کمپنی ڈوب گئی، کھلاڑی کے پاس اب کوئی آپشن نہیں بچا


کچھ عرصہ قبل لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ  نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ”یہ کمپنی نہیں چلے گی“ ۔ جیسے ہی اس کتاب کا ٹائٹل مارکیٹ میں لانچ ہوا۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ اس وقت عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل ر قمر جاوید کا طوطی بول رہا تھا۔ ایسے ماحول میں ایسی کتاب کا مارکیٹ میں آنا ایک بہت بڑا ایڈونچر تھا۔ کتاب کے شائع ہونے سے قبل اس کے ٹائٹل پر موجود سابق آرمی چیف قمر جاوید کی تصویر ہٹا دی گئی باقی تمام تصویریں ویسے ہی شائع ہوئیں۔

پھر سب نے دیکھا یہ کمپنی چلنا تو دور بات بری طرح دیوالیہ ہو گئی۔ کمپنی کے ڈائریکٹر سے لے کر چپڑاسی تک سب نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ تجربہ پاکستان کی تاریخ کا مہنگا ترین تجربہ تھا کیونکہ اس کی فزیبلٹی اور فائل ورک جلد بازی میں آدھا ادھورا لانچ کیا گیا تھا۔ سیاست کے پرانے اور منجھے ہوئے کھلاڑی کو بیٹی سمیت گراؤنڈ سے باہر نکالنا کمپنی کے لئے پہلے درد سر بنا رہا پھر آخر کار کمپنی کا ہی دیوالیہ ہو گیا۔

اس کمپنی نے اپنے کھلاڑی کا بابا اونچا کرنے کے لئے ہر جتن کیے۔ اپنے کھلاڑی کے ہر مخالفت کو چن چن کے جیلوں میں ڈالا۔ دنیا بھر کے تمام بڑے مالیاتی اداروں سمیت تمام دور نزدیک کے دوستوں سے قرضے لے کر دیے، میڈیا کو مثبت رپورٹنگ تک کے ہدایت نامے دیے گئے، سیاست کے بڑے کھلاڑی کو میڈیا سے سینسر کیا گیا۔ ہر طرف نئے پاکستان کا خوبصورت چہرہ دکھانے والے سکرینوں پر بٹھائے گئے۔ حزب اختلاف کا جو بندہ کمپنی کے پسندیدہ کھلاڑی کے خلاف بولتا اس کو اچانک ہی اٹھالیا جاتا۔

نیب اور ایف آئی اے کو کھلی چھٹی تھی وہ بغیر وارنٹ اور بغیر اسمبلی کے سپیکر کو آگاہ کیے ارکان پارلیمنٹ کو جب چاہتے جہاں سے چاہتے اٹھا لیتے۔ پھر ان کے نوے نوے دن کے جسمانی ریمانڈز بھی خوشی خوشی منظور ہوتے رہے۔ ایک طرف یہ سب کھیل جاری و ساری تھا دوسری طرف ملکی خزانے پر قرضوں کا بوجھ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جو دوست مالک ہر مشکل میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے تھے وہ بھی باری باری اپنا ہاتھ کھنچنے لگے۔ جس ملک نے پاکستان میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، اس کے پروجیکٹس پر کمپنی کے پسندیدہ کھلاڑی کے رائٹ ہینڈ نے کرپشن کے الزامات لگائے تو وہ دوست ملک بھی تپ گیا۔

چیزیں تیزی سے تبدیل ہونے لگی۔ سیاست کا پرانا کھلاڑی پھر سے ایکٹیو ہوا۔ اس نے کمپنی کی کارکردگی اور کام کے طریقہ کار پر سخت سوالات اٹھا دیے۔ کمپنی کے ڈائریکٹر سمیت سب سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ کیونکہ ان کو ایسے سخت قسم کے سوالات کی ہر گز توقع نہیں تھی اور نہ ذہنی طور پر وہ ان سب سوالوں کے جوابات دینے کے لئے تیار تھے کیونکہ وہ تو اپنی کمپنی کے مستقبل کے نئے آنے والے ڈائریکٹرز تک کی پلاننگ کرنے میں مصروف عمل تھے۔

جب اس پرانے سیاسی کھلاڑی کے ساتھ دو اور مزید پرانے سیاسی کھلاڑی شامل ہو گئے تو کمپنی کے مقابلے میں ان کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے کمپنی مزید کمزور سے کمزور ہوتی گئی اور کمپنی کے حریف مضبوط ہونے لگے۔ آخر کار ایک دن کمپنی نے ہاتھ کھڑے کر دیے اور اپنے کھلاڑی کو بیچ چوراہے عین اس وقت تنہا میدان میں چھوڑ دیا جب اس کھلاڑی کو کمپنی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ جیسے ہی طاقت کا توازن تبدیل ہوا۔

تینوں منجھے ہوئے پرانے سیاسی کھلاڑیوں نے کمپنی سے نئے نئے عاق ہوئے کھلاڑی پر ایک کاری ضرب لگائی اور اس کو چاروں خانے چت کر دیا۔ کمپنی کا کھلاڑی ہکا بکا رہ گیا کہ میرے ساتھ بن کیا گیا۔ چند دن قبل تک تو سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن یہ اچانک ہوا کیا۔ جیسے ہی کھلاڑی کلین بولڈ ہوا اس نے اپنی توپوں کا رخ اسی کمپنی کی طرف کر دیا جس نے اس کی ہر طرح کی مدد کی اس کو چلانے اور دو مرتبہ آؤٹ ہونے سے بچایا۔ کمپنی کے کھلاڑی نے کمپنی کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔

پہلے کمپنی نے نپے تلے الفاظ میں اپنے کھلاڑی کو جواب دیا پھر بھی کھلاڑی باز نہ آیا تو پہلی مرتبہ کمپنی کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے سامنے آ کر کھلاڑی کو بری طرح ایکسپوز کر دیا۔ چیزیں تبدیل ہوتی رہی وقت گزرتا رہا۔ آہستہ آہستہ کھلاڑی کو سمجھ آنے لگی کہ میں اور میری ٹیم زیادہ دیر اور وہ بھی مسلسل کمپنی کی مخالف افورڈ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ اب چیزیں کمپنی کے ہاتھ سے نکل کر وہی پرانے سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی کے ہاتھ میں چلی گئی ہیں۔

اب نئے کھلاڑی کے پاس پرانے اور تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا کیونکہ نئے کھلاڑی کو نظر آ رہا ہے کہ اگر میں اور میری ٹیم زیادہ دیر گراؤنڈ سے باہر رہے تو یہ پرانے کھلاڑی مجھے ٹورنامنٹ سے ہی باہر کر سکتے ہیں۔ ملک کی بہتری بھی اسی میں ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور تمام مسائل کو بات چیت سے حل کریں۔ کیونکہ اسی میں تمام کھلاڑیوں اور تماشائیوں کی بہتری ہے۔ ہم پہلے ہی بہت نقصان برداشت کرچکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہی دیر ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments