ایک ہیجڑے سے گپ شپ
پرسوں کی بات ہے ایک ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر ایک ہیجڑے سے ملاقات ہوئی، میں نے ہمدردی کے دو بول بولے، وہ بے چارا سارا کھل گیا۔ کہنے لگا ہمیں اللہ نے بنایا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں، اس کے بقول غیر تو غیر ہمارے اپنے والدین اور بہن بھائی بھی ہمیں پسند نہیں کرتے، ہمارے اپنے ہمارا تعارف اپنے رشتہ دار کے طور پر کروانے کے لیے تیار نہیں، اگر کسی نے اصل لاوارث دیکھنے ہوں تو اپنے ملک کے ہیجڑوں کو دیکھے جو تمام رشتوں کے ہوتے ہوئے ”لاوارث“ ہیں۔ اس سے بہت بہتر ہوتا اگر اللہ میاں ہمیں مرد نہیں تو عورت ہی بنا دیتا۔
میں کہا اس سے کیا فرق پڑنا تھا ’دس سال کی عمر میں تمہیں گھر سے نکال دیا تھا، اگر تو لڑکی ہوتی تو پندرہ سال کی عمر میں گھر والوں نے نکال دینا تھا۔
کہنے لگا ’ہاں ٹھیک ہے پھر بھی ان کے سر پر ہاتھ تو پھیرتے ہیں‘ اپنی اولاد تو مانتے ہیں ’ہمارے ساتھ تو ہر قسم کا تعلق ممنوع ہے۔
یہ تو بات ہے اپنے ملک کی ہیجڑا کمیونٹی کی، جس کمیونٹی کے پاؤں تلے جنت ہے اس بارے عرض ہے۔ اگر آپ سکول یا دفتر کے اوقات میں کبھی بس اسٹاپ پر گئے ہیں تو آپ گواہ بھی بن سکتے ہیں کہ سکول جاتی لڑکیاں اور ورکنگ ویمن کس طرح سردی میں ٹھٹھر کر بس کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں اور کس طرح اپنے بھائیوں کے آوازوں سے بچنے کے لیے ایک دوسری کے پیچھے منہ چھپاتیں ہیں۔
پھر آپ نے لازماً ان کے ارد گرد موٹرسائیکل سوار بھائیوں کو چکر لگاتے بھی دیکھا ہو گا جو سامنے آ آ کر چھیڑ خانی کی کوشش کرتے ہیں۔
بھائی ان لڑکیوں کو بے سہارا و بے حیاء سمجھ کر تنگ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، آپ کو یاد ہی ہو گا ہمارے حاکموں سے لے کر مولوی تک نے ہمیں بتایا ہوا ہے کہ گھر سے نکلنے والی عورتیں بے حیا ہی ہوتیں ہیں، خواہ وہ تعلیم کے لیے نکلے یا روزی روٹی کی تلاش میں۔
بس میں سوار ہو جانے کے بعد بھائیوں کی ذمہ اری ڈرائیور کنڈکٹر سنبھال لیتے ہیں اور اس طرح سفر کٹنا شروع ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف عورتیں نوکری کو اپنی ضرورت اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کو اپنا حق خیال کر کے یہ سب کچھ برداشت کرتی ہیں اور کرتی چلی جاتیں ہیں۔
پبلک ٹرانس پورٹ استعمال کرنے والی خواتین کے مقابلے وہ ورکنگ ویمن یا سکول کی لڑکیاں جن کے پاس اپنی سواریاں ہوتیں ہیں وہ بڑے احترام اور آرام و سکون سے اپنے اپنے سکول یا دفتر پہنچ جاتی ہیں۔ دوسری طرف جو لڑکیاں گاڑیاں افورڈ نہیں کر سکتیں ان میں سے جنھوں نے ہمت کرتے ہوئے موٹر سائیکل یا سائیکل چلانا شروع کر دیا ہے وہ بس کے عملے کی ہراسانی سے مکمل محفوظ اور بھائیوں کی آوازوں سے کسی حد تک نجات پا چکی ہیں۔
جو لڑکیاں سائیکل کی سواری کو استعمال نہیں کرتیں ان کو سماجی پابندیوں کا احترام یا ہچکچاہٹ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سائیکل چلانے سے ہماری حیا خطرے میں پڑ جائے۔
وہ یہ بھول جاتیں ہیں کہ معاشرہ اگر اپنی ان بیٹیوں کے مسائل حل نہیں کر سکتا تو پھر اس کو پابندیاں لگانے کا حق بھی نہیں رہتا۔ جہاں تک راہ جاتی لڑکیوں کو گھورنے کی بات ہے اس سے لڑکیوں کو بالکل پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں صرف راہ چلتی غیر عورتوں کو ہی نہیں گھورا جاتا بلکہ ہمارے اپنے گھروں میں موجود اپنی محرمات بھی مردوں کی گھورا پنتھی سے محفوظ نہیں۔
بات کرنے کا مطلب ہے کہ اگر آپ کی جنس مرد کے علاوہ ہے تو پھر آپ ”لوگ کیا کہیں گے کو نظرانداز کریں“ اور جیسے ہیں ویسے ہی حیاتی کو بہتر بسر کرنے کی کوشش کریں۔
- جِنکو پرندوں کے گھونسلوں کی حفاظت - 22/08/2023
- اسلام علیکمسَر سالار اعلی - 11/08/2023
- اللہ پاک کی طرف سے پاکستانیوں کو این آر او - 30/01/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).