امداد، کیمرا اور عزت نفس کی پامالی


”یہ کیوں تصاویر لیتے ہیں ان عورتوں کی، گلاس میں پانی دے رہے ہو تو بھی کہتے ہیں کہ تصویر لے لو، کیوں، کیا ہم کسی کی بیویاں نہیں ہیں؟ کیا ہم عزت والیاں نہیں ہیں؟ یہ اگر ہمیں کچھ دینا چاہتے ہیں تو خفیہ دیا کریں، ہماری تصاویر نہ لیا کریں، ہماری ویڈیوز نہ بنائیں ؛ کہ ہم ان کو پیسے دے رہے ہیں ؛ زکواۃ، خیرات دے رہے ہیں۔ جب تک شناختی کارڈ نہ دکھاؤ، پیسے نہیں دیتے۔ جب سارے مرد ہمارا چہرہ دیکھ لیں تب جا کے مدد ملتی ہے۔ کیوں، کیوں ہم اتنے بے غیرت ہیں جو آپ ہمارا شناختی کارڈ دیکھ کر پیسے دیں گے۔ یہ اپنے گھر کی عورتیں لے کر آئیں، میں ان کو ایک ایک لاکھ روپے دوں گی اور ساتھ میں تصویر نکالوں گی پھر لوگوں کو بتاؤں گی کہ یہ فلاں فلاں ہے، فلاں کی بیوی ہے۔“ یہ دل کو چیر دینے والے الفاظ سپورٹس کمپلیکس چارسدہ میں ایک بوڑھی سیلاب متاثرہ خاتون کے ہیں۔

آج کل پاکستان میں مختلف سیاسی، عسکری اور عوامی رضاکار، عوام الناس کے مدد کے لیے مصیبت کی ہر گھڑی میں موجود ہوتے ہیں، پھر چاہے وہ مصیبت کی گھڑی 2005 کے زلزلے کی ہو یا 2022 کے سیلاب کی۔ پچھلے سال سیلاب سے پاکستان کے چاروں صوبے متاثر ہوئے۔ اس وحشت ناک سیلاب نے کئی گھروں، ہوٹلوں اور قیمتی زندگیوں کو نگل لیا۔ اسی سیلاب سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے۔ وہ لوگ جن کے گھر سیلاب کی نظر ہوئے تھے، سب خیموں میں حکومتی، عسکری اور خاص طور پر عوامی رضاکاروں کے مدد کا انتظار کرتے رہیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ سیلاب زدگان کے مدد کے لیے چندے اکٹھے کیے گئے، ٹیلی تھون بنائے گئے اور مختلف ممالک سے سیلاب زدگان کے مدد کی اپیل کی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا بھلا کرے جنھوں نے سیلاب متاثرین کی اس مصیبت کی گھڑی میں مدد کی۔

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ اسی پاکستان میں آج کل کیمرے کی ایک خاص اہمیت ہے۔ کیمرے کی آنکھ میں پاکستان کا ہر شہری ہیں۔ کیمرے کی آنکھ اتنی تیز ہے کہ چار دیواری میں بھی کوئی محفوظ نہیں۔ سیلاب متاثرین کی مدد تو کی گئی لیکن کیمرے کی آنکھ نے ان کو بھی خوب دیکھ لیا۔ ایک طرف الیکٹرانک میڈیا یہ سب ریکارڈ کرتا رہا، تو دوسری طرف ہر مدد کرنے والے کے پاس اور کچھ ہو نہ ہو، کیمرا ضرور تھا۔ سیلاب زدگان کو مدد کی ضرورت تھی اور ہمیں ان کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی۔

ہم میں سے نہ تو کسی کو یہ خیال رہا کہ ہمارے سامنے ہاتھ پھیلانے والے کوئی بھکاری نہیں بلکہ خوددار لوگ ہیں، ہمارے سامنے جن لوگوں نے ہاتھ پھیلایا انہوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ کبھی ہاتھ پھیلائیں گے۔ لیکن ہمیں کیا! ہم نے تو ان کو استعمال کر کے اور پیسے کمانے تھے، نام بنانا تھا جو بہت ساروں نے بنا بھی لیا۔

حال ہی میں، میری ملاقات مدرسے کے ایک طالب علم سے ہوئی۔ بات کرتے کرتے سیلاب زدگان کی بات بھی ہوئی۔ سیلاب کی بات آتے ہی میرے ذہن میں مدرسے کے حوالے سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ ویسے مدرسوں والوں نے سیلاب میں کیا کیا ہے؟ کیا آپ لوگوں نے کسی کی مدد کی ہے؟ جواب سن کر میں حیران رہ گیا کہ کیا مدرسے والے ایسا بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”سیلاب کے وقت ہمارے مدرسے کے ساٹھ طالب علموں کو مدرسے کے خزانے میں موجود پانچ لاکھ روپے دے دیے گئے اور ہم سے کہا گیا کہ ہم سب سیلاب زدگان کے مدد کے لیے پہنچ جائیں۔ ہم میں سے کوئی بلوچستان گیا، کسی کی تشکیل سندھ کو ہوئی، کوئی خیبر پختونخوا چلا گیا اور کچھ لڑکے پنجاب کے متاثرہ علاقے میں چلے گئے۔ سب نے مل کر ایک کروڑ تین لاکھ روپے لوگوں سے چندہ بھی جمع کیا اور موقعے پر تقسیم بھی کر دیا۔“

اس مثال کو یہاں اس لیے پیش کیا کہ جس سے میں یہ ثابت کر سکوں کہ مدد کیمرے کے بغیر بھی ہو جاتی ہے۔ ان طالب علموں کے پاس نہ تو کوئی کیمرہ تھا اور نہ ہی ان کو شہرت اور پیسوں کی طلب! میں یہ سمجھتا ہو کہ حکومتی، عسکری اور عوامی رضاکاروں کے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں ویڈیوز اور تصاویر مدد گار ثابت ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان سب سے میری گزارش ہے کہ ویڈیوز ریکارڈ کرتے اور تصاویر کھینچتے وقت لوگوں کی عزت اور خودداری کا خاص خیال رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments