ایک بے روزگار شخص کا قریبی دوست کے نام خط


2 دسمبر 2022
پیارے دوست!
السلام علیکم!

یار۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں؟ ہر طرف کوشش کر چکا ہوں مگر مجال ہے کہ امید کی ایک کرن بھی نظر آئے۔ گریجوایشن کیے ہوئے بھی ایک سال ہونے کو ہے مگر کہیں روزگار لگنے کا دور دور تک کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آ رہا۔ دن بھر مختلف دفاتر کی خاک پھانکتا ہوں مگر کوئی بھی مجھے کام پر رکھنے کو تیار نہیں۔ ہر ایک دفتر ایک خاص مدت کا تجربہ مانگتے ہیں اور میں ٹھہرا فریش گریجوایٹ۔ بندہ بھلا ان سے پوچھے کہ فریش گریجویٹ دو سال یا تین سال کا تجربہ کہاں سے لائے بھائی۔

جب کوئی نوکری دے گا ہی نہیں تو تجربہ خاک آئے گا۔ ستم بالائے ستم کہ ابا مجھ سے کئی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اصل میں ان کا بھی تو کوئی قصور نہیں نا۔ انھوں نے مجھے اس قدر اس لیے ہی پڑھایا لکھایا تھا کہ بیٹا کہیں اچھی نوکری کرے گا تو گھر کے حالات اچھے ہو جائیں گے۔ اب ایک سال سے ان کی نظریں میری طرف ہی جمعی ہوئی کہ کس دن میں تنخواہ لا کر ان کی ہتھیلی پر رکھوں گا تو وہ ماں کی دوائیاں ایک ساتھ پوری ماہ کی لے کے آئیں گے۔ ہر دو تین دن بعد ماں کے لئے تھوڑی تھوڑی دوائی لانا ان کے لئے بھی مشکل کا باعث ہے۔ بڑی بہن کی منگنی جہاں کی تھی، وہ بھی اب زور دے رہے ہیں کہ اب تو لڑکی کی پڑھائی بھی مکمل ہو چکی ہے تو اب کس بات کی دیری ہے؟

اب انھیں کھلے عام تو نہیں نا کہہ سکتے کہ ہمارے پاس شادی کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ فی الحال تو ان سے کچھ وقت طلب تو کر لیں گے مگر کب تک؟

چھوٹا بھائی بھی اب الحمدللہ بی ایس میں داخل ہو چکا ہے۔ اس کے اخراجات الگ ہیں۔ میرے بابا کی بڑی ہمت ہے کہ انھوں نے اس قدر مہنگائی میں بھی گھر کا نظام چلائے رکھا۔ اور ساتھ ہی ہمیں پڑھایا لکھایا بھی۔

یار کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ایک طرف گھر کے حالات ہیں اور دوسری معاشرے کے طعنے بھی کہ گریجوایشن کیے ہوئے ایک سال بیت چکا ہے مگر مجال ہے جناب نے ایک دھیلا بھی لا کر باپ کی ہتھیلی پر رکھا ہو۔ سچ پوچھوں تو اب مجھے خود بھی اپنے وجود سے اذیت سی محسوس ہوتی ہے۔ ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی کہیں ہاتھ نہیں اٹک رہا۔ اب خود سے بھی شرمندگی کا احساس امڈ امڈ آتا ہے۔

رات کو ہی سوچ رہا تھا کہ کسی بیرون ملک جا کر قسمت آزما کر دیکھ لوں۔ مگر وہاں جانے کے لئے بھی ایک خاصی رقم درکار ہے۔ بابا پہلے ہی کئی رشتے داروں اور محلے والوں سے قرض لے لے کر مجھے یہاں تک پڑھایا۔ اب اگر بیرون ملک جانے کا کہا تو غصے سے لال ہو جائیں گے کہ پھر تمھیں ہم نے پڑھایا ہی کیوں تھا اگر باہر جاکر ہی مزدوری کرنی تھی تو ؟

لیکن اب میں اس حد تک پہنچ چکا ہوں کہ اب جو بھی کام کرنے کو ملا، وہ کر لوں گا۔ اب کروں بھی تو کیا کروں؟ حالات نے میرے گرد گرفت اس قدر اب تنگ کر لی ہے کہ سانس لینا بھی محال لگتا ہے۔ رات کو عجیب عجیب سے خواب آتے ہیں۔ جس کسی سے بھی اپنی بے روزگاری کی بات کرتا ہوں تو آگے سے ”محنت کرو بھائی“ کا جملہ ہوا میں بکھیر دیتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ شاید میں محنت نہیں کرتا۔ حالاں کہ قسم باخدا کہ ایسا کوئی دن نہیں جس دن میں نے اپنا صد فیصد نہ دیا ہوں۔ جہاں بھی جاتا ہوں اپنا بیسٹ ہی دے کر آتا ہوں۔

کبھی کبھی تو بڑا عجیب سا ہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ ابھی بابا کے ہوتے سوتے ہمارے معاشی حالات ایسے ہیں تو اگر خدا ناخواستہ بابا کو کل کو کچھ ہو گیا تو ؟ میں کیسے سارے گھر کی ذمہ داری سنبھال پاؤں گا۔ میں اس گاڑی کو کیسے دھکیل سکوں گا جسے لوگ ”زندگی“ کا نام دیتے ہیں۔

میں یہاں لاہور میں مختلف دوستوں کے ہاں رہائش پذیر ہو رہا ہوں اور اس طرح یہ جگاڑ چل رہا ہے۔ اب تم سے بس ایک چھوٹی سے درخواست ہے کہ کہیں سے دس ہزار روپے کر کے میرے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں منتقل کر دو اور میں یہاں سے بابا کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دوں گا۔ اور نہیں تو کم از کم بابا کو آسرا تو ہو کہ بیٹا کچھ کمانے لگ گیا ہے۔ بابا بتاتے نہیں مگر گھر کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ اگلے ہفتے ہی ایک جگہ انٹر ویو دینے جانا ہے۔ اب کی بار امید واثق ہے کہ نوکری ہو جائے گی۔ پھر نوکری ہوتے ہی اس کے اگلے ماہ میں تمھیں پیسے واپس کر دوں گا۔ اور میری یہ بات کسی کو مت بتانا۔ میری اور تمھاری آپس کی بات ہے۔ جیسے سکول میں میری اور تمھاری کچھ باتیں آپس کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ عمر بھر تمھارا مشکور رہوں گا۔

والسلام
ا ب ج


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments