ہم فرانس سے بھیک نہیں لے رہے


مغرب سے مرعوب بعض لبرل طعنے دے رہے ہیں کہ فرانس کو اتنا برا بھلا کہنے کے بعد جب دیوالیہ پن سر پر منڈلایا ہے تو اسی سے جا کر بھیک مانگی ہے کہ ہمیں بچا لو۔ ایسے گمراہ کن دعووں پر محض ہنسی آتی ہے۔ بہرحال میڈیا پر لبرل چھائے ہوئے ہیں جو محض ظاہری صورتحال دیکھ کر حکم لگا دیتے ہیں اور عام لوگ ان کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ شکر ہے کہ قوم میں چند ذی شعور افراد موجود ہیں جو اصل صورتحال کے بارے میں اشارے دے دیتے ہیں۔

یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ تمام ریاستی امور عام نہیں کیے جاتے۔ قوم کے مستقبل پر اثر انداز ہونے والے بڑے منصوبے خفیہ رکھے جاتے ہیں تاکہ دشمن انہیں جان کر ان کا توڑ نہ کر لیں۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک سے پیسے لینا بھی ایسا ہی ایک منصوبہ تھا۔ اب یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہے تو اسے قوم کے علم میں لانے میں کوئی ہرج نہیں۔

ہوا یوں کہ جب فرانس کے خلاف پاکستان کے گلی کوچوں میں خوب احتجاج ہوا تو یورپ فکرمند ہو گیا۔ وہ اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ نہ صرف ہم ایمان کی حرارت سے بھرے ہوئے ہیں بلکہ ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ اور پاکستان محض ایک عام ایٹمی طاقت نہیں بلکہ مغرب جانتا ہے کہ ہمارے ہاں نیوکلیئر کے علاوہ آبادی کا بم بھی ٹک ٹک کر رہا ہے۔ مغرب یہ سوچ کر لرز گیا کہ جو قوم غصے میں آ کر خود کو بھی نہیں بخشتی اور اپنی قومی املاک کا اتنا زیادہ نقصان کر دیتی ہے، وہ دشمن کے ساتھ کیسا بھیانک سلوک کرے گی۔

اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ موجودہ منصوبے کا خواب ایک روحانی ہستی نے دیکھا تھا جو بجا طور پر مفکر پاکستان کہلانے کی حقدار ہے۔ ان کی دور رس نگاہوں نے جان لیا تھا کہ پاکستان نے بجا طور پر اپنا خزانہ خود کو طاقتور بنانے پر لگا دیا ہے اور چند برس بعد ہمارے پاس روٹی کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوں گے۔ ہماری دور اندیش لیڈر شپ کا کمال ہے کہ اس نے مغرب سے قرضے لے لے کر ہی خود کو اتنا طاقتور بنایا کہ مغرب ہماری سلامتی کے بارے میں فکرمند ہو گیا۔

اب ظاہر ہے کہ قرضہ واپس بھی کرنا تھا۔ دوسری طرف صورتحال یہ تھی کہ ہمارے ایک وزیر اواخر مئی میں بتا چکے تھے کہ ”ہمارے پاس تو زہر کھانے کے پیسے بھی نہیں“ تو قرضہ واپس کیسے کرتے؟

اس نازک موقع کی پیش بینی کرتے ہوئے مفکر پاکستان نے کئی برس پہلے ہی حل بتا دیا تھا۔ شروع میں تو اس حل کا مذاق اڑایا گیا مگر وقت نے ثابت کیا کہ مرد مومن کی نگاہیں بہت دور تک دیکھ لیتی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جب حالات بگڑتے دیکھے تو مجبور ہو کر انہیں مفکر پاکستان کی آواز پر لبیک کہنا پڑا۔ اس موقعے پر خاموش مجاہدین نے بھی منصوبے کو پرفیکٹ بنانے میں ان کی مدد کی۔

جب وزیراعظم جنیوا گئے تو ان کے وفد میں شامل ایک مشیر مولانا غین کی فرانسیسی صدر میخواں کے قومی سلامتی کی مشیر مشال باردوت سے سائیڈ لائن پر ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ مشال باردوت مشہور فرانسیسی اداکارہ برجی باردوت کی نواسی ہیں اور حسن و جمال میں ایسی یکتا ہیں کہ ملنے والوں کو اپنی نانی یاد کروا دیتی ہیں۔ انہیں یہ ہدف دیا گیا کہ اپنے پاکستانی ہم منصب مولانا غین کو اپنی اداؤں کے جال میں پھنسا کر فرانس کے مفاد میں معاہدہ کریں۔

ادھر مولانا غین کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ ایک نہایت خفیہ پیغام فرانسیسی قومی سلامتی کی مشیر کے گوش گزار کریں۔ لیکن انہیں خبردار کر دیا گیا تھا کہ میٹنگ روم میں موساد، را اور سی آئی اے نے جاسوسی کے آلات نصب کر رکھے ہوں گے اس لیے بات واقعی گوش گزار ہی کرنی ہے۔ آواز کسی صورت بھی سرگوشی سے بلند نہ ہو ورنہ پاکستان کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اب معاملہ یہ تھا کہ اس کمرے میں صرف دو نفوس موجود تھے۔ ایک طرف کمربند کے پکے مولانا غین جو کسی خاتون کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے روادار نہیں تھے، اور دوسری طرف مشال باردوت جو زہد شکن مانی جاتی تھی اور مولانا غین کی توبہ تڑوانے کا قصد کیے ہوئے تھی۔ پیرس بھر میں مشہور تھا کہ اس کا حسن اور ادائیں ایسی ہیں کہ کسی تارک الدنیا درویش پر اس کا سایہ بھی پڑ جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن جب اس نے مولانا غین پر پہلی نظر ہی ڈالی تو گھبرا گئی۔ کہاں تو وہ یہ منصوبہ بنا کر آئی تھی کہ اس پاکستانی نوجوان کو اپنی اداؤں سے گھائل کر کے اپنی بات منوائے گی لیکن مولانا غین کی وجاہت دیکھ کر وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئی کہ جس جوان پر جنتی حوریں فدا ہوں وہ اسے کہاں گھاس ڈالے گا۔

مولانا غین کی مشکل کا بھی ہمارے نوجوان اندازہ لگا سکتے ہیں۔ فرض اور محبت کی کشمکش عجب امتحان میں ڈالتی ہے۔ ایک طرف اپنے حسن کا توشہ خانہ لٹانے پر آمادہ مشال باردوت تھی اور دوسری طرف شرم و حیا کے پیکر مولانا غین۔ لیکن مولانا غین نے قوم کی خاطر کچھ بھی کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے نفس تک کو قربان کرنے پر بھی آمادہ تھے۔

وہ ایک قدم آگے بڑھے اور پھر ان کے قدم نہ رکے۔ سیدھا جا کر وہ مشال باردوت سے بغل گیر ہوئے اور اسے حیرت زدہ کر دیا۔ کہاں وہ مایوس کھڑی تھی کہ ایسا وجیہہ نوجوان اسے گھاس نہیں ڈالے گا اور کہاں یہ معاملہ کہ مولانا غین نے خود آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑ لیا۔

مولانا اپنے لب اس کے چہرے کے قریب لے گئے۔ گرم سانسوں کی حدت سے مشال باردوت کے جذبات وغیرہ اتھل پتھل ہونے لگے۔

مولانا بہت شیریں لہجے میں بولے ”مشال ایک بات کہوں؟“
مشال نے پھولی سانسوں کے درمیان بمشکل کہا ”میں تو کب سے منتظر ہوں۔ کہیں۔“

مولانا غین کے لب اب مشال باردوت کے کان کو چھو رہے تھے۔ انہوں نے شہد بھری آواز میں کہا ”مشال، فرانس یا تو اسلام قبول کر کے ہمارا بھائی بن جائے۔ یا جزیہ دے۔ ورنہ فیر آیا جے غوری“ ۔

یہ سن کر مشال باردوت لرز گئی۔ اس کا رنگ فق ہو گیا۔ اسے مولانا کی بات میں کوئی شک تھا بھی تو غوری کی وجہ سے شبہ جاتا رہا۔ وہ جان چکی تھی کہ یہ محض خالی پیلی دھمکی نہیں۔ غوری واقعی تیار ہے۔

مولانا غین اس کی گھبراہٹ دیکھ کر بے تاب ہوئے۔ وہ اپنا قومی فرض ادا کر چکے تھے لیکن دل کا فرض تو ادا نہیں ہوا تھا۔ وہ بولے ”میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ نوبت غوری تک آئی تو بھی میں ہر حال میں تمہاری عصمت کی حفاظت کروں گا۔ تمہیں کوئی دوسرا شخص چھو بھی نہیں پائے گا، میں تمہیں اپنی ذاتی لونڈی بناؤں گا۔ لیکن تمہارے صدر کے بارے میں کوئی گارنٹی دینے سے میں قاصر ہوں۔“

یہ سن کر مشال باردوت تھر تھر کانپنے لگی۔ اس نے گھبراہٹ میں فوراً اپنا سکیور فون نکالا اور صدر میخواں کو میسج بھیجا ”پاکستان کے تمام مطالبات فوراً مان لیں۔ اسے جزیہ ادا کر دیں۔ ورنہ فیر آیا جے غوری۔ میں تو لونڈی بنوں گی ہی، آپ بھی غلام بن کر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھینسوں کی خدمت کیا کریں گے۔“

تو صاحبو یوں فرانس نے نہ صرف خود جزیہ ادا کیا بلکہ باقی یورپ کو بھی قائل کر لیا کہ اسی میں عافیت ہے۔
یوں دس ارب ڈالر کا مال غنیمت لے کر ہمارے لاؤ لشکر نے اپنی فتح اور فرانس کی جان بخشی کا اعلان کیا۔ لیکن سنتے ہیں کہ مشال باردوت آج بھی سوچتی ہے کہ کاش غوری آ ہی جاتا اور وہ وجاہت و جوانی کے پرکشش پیکر مولانا غین کی ہم نفس اور ہم نوا بن جاتی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments