وہ چار لڑکیاں


سیاست کے داؤ پیچ میں ہمیشہ سب سے کامیاب چال کردار کشی رہی۔ ان دنوں پاکستانی سیاسی منظرنامہ انہی گھٹیا وارداتوں کی آماج گاہ ہے۔

کبھی آڈیو کبھی ویڈیو، تین سال پہلے اس بیہودگی کو بطور سیاسی ہتھیار آزمانے کا آغاز ہوا۔ اس سے پیشتر پرنٹ میڈیا یہ ذمہ داری سرانجام دیتا رہا ہے۔ ایوب نواز ٹولے نے ہر جمہوریت پسند کو غدار قرار دیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی بانی پاکستان سے قرابت کا لحاظ تھا یا ان کے سفید سر کی لاج، وہ غدار وطن تو ٹھہرائی گئیں لیکن دامن پر رکیک چھینٹے نہ اڑائے جا سکے۔

یحیی خان کی رنگین داستان تو حقائق پر مبنی تھی تاہم سلسلہ چل نکلا تو سیاستدان بھی لپیٹے میں آئے۔ بھٹو صاحب، ان کے سوہنے منڈے حفیظ الدین پیرزادہ اور مصطفے کھر ایک جانب، مولانا کوثر نیازی تک اس کا شکار ہوئے۔ ضیاء کے دور غاصبانہ میں اسلام کے علمبردار اخبارات اور رسائل مسلسل بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کی خواتین کارکنان کی کردار کشی کی مہم چلاتے رہے۔ رسالے فوٹو شاپ تصاویر کا پورا البم خاص شمارہ کہہ کر چھاپتے رہے۔

المختصر، ایوب۔ یحیی۔ ضیاء ہر دور میں غدار کے ٹھپے اور بدکار کے فتوے بانٹے جاتے رہے۔ سیاسی جغرافیائی تبدیلی کے پیش نظر مشرف کو اسلامائزیشن سے نجات کا فریضہ دیا گیا لہذا وہ خود بھی ہنستے گاتے نظر آئے اور دیگر کے سروں سے بھی اسکینڈل کی تلوار ہٹا لی گئی۔

مگر دو ہزار گیارہ میں جمہوری اور عوامی جماعتوں کی مقبولیت سے تنگ آ کر اعلی ترین باوردی قیادت نے ایک پلے بوائے کو ”مائی بوائے“ کہہ کے گلے لگا لیا۔ اور دل و جوان سے، معذرت، دل و جان سے اسے وقت کا ولی منوانے کی خاطر ہر جتن و حربہ آزمانے پر جٹ گئے۔

کسی بدنام زمانہ رنگ رسیا کو عجز و فلاح کا پیکر ثابت کروانا لوہے کے چنے چبانا ہے۔ مگر ”مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“ اور ہمارے والوں  نے ہمیشہ تلوار پر ترکیب کو ترجیح دی ہے سو اب بھی تل گئے۔ پہلے پہل تائب کروا کے سڑک کنارے نمائشی نمازیں پڑھوائیں، جوانی کی تصاویر کو فوٹوشاپ سے مزید دلفریب کر کے سوشل میڈیا پے آراستہ کیا۔ ملازمت، تعلیم اور بنیادی سہولیات سے محروم عام نوجوان کے کچے ذہن سے کھیلتے ہوئے، اسے یقین دلا دیا کہ اس کے اور ملکی معاشی استحکام کے لئے کوئی اللہ کا چنیدہ ہے تو وہ یہی ہے۔

جسے بقول خود اللہ سب کچھ دے بیٹھا تھا لیکن وہ انسانیت اور انسان کی فلاح کی خاطر سب تیاگ کے سیاست کی وادیٔ پر خار میں پشاوری چپل پہنے ان کے ساتھ چل پڑا ہے۔ ایک جانب اجرتی سوشل میڈیا ٹیم کو اس مصنوعی تاثر کو سچ ثابت کرنے کی کٹھن مہم دی گئی تو دوسری جانب شو بزنس سے تعلق رکھنے والے مشہور اور مقبول ترین افراد کو نیوتا بھجوایا کہ ہمارے لے پالک کی حمایت کرتے ہوئے، اپنے مداحوں کو قائل کریں کہ یہی وہ نجات دہندہ ہے جو آپ کی اور پاکستان کی قسمت چمکا دے گا۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں یوں تمام انڈسٹری نے یک زبان ہو کے ”لبیک“ کہا۔ ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب تین تلوار کراچی پر ہر رات تحریک انصاف کا دھرنا ان ستاروں کی چمک دمک سے منور ہوا کرتا تھا۔

ان تمام کاوشوں سے بالآخر عمران خان کے سپورٹر ہونے کو اسٹیٹس سمبل اور عمران خان کو مہنگے برانڈ کا سیاستدان بنا دیا گیا۔ ڈرامہ اور فلم کے مختلف شعبوں سے منسلک کئی معتبر نام تو باقاعدہ ٹویٹر اور فیس بک پر خان کے حق میں جہاد کرتے نظر آئے۔

دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں بلا مبالغہ نوے فیصد انڈسٹری نے ببانگ دہل تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور اس کی کامیابی پر شادیانے بجائے۔ مایہ ناز ڈرامہ نگار۔ ہدایتکار۔ گلوکار۔ اداکار ہوں یا اداکارائیں!

کون تھا جو کپتان کا مداح نہ تھا؟
کون تھا جس نے خان کے ساتھ سیلفی فخریہ سوشل میڈیا پر نہ سجائی؟

کچھ کو کہتے سنا کہ کسی غیر مرئی طاقت نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آر ٹی ایس سسٹم خراب کروا دیا یوں جیتتے ہوئے مخالف امیدوار کرشماتی طور پر ہار گئے۔ میرزا غالب سے معذرت کے ساتھ، کئی سیاسی جماعتوں کو یہ شکوہ کرتے پایا،

ہارے جاتے ہیں فرشتوں کے کہے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم شمار بھی تھا

یعنی دیگر جماعتوں کے نمائندوں کو ووٹ گننے کے دوران اس کمرے سے باہر کر دیا گیا اور پھر جو ہوا وہ اللہ جانے یا وہ فرشتے۔

مگر تین برس میں ہی سرپرستوں کو دن میں تارے نظر آ گئے اور پرستاروں کے دیدوں آگے ترمرے ناچنے لگے۔ پھر وہ ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا تھا کہ لاڈلے لے پالک کو عاق کرنے کا ارادہ باندھ لیا گیا۔ مگر اس بار واسطہ ان جمہوری رہنماؤں سے نہیں تھا جو قتل ہوئے، پھانسی چڑھے، قید رہے یا برسوں کے لئے ملک بدر کیے گئے۔

اب کی بار پالا اس سے تھا جس نے تمام عمر کبھی اپنی عزت اور شہرت کا پاس نہ رکھا اور جب تک چاہا کھل کھیلا۔ ایسا شخص جو اپنی بد اعمالی کو سینہ ٹھونک کے بیان کرے اور بدنامی کو شہرت میں اضافہ سمجھے۔ اس کی مخالفت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ کیونکہ جس کے ہاتھ اور منہ کوئلے کی دلالی میں کالے ہوں وہ اوروں پے سیاہی ملتے دیر نہیں کرتا۔ یہی ہو رہا ہے۔ افسوس، الٹی پڑ گئیں سب تدبیریں اور خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا لہذا اس بار نشانے پر اس طریقۂ واردات کے موجدین آ گئے۔

جنھیں پہلے پہل میر جعفر میر صادق اور غدار کہا گیا۔ جب ایسے کئی وار خالی گئے تو رزالت کی انتہا کرتے ہوئے، بین الا اقوامی شہرت یافتہ صف اول کی پاکستانی فنکاراؤں کے بارے میں رکیک الزام تراشی کی گئی۔ مقصد اہم ترین عسکری عہدوں پر فائز چند سابق افسران کی کردار کشی تھا۔ نہایت عیاری سے زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لئے پرانے گھاگوں نے ان اداکاراؤں کے نام شامل کیے۔ باقاعدہ اور منظم سوشل میڈیا مہم شروع کی گئی اور تشہیر کا کامیاب ہدف چند گھنٹوں میں مکمل ہو گیا۔

صد حیف اور ہزار نفرین کہ ایسا کرتے ہوئے یہ نہ دیکھا گیا کہ یہ پروپیگنڈے ناصرف انہیں شدید ذہنی اور جذباتی صدمے سے دو چار کرے گا بلکہ ان کی نجی اور پروفیشنل ساکھ تباہ کر دے گا۔ میں شرطیہ کہہ سکتی ہوں کہ جن کے نام اچھالے جا رہے ہیں۔ ان سب نے دو ہزار تیرہ اور اٹھارہ میں تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیا ہو گا۔ جس جوش و ولولے سے میڈیا انڈسٹری نے تحریک انصاف اور خان کا ساتھ دیا تھا، اس کا صلہ مع سود ادا کر دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments