حامد میر کا کالم، سابق باجوہ انتظامیہ کی کشمیر پالیسی، حقائق، سیاست


معروف صحافی حامد میر کا 9 جنوری کوایک کالم شائع ہوا جس میں انہوں نے کشمیر کے حوالے سے سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید اور سابق وزیر اعظم عمران خان سے متعلق کئی باتوں کا انکشاف کیا۔ کالم میں بیان کردہ باتیں سیاسی اور عوامی حلقوں میں زیر بحث بھی ہیں۔ حامد میر نے کالم میں کہا کہ سابق باجوہ رجیم نے بھارت کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی میں اس بات سے اتفاق کیا کہ کشمیر کو 20 سال کے لئے فریز کر لیا جائے، اور انہیں کشمیر پر کسی قسم کے بریک تھرو کی امید تھی۔

حامد میر نے کالم میں جو باتیں بیان کیں، اس میں کشمیر کے مسئلے پر گہری نظر رکھنے والوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ اس سے یہ ہوا ہے کہ حامد میر کے پاس میڈیا کا ایک وسیع پلیٹ فارم موجود ہے، اس سے جو باتیں ہمیں معلوم تھیں، ان کی تصدیق ہوتی ہے اور عام لوگوں تک بھی یہ باتیں پہنچ گئی ہے اور اب مختلف حلقوں میں زیر بحث بھی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حامد میر نے جس طرح کالم میں بیان کیا، اس میں ایک سیاسی پہلو بھی نمایاں ہے، یہ بات بھی زیر غور رہنی چاہیے۔

کشمیر کو فریز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مشرف دور میں پاکستان نے کشمیر پر پسپائی اختیار کی، قدم بقدم پیچھے ہٹتے گئے، اسی طرح فریز کرنے کا مطلب یہی ہے کہ بھارت کشمیر میں جو بھی کرتا ہے، پاکستان اس میں کشمیر کی صورتحال سے لاتعلق ہو جائے اور عالمی سطح پہ کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے بھارت کے لئے مشکلات کھڑی نہ کرے۔ فریز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو بھر پور موقع دیا جائے کہ وہ کشمیر میں جس طرح کر رہا ہے، ہر سطح پہ کشمیریوں کے خلاف انتہائی نوعیت کی کارروائیاں کر رہا ہے، کشمیریوں کے مطالبات کو دبانے کے لئے، اس میں پاکستان کسی قسم کی مزاحمت نہ کرے، کشمیر سے لاتعلقی اختیار کرے۔

کشمیر سے لاتعلقی کا مظاہرہ گزشتہ دور حکومت میں نمایاں طور پر دیکھا گیا۔ مسئلہ کشمیر سے باخبر افراد کے سامنے ایک چیز واضح ہے کہ کس طرح پاکستان نے اپنے آپ کو اتنا لاتعلق کر لیا کہ اس پر کشمیر فروشی کا الزام لگا، کئی با خبر، ذمہ دار افراد نے یہ بات کہی کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو جو اقدام کیا، اس میں امریکی ایماء پہ پاکستان کی بھی انڈر سٹینڈنگ تھی۔

یہاں یہ بیان کرنا بھی اہم ہے کہ اہم عہدیداران کی طرف سے جو بیان دیے جاتے ہیں کہ کشمیر کو بیک برنر پہ نہیں ڈالنا۔ اس متعلق یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کچھ حقائق ہوتے ہیں، کچھ سیاسی بیانات ہوتے ہیں۔ کئی حقائق کا اگر سیاسی سطح پہ بیانات میں اعتراف کیا جائے تو اس کی صورتحال ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ بڑے حساس معاملات ہوتے ہیں، کئی باتیں سمجھنے کی ہوتی ہیں، کہنے کی نہیں ہوتیں۔ پالیسی میں، حکمت عملی میں اور بیان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

جو ان امور کو انڈر سٹینڈ کرتا ہے، وہ تو اس معاملے کو سمجھتا ہے لیکن جو اس متعلق علم و ادراک نہیں رکھتا، وہ بڑا کنفیوز ہو جاتا ہے کہ دیکھو پالیسی کیا ہے، ہو کیا رہا ہے اور یہ بات کیا کر رہے ہیں، عام آدمی اس سے کنفیوز ہوتا ہے۔ لیکن جو پالیسی کو، حکمت عملی کو اور بیان میں تفریق کو انڈر سٹینڈ کرتا ہے، اس کو بالکل بھی حیرت نہیں ہوتی۔

بات یہ ہے کہ پاکستان یا بھارت کیا کرتے ہیں، کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں، یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ پاکستان میں سابق رجیم کی گزشتہ پالیسی تھی، یہ درست ہے کہ اس وقت پاکستان اقتصادی صورتحال اور دہشت گردی کے سنگین مسائل کے حوالے سے بہت دباؤ میں ہے، لیکن اس کے باوجود ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ سابق حکومت کی کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی واقع ہور ہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سابق باجوہ رجیم کو بھارت نے بیک چینل سے جو لالی پاپ دیا تھا کہ ہم کشمیر پر کچھ اتفاق کر لیں گے، مشرف کی طرح وہ بھی لالی پاپ ہی ثابت ہوا۔ اب پاکستان کی نئی فوجی قیادت یہ انڈر سٹینڈ کرتی ہے کہ ایک بار پھر سبز باغ دکھایا گیا اور اس سے حاصل کچھ نہیں ہوا اور ہماری پوزیشن اور بھی کمزور ہوئی ہے۔

اس میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ بھارت جب بھی بیک ڈور چینل سے رابطے کرتا ہے تو وہ یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ پاکستان کتنا پیچھے ہٹا ہے اور پاکستان مزید کتنا پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ عملی طور پر بھارت ایک فیصد بھی کشمیریوں پر ستم میں کمی نہیں کرتا۔ کشمیریوں کو یہ بات محسوس کرنا چاہیے کہ پاکستان انتظامیہ اپنی مجبوریوں، اپنی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پالیسی اختیار کرتی ہے۔ یہ کشمیریوں نے دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تو صاف طور پر عیاں ہے کہ وہاں تو انسان کو بات کرنے کی بھی آزادی نہیں ہے۔ انڈین آرمی، انڈین ایجنسیاں وغیرہ کشمیریوں کو کوئی بات نہیں کرنے دیتیں۔ مقبوضہ کشمیر میں عالمی میڈیا اداروں، وائس آف امریکہ، بی بی سی، ڈوئچے آف ویلے و دیگر کے نمائندے بھی اس جبر کی صورتحال میں رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وہ صورتحال بیان کر ہی دیتے ہیں کہ انڈین گورنمنٹ کا یہ کہنا ہے اور تحریکی، عوامی حلقوں کا ایسا کہنا ہے۔ اس سے بات سامنے آ ہی جاتی ہے۔ عالمی میڈیا اداروں کی آئے روز ایسی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں جن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، وہاں ظلم اور جبر کی انتہائی نوعیت کی صورتحال کو اپنی رپورٹس میں نمایاں طور پر شامل کیا جاتا ہے۔

یہ کشمیریوں کو دیکھنا ہے کہ وہ پاکستان انتظامیہ کی مجبوریوں کو اپنی مجبوری نہیں بنا سکتے۔ مسئلہ بنیادی طور پر کشمیریوں کا ہے جو یہ مسئلہ حل نہ ہونے سے ہر عنوان میں بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔ 1947 سے ہی دیکھیں تو کشمیر کو غیر فطری اور کشمیریوں کو جابرانہ طور پر تقسیم کرنے والی سیز فائر لائن، جسے بعد میں لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا، اس کا قیام مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کے لئے پہلا اقدام تھا۔

لیکن یہاں ہی مسئلہ کشمیر کے حل کے طے شدہ طریقہ کار کو منجمد کر دیا گیا، اس سے آگے کے اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تاشقند معاہدہ، شملہ سمجھوتے سمیت کئی بار کشمیر کے حوالے سے باہمی سطح پہ کئی باتوں پہ اتفاق کیا گیا، آخری اتفاق ایل او سی پہ سیز فائر کا اتفاق کیا گیا۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور چینل سمیت کشمیر پر مختلف حوالوں سے کئی بار اتفاق کیے جانے کے باوجود کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔

اس لئے حل نہیں ہوتا کہ کشمیریوں کے مصائب، کشمیریوں پہ ڈھائے جانے والے ظلم و جبر کو ختم نہیں کیا جاتا، ان کے حقوق، جس کے لئے کشمیری کئی نسلوں سے جدوجہد کر رہے ہیں، ان کا احساس نہیں کیا جاتا، اس لئے دونوں ملکوں کے باہمی اتفاق کے باوجود کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی اتفاق سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ آج کل، بالخصوص گزشتہ تین چار سال سے بھارت ہر سطح پہ کشمیریوں کے خلاف انتہائی نوعیت کے اقدامات کر رہا ہے۔

بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اس کے امریکہ، مغرب کے ساتھ جس طرح اچھے تعلقات قائم ہیں، اس صورتحال میں بھارت سمجھتا ہے کہ اس کو اوپن گراؤنڈ ملا ہوا ہے کہ وہ جس طرح بھی چاہے، انتہائی اقدامات کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو اپنے حق میں حل کر سکتا ہے۔ بھارت نے ہر کشمیری کے سر پہ بندوق تانی ہوئی ہے، اس کے باوجود بھی بھارت کشمیر کا مسئلہ اپنے حق میں حل نہیں کر پا رہا ہے۔

کشمیری پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے کس بات پہ تنقید کرتے ہیں، کس بات کے شاکی ہیں کہ پاکستان انتظامیہ کشمیر سے متعلق کمزور اور معذرت خواہانہ پالیسی اختیار کیے نظر آتی ہے۔ عالمی سطح پہ جس طرح سرگرم سفارتی مہم چلانے سے بار بار اتفاق اور اعلان کیا گیا لیکن عملی طور پر ایسا ہوتے نظر نہیں آیا۔ عالمی سطح پہ سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں سے بھارت خود کو مشکلات اور دباؤ میں محسوس کرتا ہے۔ پاکستان کو جس طرح متحرک طور پر سفارتی سطح پہ کوششیں تیز کرنا چاہیے، وہ نہیں کی جار ہیں۔

پاکستان تو مسئلہ کشمیر کا فریق ہے۔ کشمیری پاکستان پہ اس لئے زور دیتے ہیں کہ اگر پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل میں متحرک ہوتا ہے تو یہ کشمیریوں کی مفاد میں ہے، اس سے کشمیریوں کو کشمیر کاز میں فائدہ پہنچتا ہے۔ اسی لئے پاکستان انتظامیہ کی کشمیر پالیسی پہ تنقید کی جاتی ہے، اور مطالبات کیے جاتے ہیں کہ ایسا کیا جانا پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔

سابق حکومت کی کشمیر پالیسی کے اقدامات میں بھی ان کو طویل المیعاد اثرات کے حوالے سے نہیں دیکھا گیا بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ عرصہ اقتدار کتنا ہے، عرصہ ملازمت کتنا ہے۔ اسی طرح مشرف حکومت میں بھی انہوں نے اپنے دور اقتدار کے مفادات، سہولت دیکھ کر فیصلے کیے ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے اقدامات کے کشمیریوں پہ، مسئلہ کشمیر پہ اور پاکستان کے مفاد میں دیرپا طویل المدتی کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ہر حکمران اپنے عرصہ اقتدار، عرصہ ملازمت کو دیکھتے ہوئے ہی اپنی سہولت اور مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرتا ہے۔ اس سے مسئلہ کشمیر کو، کشمیریوں کو اور پاکستان کو بہت بری طرح نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔

مرکزی بات یہی ہے کہ کشمیریوں کے خلاف بھارت ہر سطح پہ ایکسٹریم نوعیت کے ذرائع استعمال کر رہا ہے، اس کے باوجود بھی بھارت مسئلہ کشمیر کو اپنے حق میں حل نہیں کر سکا۔ جلد یا بدیر بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ جب تک وہ کشمیریوں کے حقوق کو تسلیم اور احترام نہیں کرتا، وہ بندوق کی نوک پر کشمیریوں کے جذبات کو تسخیر نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی اپنی ذات کی حرمت، حقوق سے دستبردار نہیں ہو سکتا، انسان تو انسان کوئی جاندار بھی اس سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔

بھارت اور پاکستان دونوں کے یہ مفاد میں ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کا مسئلہ سمجھتے ہوئے منصفانہ اور پرامن طور پر حل کیا جائے۔ کشمیری یہ مسئلہ حل نہ ہونے سے بہت بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، مصائب کے شکار ہیں۔ حالات ہر وقت ایک جیسے نہیں رہتے، آج کشمیری بہت مشکل پوزیشن میں ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی مسئلہ کشمیر کو عالمی اداروں، عالمی برادری کے ایجنڈے سے ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ بھارت نے ہر طرح کے انتہائی اقدامات، ذرائع بھی استعمال کر لئے۔

انسانیت کی بہتری یہی ہے، دونوں ملکوں کا مفاد اسی میں ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جلد سے جلد انسانی بنیادوں پر حل کیا کریں، منصفانہ طور پر حل کریں، ہٹ دھرمی اور دھونس کا طریقہ چھوڑ دیں، جاری طریقہ کار سے نہ تو کشمیر کا کوئی بھلا ہو سکتا ہے اور نہ ہی ایسا جاری رکھنے سے بھارت اور پاکستان کے عوام کا اس میں کوئی مفاد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments