سرفراز احمد: ایک شاندار سویپر اور وکٹ کیپر بیٹر


اردو فکشن اور عہد حاضر کے نامور ادیب مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناول ”راکھ“ میں پاکستانی ٹیم کے مایہ ناز وکٹ کیپر بلے باز امتیاز احمد کا تذکرہ خوبصورت الفاظ میں کیا ہے۔ امتیاز احمد کے مشہور سوئیپ شاٹ کو ”گوڈا ٹیک سٹائل“ قرار دیا ہے۔ جو کسی دور میں پاکستان میں بے حد مقبول تھا۔ جب امتیاز احمد اپنی باری کھیلنے کے لیے میدان میں اترتے تو کرکٹ شائقین ”گوڈا ٹیک“ کے نعرے لگانا شروع کر دیتے تھے۔ جبکہ دنیا کرکٹ انہیں A magnificent hooker یعنی عظیم الشان ہکر کے نام سے جانتی تھی۔ مجھے آج جنوری کے ایک سرد اور ٹھٹھراتے دن میں سرفراز احمد کی نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں بیٹنگ دیکھ کر امتیاز احمد کا گوڈا ٹیک سٹائل یاد آتا رہا۔ یقیناً شائقین کرکٹ نے امتیاز احمد کی سال 1955ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور میں ڈبل سنچری کو بھی اسی طرح انجوائے کیا ہو گا۔ جیسا جنوری 2023 ء کو نیوزی لینڈ کے خلاف سرفراز احمد کی سو رنز کی باری سے ہم لطف اندوز ہوئے ہیں۔

امتیاز احمد ڈبل سنچری کرنے والے دنیا کے پہلے وکٹ کیپر جبکہ پاکستان کے واحد بلے باز بنے۔ جبکہ سرفراز احمد نے پاکستان کی طرف سے ایک سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے وکٹ کیپر بلے باز ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ امتیاز احمد جسے دنیا ایک عظیم الشان ہکر کے نام سے جانتی ہے۔ ہم سرفراز احمد کو ایک عظیم الشان سوئپر یعنی a magnificent sweeper کہہ سکتے ہیں۔ وہ ایسے کہلوائے جانے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ ایسے میں جب محمد رضوان نے ٹیم میں جگہ بنائی اور سرفراز کے لیے بظاہر واپسی کے سارے راستے مفقود ہو گئے۔

پی سی بی میں انتظامیہ بھی اینٹی سیفی وارد ہو گئی تو ان کے لیے کم بیک کرنا آسان کام نہیں تھا۔ مگر اپنی انتھک محنت، لگن، جذبے اور پختہ یقین کے ساتھ سرفراز احمد عرف سیفی نے اپنی گیم کو بہتر سے بہترین بنانے پر کام جاری رکھا۔ اور تقریباً چار سال کی طویل مدت کے بعد وہ ٹیم میں واپس آئے اور اپنی ٹیم کے لیے اس وقت رنز کیے جب بیٹنگ لائن لڑکھڑا چکی تھی۔ سیفی نے اپنے جارحانہ اور قدرتی انداز سے کھیلتے ہوئے، ٹیم کو شکست سے بچایا اور فتح کے قریب لا کھڑا کیا۔

سرفراز احمد کی مسلسل محنت اور یقین نے کراچی ٹیسٹ میں کیویز کے خلاف اپنا رنگ دکھایا ہے۔ وہ آج پھر سرفراز ٹھہرا۔ کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ وہ میچ اور سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار پایا۔ سرفراز احمد نے نیوزی لینڈ کے خلاف دو میچوں کی چار اننگز میں تین بار ففٹی جبکہ ایک بار سنچری بناتے ہوئے سیریز کے بہترین کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔

دکھ اس وقت ہوتا ہے، جب مسلسل سٹرگل کے بعد ایک کھلاڑی ٹیم میں واپس آتا ہے۔ وہ اگر اچھا بھی پرفارم کرتا ہے تو چند لوگ کہیں نا کہیں سے نقص نکال کر اس کھلاڑی پر تنقید کے نشتر برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی کچھ حلقے سرفراز احمد کے خلاف کر رہے ہیں۔ سرفراز احمد کو برا بھلا کہنے کو جواز ڈھونڈے جا رہے ہیں کہ وہ ایک اچھا وکٹ کیپر نہیں ہے۔ وہ کیپنگ میں لوز کر رہا ہے۔ اس کا کام بیٹنگ میں سو فیصد دینا لازمی نہیں، عمدہ کیپنگ کرنا اہم ہے وغیرہ وغیرہ۔

بدقسمتی سے بحیثیت قوم میرٹ کی بجائے پسند نا پسند کی وجہ سے نا انصافی اور اخلاقی بدعنوانی کرنا ہمارے لیے معمول کا کام ہو چکا ہے۔ سرفراز احمد جب اکمل برادران کی مسلسل ناکامیوں کے بعد ٹیم کا حصہ بنے تو وہ بطور وکٹ کیپر ٹیم میں شامل ہوئے تھے۔

سرفراز کا شمار پاکستان کے بہترین وکٹ کیپرز میں ہوتا ہے۔ حالیہ سیریز میں سرفراز احمد سے بطور وکٹ کیپر کافی غلطیاں ہوئی ہیں۔ جو نہیں ہونی چاہیے تھیں، مگر انہی کو بنیاد بنا کر تنقید کا نشانہ بنانا درست فعل نہیں ہے۔ سرفراز احمد پاکستان کے بطور وکٹ کیپر بلے باز سب سے زیادہ رنز، اوسط اور بہترین اسٹرائیک کے حامل کھلاڑی ہیں۔ وہ پاکستان کی طرف سے کسی بھی واحد ون ڈے اور ٹیسٹ میچ میں بطور وکٹ کیپر سب سے شکار کرنے کا اعزاز بھی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ جبکہ ورلڈ کپ کی ایک اننگز میں بطور وکٹ کیپر سب سے زیادہ آؤٹ کرنے کا ایڈم گلکرسٹ کا ریکارڈ برابر کر چکے ہیں۔ اگر ابھی بھی کسی کو اس کے بہترین وکٹ کیپر ہونے کا شک ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

ناقدین کا کام تنقید کرنا ہوتا ہے جبکہ ایک سپورٹس مین کا کام ہوتا ہے وہ اپنی مسلسل عمدہ پرفارمنس سے جواب دے یہی کام سرفراز احمد نے کیا ہے۔

جنوری کے مہینے میں شدید سردی کی لہر نے جب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔ ایسے میں سرفراز احمد کی شاندار اننگز نے جسموں میں جمے خون کو گرما دیا اور ایک ناقابل فراموش باری دیکھنے کو ملی۔ یقیناً امتیاز احمد اپنے دور کے ایک عظیم وکٹ کیپر اور بلے باز تھے۔ مگر اس وقت تمام ریکارڈز میں سرفراز احمد ان سے آگے ہیں۔ وہ اپنے دور کے ایک لیجنڈ تھے اور سرفراز موجودہ دور کے ایک شاندار اور محنتی کھلاڑی ہیں۔ جن کا سوئیپ شاٹ سحر انگیز ہوتا ہے۔ اور گیند بلے کو چھوتے ہی باؤنڈری پار کر جاتی ہے۔ سرفراز احمد نے رواں سال کے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو شکست سے بچایا ہے۔ شائقین کو اپنی باری سے لطف اندوز بھی کیا ہے۔

ٹیسٹ میں بہترین کارکردگی کے بعد سرفراز احمد کو ون ڈے میں بھی ٹیم کے ساتھ شامل کرنا ضروری ہے۔ رواں سال بھارت میں ایک روزہ مقابلوں کا عالمی کرکٹ میلہ شیڈول ہے۔ چونکہ ایشیائی پچز سپن کے لیے سازگار ہوتی ہیں۔ ایسے میں سپن کو اچھا کھیلنے والے بیٹر کا ٹیم میں شامل ہونا لازمی ہے۔ اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم میں سرفراز احمد سے زیادہ بہتر سپن کو کھیلنے والا دوسرا بلے باز نہیں ہے۔ اسی لیے سرفراز احمد کو محمد رضوان کے ساتھ ون ڈے ٹیم میں لازمی رکھنا چاہیے۔

رضوان احمد وائٹ بال میں اچھا پرفارم کر رہے ہیں۔ اگر رضوان فلاپ ہوتے ہیں تو سرفراز احمد کو مڈل آرڈر میں چانس دیا جا سکتا ہے۔ بطور بلے باز بھی سرفراز احمد مڈل آرڈر میں بری چوائس نہیں ہیں۔ دو ہزار انیس میں جب سرفراز احمد ٹیم سے ڈراپ ہوئے تھے تو سبھی کا خیال تھا، سرفراز احمد اب قصہ پارینہ ہو جائیں گے۔ مگر سرفراز احمد نے اپنے جذبے، جوش اور مسلسل محنت سے ثابت کیا ہے۔ اگر ارادے اور لگن سچی ہو تو کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ سرفراز احمد کا مثبت رویہ کامیابی کی ایک بہترین مثال ہے۔ انسان اللہ پر کامل یقین اور اپنی محنت سے کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے۔

سیفی نے خود بھی کہا ہے کہ انھوں نے اللہ سے موقع مانگا تھا، وہ مل گیا اور انھوں نے کر دکھایا۔ ویلڈن سرفراز! تم واقعی بڑے انسان، عمدہ وکٹ کیپر اور شاندار سوئپر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments