مرگی کے مریض کی دیکھ بھال کیسے کی جائے؟


میرے ’نیکسٹ‘ کہنے سے قبل ہی ایک بزرگ صورت شخص شٹل کاک برقعے میں ملبوس خاتون کے ساتھ کلینک کے معائنہ خانے میں داخل ہوا۔ بزرگ کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے تسلی دی اور اتنا وقت دیا کہ خاتون برقع سنبھال کر آرام سے دو سانس لے سکیں۔ بزرگ سے تو بولا نہ گیا اس لئے میں خاتون کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ہمارے معاشرے میں اگرچہ ڈاکٹروں کو اب بھی ’مائی باپ‘ کہا جاتا ہے لیکن بھر بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔

بزرگ نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا کہ اس بچی کا چہرہ جل گیا ہے۔ جب خاتون نے نقاب الٹا تو معلوم ہوا کہ وہ تو پندرہ سالہ بچی ہے۔ نام اس کا چاند بی بی لیکن چہرہ کسی عفریت کا لئے ہوئے۔ آنکھیں بہہ کر ناک کے ساتھ لگ چکی تھیں۔ منہ میں صرف اتنا سوراخ بچا تھا کہ کچھ مائع اس میں جا سکے۔ میں نے بہت سے جلے ہوئے چہرے دیکھے ہیں کہ ’عمر گزری اسی دشت کی صحرائی میں‘ لیکن یہ بھیانک چہرہ تو مجھے خوابوں میں بھی ڈرائے۔

کہانی اس سے بھی زیادہ دلگداز تھی۔ بچی کو شروع ہی سے مرگی کے دورے پڑتے تھے جنہیں جنوں سے منصوب کر کے پیروں اور مزاروں کے متواتر دورے کروائے گئے۔ جہالت اور غفلت و ضعیف الاعتقادی کی انتہا دیکھی۔ اس پندرہ سالہ بچی کو کئی سالوں سے روزانہ چار پانچ مرتبہ مرگی کے دورے پڑتے تھے اور ہر دفعہ کسی مولوی سے دم کرا دیا، پیر کے پاس لے جاکر تعویز گلے میں باندھی اور یا کسی ملنگ کی زیارت پر لے گئے۔ چند دن قبل اسے باورچی خانے میں کھانا پکانے کو کہا گیا۔

اس نے چولہا جلایا اور پتیلی رکھنے سے قبل اسے دورہ پڑ گیا۔ چنانچہ معصوم چاند بی بی نے آرام سے اپنا چہرہ جلتے چولہے پر رکھ دیا۔ جب گوشت کے جلنے کی بو سارے گھر میں پھیلی تو کسی نے آواز لگائی ’او مردود، گوشت کیوں جلا دیا ہے؟‘ جواب نہ ملنے پر اس کی ماں دیکھنے آئی تو معلوم ہوا کہ گوشت تو گل گیا ہے لیکن اس کی پیاری بیٹی کے چہرے کا۔ جس ملک میں جلنے والے مریضوں کے ماہرین ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاتے ہوں تو وہاں کس کو اس کی پرواہ یا علاج آتا ہو گا۔

کہیں کسی نے سپرے لگانے والے کا بتایا تو وہاں لے گئے۔ کہیں کسی نے زیتون کا تیل لگانے کو کہا تو وہ لگا دیا۔ میرے پاس آئے تو اسے اس عذاب میں مبتلا ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا جو کہ جلنے والی جگہ پر کسی قسم کا آپریشن کرنا نہایت مشکل بنا دیتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ اب اس کی مرگی کے دورے کس رفتار سے پڑتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اس میں بھی فرق نہیں آیا اور کم از کم تین چار دورے تو روزانہ پڑتے ہی ہیں۔ میں نے انہیں نیورو فزیشن کے پاس بھیجا اور کہا کہ جب ایک ہفتے تک اس پر دورہ نہ پڑے تو پھر آپریشن کے لئے لے کر آجانا۔

چنانچہ پرسوں میں نے باقی سارے آپریشن ملتوی کر کے چاند بی بی کو مکمل وقت دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ اگرچہ منحنی سی تھی لیکن اسے کم از کم پانچ بوتل خون کی ضرورت تھی۔ آپریشن تھیٹر میں ماہر انیستھیزیا، ڈاکٹر عادل نے اپنا مسئلہ پیش کیا۔ چونکہ چاند بی بی کا منہ اتنا سکڑ چکا تھا کہ اس میں انیستھیزیا کا ٹیوب گزارنا نا ممکن تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے کیسز میں ایک اینڈوسکوپ سے مانیٹر پر نظروں کے سامنے یہی ٹیوب سانس کی نالی میں ڈالی جاتی ہے۔

میرے اور ڈاکٹر عادل کا بیس سے زیادہ برسوں کا ساتھ ہے۔ کچھ تو اس کی پرہیزگاری کہ ہر مریض کو سلانے سے قبل کئی دعائیں پڑھ کر ہی ہاتھ لگاتا ہے۔ چنانچہ ہم نے رسک لیتے ہوئے اسے فالج کرنے کا ٹیکہ لگادیا اور فوراً ہی اس کے منہ میں میں نے چاقو سے چیرا دے دیا۔ بہتے ہوئے خون کو روک کر میں نے مریض واپس ڈاکٹر عادل کی تحویل میں دے دیا۔ اللہ کی مدد حاصل رہی اور چاند بی بی مکمل بے ہوشی لیکن سانس اور دل پر کنٹرول کے ساتھ ممکن ہوئی۔ میں اور میرے اسسٹنٹوں نے پانچ چھ گھنٹے میں اس کا گلا ہوا گوشت ہٹا کر انسان نما چہرہ بنانے کی کوشش کی۔ میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں یہ تو اگلے ہفتے پتہ چلے گا جب اس کی پٹیاں ہٹیں گی۔ لیکن ظاہر ہے مصور مطلق کی شہکار کا انسان جیسی بے وقعت شے کیسے مقابلہ کر سکتی ہے۔

مرگی کا مرض شاید انسان جتنا ہی پرانا ہے لیکن اس کا مطالعہ نہایت دلچسپ ہے۔ ہمیں ویسے تو معلوم ہے کہ دماغ پورے بدن کا حکمران ہے اور بدن کے مختلف اعضاء اور حرکات، سکنات اور احساسات کے بٹن ایک نقشے کی طرح دماغ پر منقش ہیں۔ کسی بھی وجہ سے اگر متعلقہ نقشے پر کوئی دباؤ پڑے یا ویسے ہی بدن میں موجود کرنٹ وہاں پر سمجھیں کہ شارٹ سرکٹ ہو جائے جس سے ٹیلیفون میں شور سا سنائی دیتا ہے، تو ہمارے جسم کے اسی حصے کو متحرک کر دیتا ہے یا اگر احساس کے نکتے کو چھیڑا جائے تو پورا جسم بغیر کسی بیرونی عوامل کے وہی احساس محسوس کرے گا۔

چنانچہ جب بدن کے مختلف عضلات کے نکات پر سے بجلی کا وہ کرنٹ گزرتا ہے تو بدن کے سارے عضلات اکڑ جاتے ہیں یا جھٹکے کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی چوٹ لگنے سے بھی دماغ کا وہ حصہ بار بار شارٹ سرکٹ ہو سکتا ہے یا اگر دماغ میں کوئی رسولی ہو تو وہ بھی دباؤ ڈال کر مرگی کا دورہ لا سکتا ہے۔ چوٹ اور رسولی کے علاوہ دوسرے قسم کے دوروں کا مستقل علاج ابھی تک نہیں نکلا ہے لیکن کم از کم اس کی شدت اور تواتر پر کسی نہ کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے اور ان مریضوں کو نیورو فزیشن کے پاس جانا چاہیے نہ کہ جنوں کے ماہر اور پیر اور زیارات کے پاس۔

چونکہ مرگی کا دورہ کہیں بھی پڑ سکتا ہے اس لیے ہمارے تماش بین عوام فوراً اپنے اپنے ٹوٹکے بتانا شروع کر دیتے ہیں۔ سب سے اہم کام ان مریضوں کو سائڈ پر لٹا کر ٹھوڑی اوپر کرنی چاہیے تاکہ اس کی زبان اس کے سانس لینے میں خارج نہ ہو۔ اور بس یا تو دورہ گزرنے کا اور یا کسی ایمبولینس کا انتظار کیا جائے۔ دماغ کی جسم پر حکومت کے ایسے ایسے ثبوت ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی ذائقے کا نقطہ دماغ میں گرم ہو جائے تو اس انسان کو وہی ذائقہ اپنے منہ میں محسوس ہو گا۔

اگر کمر پر لمس کا بٹن دب جائے تو انسان کو اپنی کمر پر کسی شے کے پھرنے کا احساس ہو گا۔ انہی خواص کا مطالعہ کر کے اب کمپیوٹر کے ذریعے سے ایسے نت نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں کہ اگر آپ کے تمام حسیات کو مخصوص انداز میں چھیڑا جائے تو کمپیوٹر کی مرضی کے مطابق ہی آپ محسوس کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک مخصوص قسم کا ٹائٹ لباس، جس میں سنسر لگے ہوں پہن لیں اور ایک ہیلمٹ جس میں سکرین اور ہیڈ فون بھی لگا ہو، پھر اس پر آپ اپنی سی ڈی کمپیوٹر میں ڈالیں تو آپ کو بالکل اصل کی طرح محسوس ہو گا کہ آپ ہوا میں اڑ رہے ہیں۔

میرا یہ کالم اپنے قارئین کے لئے نہیں کہ وہ ماشاء اللہ مرگی کو جنات کی کارروائی کبھی بھی قرار نہیں دیں گے۔ میں ان کے معلومات میں تھوڑا بہت اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں کہ ان کے آس پاس یا گھریلو ملازمین ہوں گے جو اپنے رشتہ داروں کی مرگی کے دوروں کے بارے میں پریشان ہوں گے، ان کے علم میں یہ بات لائی جائے۔ اس کے علاوہ وہ مریض جن کے دوروں پر دوا کے ذریعے سے قابو پا لیا گیا ہو تب بھی ان کو کہیں اکیلے نہیں ہونا چاہیے۔ باورچی خانہ میں تو ایسے مریض کا داخلہ ممنوع ہو، حتیٰ کہ یہ مریض جب غسل خانے میں بھی جا رہے ہوں تو دروازہ اندر سے بند نہ کریں۔ بعض مرگی کے دورے کسی بیرونی محرک سے ٹریگر ہوسکتے ہیں مثلاً بے حد تیز میوزک یا سکرین پر روشنیوں کی فلیشیں۔ ٹیوب لائٹ کی لرزتی شعاعیں بھی دورہ لانے کا سبب بن سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments