جینوا کانفرنس۔ معاشی بحالی کی آخری اُمید


پاکستان میں جب سن 2010 میں سیلاب آیا تو اس کا دورانیہ سن 2022 میں آنے والے سیلاب سے زیادہ نہیں تھا اسی لئے ماہرین موسمیات سن 2010 کے سیلاب کو دریائی سیلاب جبکہ سن 2022 کے سیلاب کو فلیش سیلاب کہتے ہیں۔ سن 2010 میں آنے والے سیلاب کے باعث مجموعی نقصان کا تخمینہ تقریباً 12 ارب ڈالر لگایا گیا تھا اس موقع پر امریکہ نے پاکستان کو 600 ملین ڈالر کی امداد دی تھی اس کے علاوہ دیگر 66 ممالک نے بھی امداد کا اعلان کیا تھا جبکہ پچھلے سال سن 2022 میں آنے والے سیلاب سے نقصان کا تخمینہ 14.9 بلین ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے جبکہ اقتصادی نقصان 15.2 بلین اور تعمیر نو کے لئے 16.3 بلین ڈالر سے زائد کی ضرورت ہوگی۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں آنے والا تباہ کن سیلاب کئی دہائیوں میں پاکستان کا بدترین سیلاب تھا جس کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ مکمل ڈوب گیا، 15000 سے زائد افراد سیلاب کے باعث ہلاک اور زخمی ہوئے، 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، 20 لاکھ سے زائد گھر، 13 ہزار کلومیٹر طویل شاہراہیں، 439 پل اور 40 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی تباہ ہوئی جبکہ سیلاب کی وجہ سے مزید 9 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔

اس قدر انسانی جانوں کے ضیاع اور زرعی و معاشی تباہی کے باوجود امریکہ نے اس مرتبہ 600 ملین سے زیادہ امداد دینے کی بجائے صرف 53 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر امداد ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان پہلے ہی معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے ان حالات میں امریکہ کی جانب سے معمولی امداد کے اعلان کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی جبکہ اس مرتبہ 66 ممالک کی بجائے اب تک صرف 12 ممالک نے ہی پاکستان کو امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔

اگرچہ اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ 2.2 ملین گھرانوں کی امداد کے لئے 245 ملین ڈالر فراہم کیے گئے اور بین الاقوامی تنظیموں کے تعاون سے بے گھر اور بے سہارا افراد میں لاکھوں خیمے، خوراک، پانی اور ادویات تقسیم کی گئیں اس کے علاوہ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ’قطر نے بھی امدادی کاموں میں پاکستان کی معاونت کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی اس کے باوجود پاکستان کی معیشت کو کورونا وائرس، ڈینگی و دیگر وبائی امراض، سموگ اور بدلتے موسموں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے جس قدر نقصان پہنچ چکا ہے اس کی بحالی ایک معجزہ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔

ماہرین اور تجزیہ کار موجودہ صورتحال کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات مختلف انداز میں پیش کر رہے ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ کورونا نے عالمی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس لئے بہت سے ممالک پاکستان کو امداد دینے کے قابل نہیں رہے جبکہ کچھ تجزیہ کار تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ امداد دینے والے ممالک کا اعتماد پاکستان پر سے اٹھ گیا ہے اور شاید وہ امداد کے حوالے سے حکومت کا روڈ میپ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا پیسہ کب، کہاں اور کیسے خرچ ہو گا؟

بہرحال حقیقت یہی ہے کہ اس وقت پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی جانب سے معمولی امداد کے بعد جنیوا کانفرنس پاکستان کے لئے ایک مضبوط معاشی سہارے کی سب سے بڑی امید ہے۔ عالمی موسمیاتی کانفرنس میں پاکستان کو بین الاقوامی برادری سے 16 ارب 26 کروڑ ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ فور آر ایف فریم ورک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کے لئے ایک سال میں چھ ارب 78 کروڑ ڈالر فوری طور پر درکار ہیں اور آئندہ تین سال میں اسے چھ ارب 17 کروڑ ڈالر سے زائد کی ضرورت ہوگی جبکہ لانگ ٹرم امداد میں پانچ سال کے دوران پاکستان کو تین ارب 63 کروڑ ڈالر سے زائد درکار ہوں گے ۔ فور آر ایف فریم ورک کے مطابق پاکستان کا سیلاب سے مجموعی طور پر 15 ارب 32 کروڑ ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے اگر اس مرتبہ پاکستان کو توقع کے مطابق بین الاقوامی امداد حاصل ہو گئی تو نہ صرف معیشت کی بحالی میں مدد ملے گی بلکہ تعمیر نوکا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments