کیا فلسفہ کی موت واقع ہوچکی ہے؟ پارٹ 2۔


فلسفہ کے موضوع پر (پارٹ 1) تحریر میں ہم نے فلسفہ کی تعریف اور مقاصد کو سمجھا تھا اور مزید ذرائع علم بارے بھی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسفہ کی موت پورے علم کی موت ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں علم اور فلسفہ دونوں کی تعریف کو سمجھنا ہو گا۔ علم کیا ہے؟ علم کیسے وجود میں آتا ہے؟ جب انسان کا حواس خمسہ خارج کے کسی تجربہ و مشاہدہ سے متعلق ہوتا ہے، تو اس سے علم وجود میں آتا ہے۔ لیکن فلسفہ ایک تخیل ہے۔

جس طرح فنون لطیفہ، مصوری یا شاعری ہیں۔ یہ تمام چیزیں تخیلات ہیں۔ فلسفہ علم کا درجہ نہیں رکھتا تاہم اس کو عام اصطلاح میں علم کہا جاتا ہے البتہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے یہ ایک تخیل ہے۔ علم کی درست تعبیر یہی ہے جو درج بالا بیان کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے فلسفہ کی موت کو علم کی موت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دونوں متضاد اشیاء ہیں۔ لیکن یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میں فلسفہ پر تنقید کر رہا ہوں تو اسی طرح مجھے علم پر بھی تنقید کرنی چاہیے؟

علم یا سائنس پر میں اس وجہ سے تنقید نہیں کر رہا کیونکہ علم یا سائنس کائنات کے بارے (کیوں، کون، کیا) کے سوالات کے جوابات تلاش نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس اس کائنات کے بارے ان سوالوں کے جواب تلاش کر رہا ہے جو انسانی گرفت میں آتے ہیں۔ مثلاً معلوم اور محسوس کو تجربہ و مشاہدہ سے نامعلوم اور نامحسوس کا استنباط کرنا وغیرہ۔ علم یا سائنس کا اصل موضوع (کیسے ) ہے۔ مطلب یہ کائنات کیسے کام کر رہی ہے؟ اگر فلسفہ کی طرح کوئی اور علم یا سائنس بھی (کیوں، کون، کیا) کے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتا تو اس پر بھی میری یہی تنقید ہوتی جو اس وقت میں فلسفہ پر کر رہا ہوں۔

فلسفہ پر میری اصل تنقید ہی یہی ہے کہ جو چیزیں انسانی حواس کی گرفت میں نہیں آتی ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا بے معنی ہے۔ بلکہ انسان کو اپنی علم کی محدودیت کو سمجھتے ہوئے صرف اس کائنات کی توجہی کے لئے محض (کیسے ) تک رہنا چاہیے۔ کیونکہ (کیوں، کون، کیا) پر فلسفہ کی دو اڑھائی ہزار سالہ تاریخ میں شدت سے ناکامی ہوئی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ انسانی عقل نے وہاں چھلانگ لگائی جہاں انسانی حواس غیر موثر ہو جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس وقت علم کی دنیا میں وہی چیز قابل قبول ہوتی ہے جو تین ذرائع سے حاصل ہو۔ جس میں تجربہ و مشاہدہ، عقلی استنباط اور مستند تاریخ ہے۔ جو چیز ان تینوں ذرائع سے ثابت نہیں ہوتی تو اس کو علم یا سائنس کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے یا جائے گا۔ فرض کریں اگر فلسفہ مستقبل میں (کیوں، کون، کیا) کے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی بجائے (کیسے ) تک محدود رہتا ہے تب بھی قابل قبول نہیں کیونکہ خود فلسفہ ایک تخیل ہے اور تخیل کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جب تک فلسفہ علم نہیں بنتا تب تک علم کی دنیا میں اس کی حیثیت مؤخر رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments