امیروں کی شام غریبوں کے نام


”امیروں کی شام غریبوں کے نام“

میں چھوٹا تھا تو ایک فلم دیکھی دیکھی تھی غالباً اس کا نام تھا ”نام“
اس فلم میں ایک گانا تھا ”امیروں کی شام غریبوں کے نام“

اس وقت مجھے اس فلم کے اس گانے کی سمجھ نہیں آئی تھی میں نے کئی بار چاہا کہ کسی سے پوچھوں اس شعر کا کیا مطلب ہے مگر نہ پوچھ سکا۔

اب جب سیلاب زدہ علاقوں کی تصاویر آٹا لینے والوں کی لائنوں کی تصاویر پھٹے کپڑوں ننگے پیروں والے پاکستانی بچوں کی تصاویر جو بین الاقوامی سطح پہ پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان تصاویر کو دیکھ کر دوسرے ممالک پاکستان کی مالی امداد کرتے ہیں اور اس امداد سے حکمران شہ خرچیاں کرتے عیاشیاں کرتے اور پارٹیاں کرتے ہیں تو مجھے وہ گانا یاد بھی آتا ہے اور حرف بہ حرف سمجھ بھی آیا ہے۔

غریبوں اور آفت زدہ لوگوں کی حالت زار دکھا کر امداد اکٹھی کرنے والوں کی ہر رنگین شام سچ مچ غریبوں کے تذکرے سے شروع ہو کر غریبوں کے نام پہ ختم ہوجاتی ہے۔

اگر آپ کا گزر کبھی حاصل پور ڈاکخانہ والی گلی سے ہو تو وہاں ایک بھکاری ہاتھ پیروں سے معذور بچے کو چوکی یعنی پیڑھی پہ لٹا کر بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ آپ اگر غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس بچے کے ہاتھ پیر قدرتی طور پہ نہیں بلکہ کسی خودساختہ طور پر کیے گئے ظلم کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔

کل میں کافی دیر اس مسکراتے ہوئے معذور بچے کے پاس کھڑا رہا اور سوچتا رہا۔ مجھے اس بچے میں پاکستان نظر آ رہا تھا۔ اور اس بھکاری میں پاکستان کے سرکردہ لوگ جو میرے ملک کو چلاتے اور اس ملک کی پالیسیاں بناتے ہیں۔ جو پاکستان کے غریب زلزلہ زدگان آفت زدہ سیلاب زدگان اور محرومیوں کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی تصاویر دکھا کر حالت زار کا بین الا اقوامی فورمز پہ جاکر رونا روتے چندے بھیک فنڈز لیتے اور ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس بھکاری کے پاس پڑی پلاسٹک کی ٹوکری پچاس پچاس بیس بیس اور دس دس والے نوٹوں سے تقریباً بھری پڑی تھی اور بھکاری اس معذور بچے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے باسی نان کے کھلا رہا تھا۔

میں نے بھکاری سے کہا۔ یار اسے کوئی فروٹ یا سالن روٹی کھلاؤ۔ تووہ بھکاری حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ”ایسی خوراک اسے ہضم نہیں ہوتی“ یعنی اس کے دیکھنے کے انداز لہجے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کہنا چاہتا ہے اتنے مہربان نہ بنو دس بیس دینے ہیں تو دو ورنہ چلتے بنو۔

میں سبزی خرید کے گھر واپس تو آ گیا مگر وہ بغیر ہاتھ پیر والا بچہ مسکراتا ہوا (پاکستان) بچہ میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہوسکا۔

میں اکثر خبروں کی شہ سرخیوں۔ ٹی وی پروگرامز اور سوشل میڈیا پہ دیکھتا ہوں کس طرح ہمارے حکمران بین الا اقوامی سطح پہ بھیک مانگتے اور جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔ کس طرح امیر ممالک فنڈز کی برسات کرتے ہیں۔

میرا ملک گندم چاول کپاس گنا معدنیات میں خودکفیل ہے مگر پروپیگنڈا مافیا نے اس ملک کی حالت اس معذور بچے جیسی کردی ہے جو اپاہج ہونے کے باوجود مسکرا رہا تھا۔ اس ملک کو لوٹنے والے کھانے والے تو ختم لیکن یہ ملک شاد آباد اور مسکراتا رہے گا انشاءاللہ۔

خیر اندیش بابا جیونا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments