جان محمد اکیلا تو نہیں ہے


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

جان محمد کوئٹہ کا رہائشی ہے۔ کمپاؤنڈر ہے مگر علاقے میں اپنا کلینک چلاتا ہے۔ اس کی تین بیویاں ہیں۔ یکم جنوری کو جان محمد کے ہاں ساٹھواں بچہ پیدا ہوا۔ جان محمد اب چوتھی شادی کرنا چاہتا ہے تاکہ اولاد کی سنچری کا ریکارڈ قائم کر سکے۔

جان محمد کو بھی یقین ہے کہ جو دیتا ہے وہی پالتا ہے۔ اسے کوئی بھی بتانے والا نہیں کہ اس کے ساٹھ بچوں کو پڑھائی کے لیے کسی سکول کا رخ کرنا ہوگا۔ بیماری آزاری کی صورت میں ہسپتال جانا ہوگا۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ روزگار بھی کرنا ہوگا۔ کل کلاں ان بچوں کی شادیاں بھی ہوں گی۔ ان شادیوں سے اور بچے بھی ہوں گے۔

جان محمد کو کون سمجھائے کہ اس پوری اخراجاتی فہرست اور سہولتوں کا تعلق کہیں نہ کہیں قومی بجٹ سے بھی جڑتا ہے اور یہ بجٹ آسمان سے نہیں اترتا بلکہ تیرے میرے ٹیکسوں، قرض، امداد اور بھیک سے پورا ہوتا ہے۔

جان محمد کو اس پر قائل کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ وہ جتنے بچے پیدا کرے گا ان کے لیے معیاری تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار کا حصول اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ بطور ان کی بنیادی تربیت پر بھی کماحقہ توجہ نہیں دی جا سکے گی۔

جان محمد اپنی سوچ اور فخر میں تنہا نہیں۔ ہم میں سے ننانوے فیصد لوگ خدا کے آسرے پر بے دھڑک بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں مگر ان کے لیے سہولتوں کا مطالبہ زمینی حکومتوں سے کرتے ہیں جو خود خدا کے آسرے پر ملک چلا رہی ہیں۔ لیکن اکسیویں صدی کی ہر سہولت کو قبضانے اور طبقاتی و اداراتی مفادات کے تحفظ اور اپنے ذاتی بچوں کے بہتر مستقبل کی جدید انداز میں تعمیر کا کام کلی طور سے خدا کے آسرے پر چھوڑنے کے بجائے مخلوقِ خدا کے بنیادی حقوق کی قیمت پر دونوں ہاتھوں سے کر رہی ہیں۔

اس وقت جو حالات ہیں اور جس جانب ان حالات کا رخ ہے۔ انھیں دیکھ دیکھ کے ہونا تو یہ چاہیے کہ ماؤں کو معاف کر دیا جائے اور جو بچے اب تک پیدا ہو چکے ہیں انھی کا مستقبل سنوارنے کی فکر کی جائے۔ مگر یہ بات اتنی آسانی سے بالخصوص ہم جیسے مردوں کی سمجھ میں آ جائے تو پھر بات ہی کیا ہے۔

ہم نہ تو ایران ہیں، نہ ہی چین اور نہ ہی بنگلہ دیش جہاں کی سرکاریں پیش بینی کے طور پر کم بچوں کی افادیت کی ترغیب و تادیب کے لیے نہ صرف قانون سازی کرتی ہیں بلکہ اس قدر منظم پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ عام آدمی کے دل پر کچھ نہ کچھ اثر ہو ہی جاتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی اختیار کرنے میں بھلا ہے اسی طرح اولاد کے شعبے میں بھی یہی اصول مفید ثابت ہو گا۔

مگر اس دیس میں نہ جان محمد جیسوں کے لیے وارننگ ہے اور نہ دو بچوں کے کنبے کے لیے کوئی اضافی سہولت و سراہنا۔

جب ایوب خان کے دور میں امریکہ کی مدد سے خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع ہوا تو اس پر ایسے عمل ہوا گویا ہم خود پر نہیں امریکہ پر احسان کر رہے ہیں۔
بچوں نے کونڈومز کو غبارے بنا کے گلی محلوں میں اڑانا شروع کر دیا، مفت ہاتھ آنے والی سپرمز کنٹرول کی فوم ٹیوب کو غریب غربا شیونگ کریم سمجھ بیٹھے۔ آدھے سے زیادہ بجٹ خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے کے انتظامی اللوں تللوں اور فیلڈ اور افسروں کے لیے نئے ماڈل کی گاڑیوں کی شاپنگ میں لگ گیا۔

صرف اسی پروگرام کی گت تھوڑا بنی۔ ہم نے تو ہر امدادی پروگرام کے ساتھ یہی کیا۔ سبز انقلاب لانے کے لیے دساوری مشورے اور پیسے بھی لیے مگر جاگیرداری نظام اور سوچ کو کسی بھی معروضی سے بچا کے رکھا اور جب بہت ہی دباؤ بڑھا تو کچھ ظاہری زرعی اصلاحات کا غازہ قومی چہرے پر تھوپ کے ایک ہاتھ سے زمین لی اور دوسرے ہاتھ سے واپس کر دی یا جس ادارے میں طاقت تھی اس نے ہتھیا لی۔

افغانستان سے سوویت فوجوں کو نکالنے کے ارب ہا ڈالر کے امدادی کاروبار میں ہاتھ ڈالا تو کروڑوں افغان و پاکستانی دربدر ہو گئے مگر پروجیکٹ چلانے والے ناقابلِ تسخیر حد تک ہر اعتبار سے طاقت ور ہو گئے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا چھینکا ٹوٹا تو جو پیسے ہاتھ آئے وہ گالف کورسز کی آبیاری، اشرافی ہاؤسنگ پروجیکٹس اور سیاست کے حصے بخرے کرنے اور ایک کو دوسرے سے بھڑانے میں خرچ ہو گئے۔ اور اب سی پیک کا گیم چینجر کھیلنے کو مل گیا ہے۔ چند برس بعد کوئی اور من و سلوی اتر آئے گا۔

بات ہو رہی تھی آبادی میں اضافے اور خاندانی منصوبہ بندی کے نیم امریکی نیم دیسی پروگرام کو جگ ہنسائی بنانے کی۔

بھٹو دور میں اس پروگرام کی ناکامی کا جائزہ لیا گیا تو کسی لال بھجکڑ نے تجویز دی کہ اگر پروگرام کا نام خاندانی منصوبہ بندی سے بدل کے آبادی منصوبہ بندی رکھ دیا جائے تو شاید کوئی افاقہ ہو۔ کیونکہ لوگ باگ خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز میں آ کر مشورہ لینے سے شرماتے ہیں۔ (یعنی اپنی معاشی اوقات سے زائد بچے پیدا کرنے سے نہیں بلکہ انھیں ایک معقول تعداد میں رکھنے کے طریقے معلوم کرنے سے شرماتے ہیں۔ اللہ اللہ)۔

چنانچہ یہ بھی کر کے دیکھ لیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلے پچاس برس میں آبادی دوگنی ہو گئی۔ جبکہ چھپن فیصد آبادی والے مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بننے کے بعد اپنی آبادی، رقبے اور وسائل کو جمع تقسیم ضرب دے کر آبادی کو باشعور بنانے پر پوری توانائی لگا دی اور آج وہ اس کوشش کا پھل سمیٹ رہا ہے، جس مغربی پاکستان کی آبادی متحدہ پاکستان میں چوالیس فیصد تھی آج اس کی آبادی بنگلہ دیش کی آبادی سے بھی چھ کروڑ زیادہ ہے۔

اس وقت معیشت اس بالٹی کی طرح ہے جس کا پیندہ غائب ہو چکا ہے مگر ہم اس میں مسلسل آبادی کا پانی بھرے چلے جا رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ چیخ بھی رہے ہیں کہ دیکھو دیکھو دنیا کتنی بے حس ہو چکی ہے۔ پاکستان سے ہر طرح کی قربانیاں تو طلب کرتی ہے مگر بدلے میں کچھ نہیں دیتی۔

رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب

خون تھوکوں تو واہ واہ کیجیے

( جون ایلیا )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments