الجھن سی ہوئی کیونکہ میں خود کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھتا تھا۔ تعلیم یافتہ یعنی ایجوکیٹڈ تو کرنل انعام بھی تھے چونکہ ڈاکٹر تھے۔

چنانچہ اشفاق سے ہی پوچھ لیا کہ میاں تمہیں سب تعلیم یافتہ کیوں کہتے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ جلاپے سے کی جانے والی تعظیم تھی۔ وجہ لیفٹیننٹ اشفاق نے ہی بتائی، ”سر میں نے ایم اے جرنلزم کر کے ایجوکیشن کور میں کمیشن لیا اس لیے“ ۔ اوہ چونکہ باقی سبھی بریگیڈیر سے کیپٹن تک ایف اے ایف ایس سی کر کے فوج میں کمیشن لیتے ہیں پھر انہیں پی ایم اے میں تربیت کے دو برسوں کے دوران بی اے یا یا بی ایس سی کروائی جاتی ہے۔ ارے اشفاق تو مجھ اور کرنل انعام سے زیادہ تعلیم یافتہ نکلا کیونکہ ہم دونوں ڈبل گریجوایشن یعنی ایم بی بی ایس کے حامل تھے اور اشفاق پوسٹ گریجویٹ۔

تب نہ لیفٹیننٹ اشفاق معروف طنزومزاح نگار کرنل اشفاق حسین تھے اور نہ کیپٹن مجاہد مرزا بدنام بے باک۔ وقت گزر گیا۔ 2019 میں مجھے غالباً عاصم بخشی سے کرنل اشفاق حسین کا نمبر ملا اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی کہ ان کا لیفٹننٹ کرنل بیٹا ایک اندوہناک سانحے کا شکار ہو گیا ہے۔ میں نے تعزیت کے لیے فون کیا مگر تفصیلی بات نہ ہو سکی۔ ملنے کا سوچا مگر موقع میسر نہ آیا۔

گزشتہ برس کے اگست سے ایک ڈیجیٹل چینل کے لیے پروگرام ”بے باک“ ریکارڈ کرنا شروع کیا تو وٹس ایپ کے سارے موجود نمبروں پہ بھیج دیتا۔ پروگرام ماند پڑا تو وی لاگ بھیجنے لگا۔ مجھے اشفاق کا انگریزی میں لکھا پیغام ملا کہ کیا بھیجتے رہتے ہیں از راہ کرم نہ بھیجا کریں۔ میں نے معذرت کی اور دیرینہ شناسائی کا ذکر کیا تو انہیں پرانی یادیں آئیں اور ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

کل ان کا فون آیا کہ گھر پہ ہیں آپ؟ بتایا کہ ابھی تو کہیں نکل رہا ہوں مگر تین بجے لوٹ آؤں گا گھر۔ بولے چلیں میں پھر تین بجے کے بعد پہنچتا ہوں آپ کے پاس۔ وہ پانچ بجے پہنچے یعنی 1977 کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ کرنل اشفاق نے داڑھی بڑھا لی ہے۔ شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ مسکان چہرے پہ آئی مگر پھر گم ہو گئی۔

کچھ ان سے زندگی کا احوال لیا اور مختصراً اپنے حوادث حیات سے آگاہ کیا، آوارگی کا تذکرہ سن کے ایک بار پھر مسکرائے مگر عمر اور سانحے نے مسلسل خجالت آمیز سی ہنسی ہنستے رہنے والے اشفاق کو نگل لیا ہے، مجھے بھی یقیناً ویسا نہیں رہنے دیا ہو گا۔

البتہ کرنل اشفاق نے علم کی ایک اور جست بھی بھر لی۔ بتایا کہ ہومیوپیتھی کا چار سالہ کورس پاکستان میں کیا اور دو سال کا ڈپلومہ انگلستان سے۔ اب وہ رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد میں صحافت کے وزیٹنگ پروفیسر ہیں اور فارغ اوقات میں ہومیوپیتھی کی پریکٹس بھی کرتے ہیں یعنی خیر سے پروفیسر ڈاکٹر کرنل اشفاق حسین ہیں۔

اپنی کتاب جنٹلمین اللہ اللہ تحفہ کر گئے۔ جسے پڑھتے ہوئے رات میں ایک عرصہ کے بعد بہت ہنسا بھی۔ جب وہ کار کی عقبی نشست سے کتاب اٹھا رہے تھے تو میں نے کہا جنٹلمین بسم اللہ، الحمدللہ، استغفر اللہ سیریز کی 25 کتابوں میں سے ایک ہی لائے ہو۔ بولے نہیں یہی تیسری ہے۔ اللہ انہیں ”جنٹلمین استغفراللہ“ کے عنوان سے سنجیدہ کتاب لکھنے کی توفیق دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments