رنگ رنگ سب رنگ


نامور ناقد شمس الرحمان فاروقی نے اردو کی مشہور ترین داستان، داستان امیر حمزہ کے متعلق اپنی بے مثل تصنیف ’ساحری، شاہی، صاحب قرآنی‘ کے نام سے پیش کی تھی۔ داستان کی پچاس جلدوں کے مطالعے کے بعد اس پر نقد و نظر کی یہ مبسوط کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی نے تین جلدوں میں طبع کی تھی۔ یہ برصغیر کے قدیم فن داستان گوئی کو ہمارے عہد کے ایک بڑے دانش ور کا خراج عقیدت تھا۔ داستان امیر حمزہ کو بلاشبہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مقبول ترین داستان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے تہذیبی اثرات کس قدر گہرے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس داستان کے کرداروں نے شہنشاہ اقلیم سخن، مرزا غالب کے دربار میں بھی رسائی حاصل کرلی تھی۔ مرزا صاحب ایک قصیدے میں فرماتے ہیں کہ

در معنی سے میرا صفحہ لقا کی داڑھی
غم گیتی سے میرا سینہ امر کی زنبیل

غالب کے یہ امر وہی ہیں، جنھیں ہم اور آپ عمرو عیار کے نام سے جانتے ہیں۔ لقا بھی اسی داستان کا ایک کردار ہے، جس کی داڑھی میں موتی پروئے گئے تھے۔ داستان امیر حمزہ کی ’ساحری، شاہی اور صاحب قرآنی‘ پر تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر مجھ سے پوچھیے تو بیسویں صدی میں اگر ان القاب سے کسی کو یاد کیا جاسکتا ہے تو وہ فقط ’سب رنگ‘ ہے۔ بظاہر ایک ڈائجسٹ مگر اپنے اندر وہی جہان حیرت چھپائے ہوئے کہ اس طلسم کدے میں قدم رکھنے والا خود کو فراموش کر دیتا تھا۔

کیا ساحری تھی کہ قاری گردش ماہ و سال سے بے نیاز اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر پرچے کی کوچہ گردی میں محور رہتے تھے۔ کیا شاہی تھی کہ عشاقان سب رنگ آج تک اسی کی یادوں کی سلطنت میں جی رہے ہیں۔ صاحب قراں کے ایک معنی کام یاب بادشاہ کے علاوہ یہ بھی بتائے جاتے ہیں کہ ایسا بادشاہ جس کی حکم رانی چالیس برس سے زیادہ رہی ہو۔ اس لحاظ سے بھی سب رنگ صاحب قراں ہے کہ اشاعت کے آغاز کو پچاس سال سے زیادہ بیت گئے۔ پرچہ بند ہوئے بھی دہائی سے زیادہ گزر گئی مگر لاکھوں دلوں پر اس کا راج برقرار ہے۔

یہ رتبہ بلند اور کسی پرچے کو نہیں مل سکا کہ اس میں چھپنے والی تحریریں لوگوں کو حفظ ہوں۔ سب رنگ کے دیرینہ محبان محفلوں میں جمع ہوں تو تذکرے ہوتے ہیں کہ فلاں شمارے میں وہ کہانی پڑھی تھی؟ کیا شاندار کہانی تھی۔ وہ کہانی یاد ہے جس میں یوں ہوا تھا؟ ’بازی گر‘ ، ’جانگلوس‘ ، ’ناخدا‘ ، ’امبر بیل‘ اور دیگر سلسلہ وار کہانیوں کے کرداروں کی باتیں، ذاتی صفحے کی باتیں۔ پھر سب سے بڑھ کر کہانیوں پر استاذ گرامی شکیل عادل زادہ کی تعارفی سطور۔ بقول غالب۔

تیرا انداز سخن شانۂ زلف الہام
تیری رفتار قلم جنبش بال جبریل

یہ ایک ایک دو دو سطری تعارف کیا تھے۔ سرا سر سحر حلال تھے۔ چاہنے والوں کو وہ جملے آج بھی ازبر ہیں جن سے وہ حظ کشید کرتے اور کہانی پڑھنے کی تحریک پاتے تھے۔ ایک دو سطروں میں جہان معنی سمو دینا انھی کا خاصہ رہا ہے۔ ایجاز بیان کو انھوں نے اعجاز بیان کے درجے تک پہنچا دیا تھا۔ بقول مرزا۔

’تیرے‘ ابہام پہ ہوتی ہے تصدق، توضیح
’تیرے‘ اجمال سے کرتی ہے تراوش، تفصیل

شکیل بھائی کی لکھی ان سطور پر مصنف بھی بجا طور پر ناز کرتے تھے۔ اردو کے یگانہ روزگار، منفرد افسانہ نگار محمد الیاس سے ایک بار فون پر سب رنگ کے متعلق گفت گو ہو رہی تھی۔ ان کی کہانیاں ’عورت، گھوڑا اور مرد‘ اور ’وارے کی عورت‘ سب رنگ میں شائع ہوئی تھیں۔ کہنے لگے ”اپنی ہی کہانی کے لیے اگر میں عمر بھر بھی سوچتا رہتا تو شاید ایسا جملہ موزوں نہ کر سکتا۔“

استاذ محترم کی عظمت کا اعتراف دیگر بڑے ادیبوں نے بھی کیا ہے۔ جنھیں سن کر اور پڑھ کر سب رنگ اور ان سے اپنی محبت پر ناز فزوں تر ہوجاتا ہے۔ سب رنگ کی تمام کہانیوں کو جلد از جلد کتابی صورت میں لانے کا شوق بھی مہمیز ہوتا ہے۔ اگلے برس کے اوائل میں دوبارہ پاکستان آنے کا ارادہ ہے تاکہ سب رنگ گزیدگان سے کیے گئے وعدے ایفا کرنے کی کوشش تیز ہو۔ اردو کی شاہ کار کہانیوں کی اشاعت کے تقاضے بھی پیہم بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے بھی راہ تلاش کی جا رہی ہے۔ مقامی زبانوں کے افسانے، تصوف کے مضامین، ذاتی صفحہ اور اداریوں کے دل دادگان بھی نگاہیں فرش راہ کیے ہوئے ہیں، ان کی محبتوں کا قرض بھی دامن کشاں ہے۔ بہر حال، مے باقی، مہتاب باقی۔

برادرم گگن شاہد اور امر شاہد کا شکریہ فرض عین ہو چکا ہے۔ سب رنگ کی کہانیوں کو اس کے شایان شان انداز میں پیش کرنا ان کی استعانت کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments