منٹو کے افسانے ”نیا قانون“ اور ”گورمکھ سنگھ کی وصیت“


سعادت حسن منٹو ہندوستانیوں کو افواہوں اور خود فریبی میں الجھا ہوا دیکھ کر اپنے افسانے ”نیا قانون“ میں طنزیہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے نہ صرف بر صغیر کے مستقبل کے حوالے سے سامراجی حکومت کی بے ضمیری اور ہچکچاہٹ پر تنقید کرتے ہیں بلکہ ہندوستانی آبادی پر ہونے والی لاپرواہی پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں جس کا شعور صدیوں کے جبر میں مسخ کر دیا گیا تھا۔ اس افسانے کا سیاق و سباق 1930 کی دہائی کا ہے جب ہندوستانیوں نے مختلف مذاکرات اور تنازعات کے دور میں اپنی خود مختاری کا مطالبہ جاری رکھا تھا۔ یہ افسانہ کسی ہیرو کی کہانی نہیں ہے، بلکہ ایک عام آدمی جس کے زوال کی وجہ نہ صرف اس کی سطحی شخصیت ہے بلکہ اس کی حکومتی سیاست کی نوعیت سے لاعلمی بھی ہے۔

منٹو مزاحہ ظہور و مکالموں کا استعمال کرتے ہوئے افسانے کے مرکزی کردار استار منگو کو مہارت سے پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ استاد منگو ایک جاہل شخص ہے، لیکن اس کی سطحی معلومات اور بے صبری اسے سنی سنائی باتوں پر یقیں کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسے بین الاقوامی امور کے بارے میں اپنے خیالات پر اتنا پختہ اعتماد ہے کہ یہ اس کے فخر اور شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ بین الاقوامی امور کے بارے میں اس کی جزوی معلومات کو سمجھنے میں اسے کمیونسٹ ترقی اور نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ استاد منگو اپنی رائے پر اعتبار کی وجہ سے ایک متعصبانہ نقطہ نظر بن جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی امید پرستی کا کوئی جواز تلاش کرتا ہے۔

شاید منٹو کی بنیادی فکر یہ ہے کہ آزادی اور وقار کی ضمانت دینے کے بجائے، نئے قانون کا مقصد انصاف میں تاخیر ہے۔ منٹو کے نزدیک، قانون ہمیشہ جبر کی ایک علامت رہا ہے۔ دراصل استاد منگو بھی جانتا ہے کہ عدالت سے انصاف کا ملنا ممکن نہیں۔ نئے قانون کے نفاذ سے پہلے، جب اس کو گورے کی طرف سے تو ہیں ملی، تو اس نے اس فساد کو بڑھانے سے گریز کیا، کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ عدالت میں جانبداری کا رواج ہمیشہ سے رہا ہے۔

جب غصہ اور نفرت کو مزید دبایا نہیں جا سکتا تو لوگ کا شعور باقی نہیں رہتا ہے۔ گورے کی حقارت آمیز رویے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو استاد منگو سے ہمدردی ہو سکتی ہے۔ لیکن منگو جو لالچ کی باعث گورے سے 5 روپے مانگتا ہے اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا ہے۔ وہ گورنمنٹ کالج کے طلبا سے مختلف نہیں ہے جو توقع کرتے ہیں کہ نئے قوانین انہیں مادی ضروریات فراہم کر سکتے ہیں۔ منٹو کے نزدیک، اگرچہ کچھ لوگ ہندوستان کو سامراجی حکومت کی مٹھی سے آزاد کرنے کے عظیم مقاصد رکھتے ہیں، کتنے ایسے تھے جن کو مفاد پرست سیاست دانوں نے دھوکہ دیا؟ اس افسانے میں منٹو کا مقصد یہ بیاں کرنا ہے کہ لوگ افواہوں کے زہر سے آلودہ سیاسی ماحول میں کس حد تک بہادری اور لاپرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو اپنے افسانے ”کورمکھ سنگھ کی وصیت“ صحافتی انداز بیانیہ اختیار کرتے ہوئے ایک المیہ پیش کرتے ہیں جس میں وہ اخلاقی ضمیر اور حق شناسی کے زوال و تنزلی کو برصغیر میں ہونے والی سیاسی انتشار اور افراتفری کے باعث بڑھتے ہوئے مذہبی تعصب سے منسوب کرتے ہیں۔ اگرچہ ظاہری طور پر یہ افسانہ ایک مسلمان جج سے انصاف حاصل کرنے کے بعد ایک سکھ کے شکرگزاری کے سفر کو پیش کرتا ہے، یہاں منٹو کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مذہب اب لوگوں کے لئے انسانیت پر یقین رکھنے کی وجہ نہیں بنتا ہے۔

اگر چہ قارئین سردار گو رمکھ سنگھ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، لیکن وہ جج کے تئیں گو رمکھ سنگھ کی شکرگزاری کو سمجھ سکتے ہیں۔ تقسیم کے دوران عدالتی اور قانونی نظام اس قدر نازک ہو گیا تھا کہ کسی فرد کو بھی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔ اس وقت قانونی نظام پر جانبداری کا غلبہ تھا، تو غریبوں کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ مسلم جج کی مہربانی و احسان کے جواب میں، سردار گورمکھ سنگھ عبدالحئی جج کی طرف عید سے پہلے سویوں کا تھیلے شکرگزاری کے لئے پیش کرتا تھا۔ کوئی بھی اس کے خلوص پر شک نہیں کر سکتا ہے جبکہ اس نے یہ کام خود دس سال تک کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ جج، سکھ کے شکرگزاری سے بے حس ہونے کے بجائے، بہت مطمئن اور محظوظ ہوتے تھے۔

میاں عبدالحئی کے پتلے پتلے بے جان ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پیدا ہو گئی۔ ”جاؤ۔ گورمکھ سنگھ ہے!“

بشارت نے نفی میں سر ہلایا، ”کوئی اور ہے“
میاں صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا، ”جاؤ صغریٰ وہی ہے“

جبکہ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مسلم جج نے صورت حال کے ممکنہ بگاڑ کے بار میں غلط اندازہ لگایا، اس سے ان کی عاجزانہ طبعیت ظاہر ہوتی ہے۔ حال کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہو، وہ اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر چلنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

صغریٰ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تو میاں صاحب کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں، مگر انھوں نے تسلی دینے کی خاطر بمشکل اپنی نیم مفلوج زبان سے یہ الفاظ نکالے، ”اللہ تبارک و تعالیٰ سب ٹھیک کردے گا۔“

ستم ظریفی، شاید ایک بات کا اندازہ میاں صاحب جج نہیں کر سکے کہ تمام مذہبی تعلیمات کے باوجود، انسان اتنا منافق اور ظالم بن سکتا ہے۔ جب سنگھ کے بیٹے ان کے گھر آئیے، تو ان کی بیٹی اتنی معصوم تھی کہ ڈاکٹر تلاش کرنے کے لئے سنتوکھ پر اس نے بھروسا کیا۔ جب ہم سوچتے ہیں کہ امید کی کرنیں پھر سے چمکنے والی ہے، ہم نہیں جانتے کہ ہم پہلے ہی جہنم کی طرف اترتی ہوئی سیڑھیوں پر چل رہے ہیں۔

منٹو کے نزدیک، عشروں کے مذہبی عداوت کی وجہ سے پھیلتی ہوئی افراتفری نے انہیں اس بات پر قائل نہیں کیا کہ مذہب انسانی گناہ سے نجات فراہم کر سکتا ہے۔ ان کے لئے، جسمانی فالج اتنا گھناؤنا نہیں جتنی کہ اخلاقی خرابی ہے۔ اگرچہ یہ متنازع نظریہ ایک مذہبی قوم میں نا پسندیدہ ہے، لیکن منٹو انسانی فطرت کے اندھیروں کے بارے میں ایک متبادل لیکن حقیقی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments