ایک مشرقی باپ کا اپنی بیٹی کو سالگرہ کا ایک انوکھا تحفہ


میری بیٹی عائشہ عروج کی آج سالگرہ ہے جو لمحہ موجود تک تقریباً زندگی کی 14 بہاریں دیکھ چکی ہے، 9 گریڈ میں زیر تعلیم ہے اور سائنس کی طالب علم ہے، صبح سویرے مجھ سے مخاطب ہوئی کہ

”پاپا آپ آج میری سالگرہ کے موقع پر مجھے کیا تحفہ دیں گے“ ؟

میں نے سنتے ہی کہا کہ عائشہ بیٹا آج آپ کے پاپا آپ کو ایک ایسا تحفہ دیں گے جسے دیکھنے یا سننے اور پڑھنے کے بعد آپ بہت زیادہ خوش ہو جائیں گے۔ حیرانی سے کہنے لگی کہ

”پاپا ایسا خاص تحفہ کیا ہو گا“ ؟

میں نے کہا کہ عائشہ بیٹا میں اپنا دانائی خانہ جہاں سے میں گزشتہ کم و بیش 20 سالوں سے زندگی کی دانائی کشید کر رہا ہوں وہ میں آج سے تمہارے نام کرتا ہوں، آج سے دانائی کی اس جنت میں سے مطلب لائبریری میں دانائی کے دو طالب ہوا کریں گے ایک میں خود اور دوسری میری بیٹی عائشہ، ہم مل کر زندگی کے راز کشید کیا کریں گے۔ دوسرا تحفہ ایک مشرقی باپ کی طرف سے اپنی بیٹی کے لئے ایک خط کی صورت میں لفظوں کا گلدستہ ہو گا جسے میں ”ہم سب“ پر بھیج دوں گا جو شائع ہونے کے بعد ”ہم سب“ کی آرکائیو کا حصہ بن جائے گا جسے جب چاہے میری بیٹی اوپن کر کے پڑھ لیا کرے گی تاکہ سند رہے۔

بطور باپ میری خواہش ہوگی کہ میری بیٹی کا تعلق یا رشتہ الفاظ سے استوار ہو جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کے تجربات اپنے لفظوں میں لکھنے کے قابل ہو جائے، اپنے اندر کے سچ کو بلا خوف و خطر کاغذ کے سپرد کرنے کے قابل ہو اور وہ اپنے اندر کے تشنگیوں کو دفن کرنے کی بجائے منظر عام پر لائے تاکہ خوامخواہ کا تذبذب، ہچکچاہٹ، ڈر اور خوف جو اس منافق معاشرے کی دین ہے وہ ختم ہو اور میری بیٹی اپنے مطابق اپنی زندگی جی سکے۔ میری طرف سے سالگرہ کا تیسرا تحفہ اپنی بیٹی کے لیے یہ ہو گا کہ میں اپنے پہلے تخلیقی خط کا آغاز بیٹے کی بجائے اپنی بیٹی عائشہ عروج سے کر رہا ہوں کیونکہ ماما پاپا کی خوشیوں میں اضافہ کرنے کے لئے سب سے پہلے وہی دنیا میں آئی تھی۔ ہماری زندگی میں اس کا مقام پہلے والا ہی رہے گا اور اب لفظوں کا گلدستہ اپنی بیٹی کے نام کرتا ہوں۔

1۔ تم خود میں ایک مکمل انسان ہو آدھے بالکل نہیں ہو اور زندگی کی تمام بہاروں پر دنیا کے دوسرے انسانوں کی طرح تمہارا بھی پورا اور مکمل حق ہے جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔

2۔ میں تمہیں ”ہی یا شی“ کے جھنجھٹوں میں نہیں بانٹنا چاہتا بلکہ تم میرے نزدیک ایک ”فرد“ کی حیثیت رکھتی ہو جس کی انفرادیت کا احترام کرنا مجھ پر لازم ہے۔

3۔ میرے نزدیک تمہاری گواہی آدھی نہیں بلکہ کامل اور پوری تصور ہوگی، تمہاری زبان سے ادا ہوئے ہر لفظ کو مکمل احترام، دلجوئی اور یکسوئی سے سننا مجھ پر لازم ہو گا، مناسب سمجھوں تو رائے دوں گا ورنہ تمہاری فیصلے کا احترام کرتے ہوئے تمہاری طاقت بن کے کھڑا رہوں گا۔

4۔ زندگی کے کسی موڑ پہ ماما پاپا کا کوئی فیصلہ عجیب لگے یا تمہارے سپنوں و خوابوں میں مخل ہو تو پوری شدت و حدت سے مداخلت کرتے ہوئے مزاحمت کرنا اور ہم تمہیں پورا سپورٹ کریں گے کیونکہ ہماری نظر میں صرف تم ”اہم“ ہو اور ہم کبھی بھی تمہاری اہمیت کو نظر انداز نہیں کریں گے۔

5۔ تم بیٹی ضرور ہو مگر تم پر گڑیوں سے کھیلنا لازم نہیں ہو گا جو کھیل بھی تم کھیلنا چاہو مکمل آزادی سے کھیل سکتی ہو کوئی قدغن یا پابندی نہیں ہو گی، یاد رکھنا دنیا کی پرواہ مت کرنا تمہاری نظر میں صرف خود کی اہمیت ہونی چاہیے دوسروں کی نہیں اور اپنے حصے کی خوشیوں کو اپنے بل بوتے پر حاصل کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر مجھے تم پر بھروسا ہے کہ تم سب کر سکتی ہو۔

6۔ تمہارے جسم پر صرف تمہارا ہی حق ہے اور تم بلا شرکت غیرے اپنے وجود کی مالک ہو تمہاری منشا و رضامندی کے بغیر کسی کو بھی تمہارے وجود کو چھونے کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے اور اگر زندگی کے کسی بھی موڑ پہ کچھ عجیب لگے تو پوری شدت سے آواز بلند کرنا تمہارا حق ہے جسے کوئی بھی زبردستی تم سے چھین نہیں سکتا، صرف ہمت و حوصلہ بنا کے رکھنا تم پر لازم ہو گا۔

7۔ یاد رکھنا نا زندگی میں تمہارے فیصلوں کو ہی اولیت دی جائے گی کبھی زبان سے ادا کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام مت لینا، مکمل اعتماد و بھروسے سے اپنی سوچ شیئر ضرور کرنا پھر ہم پر چھوڑ دینا اور بھروسا رکھنا ہم کبھی تمہیں مایوس نہیں کریں گے۔

8۔ تمہارے فیصلوں کو اتنی ہی اہمیت ملے گی جتنی بیٹے کو ملے گی، یاد رکھنا ہماری نظروں میں تم برابر ہی رہو گی اگر کہیں جھول محسوس ہو تو بلا جھجک صدائے احتجاج بلند کرنا تمہارا حق ہو گا اور تمہارے احتجاج کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرنا ہم پر لازم ہو گا مگر کبھی آواز اٹھانے سے پیچھے مت ہٹنا جو آوازیں گلے میں اٹک کر رہ جاتی ہیں وہ ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں دفن ہو جاتی ہیں جن کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔

9۔ خوش ہونے کے لئے کبھی دوسروں کی طرف مت دیکھنا تمہاری خود کی زندگی ہے اور تم اپنے بل بوتے پر بلا شرکت غیرے اسے اپنے حساب، خواہشات اور ارمانوں سے سجا سکتی ہو، ہم تمہیں قطعاً یہ نہیں کہیں گے کہ تمہاری زندگی میں کوئی دوسرا یا تمہارے خوابوں کا کوئی شہزادہ آئے گا جو تمہیں خوشیاں دے کر مکمل کردے گا۔ یاد رکھنا یہ سب سراب ہے، اپنی خوشیوں کو خود حاصل کرنا سیکھو خود کو صرف اور صرف تم خود ہی مکمل کر سکتی ہو کوئی دوسرا نہیں۔ اس لیے زندگی میں بغیر کسی سہارے کے چلنا سیکھو، بیساکھیوں کے سہارے بے ہمت لوگ چلا کرتے ہیں طاقتور و توانا نہیں، مجھے تم پر بھروسا ہے تم اپنے حصے کی خوشیاں خود حاصل کر سکتی ہو اس لئے خود کی ذات پر کبھی کمپرومائز مت کرنا۔

10۔ تمہاری پہلی ترجیح تمہاری خود کی ذات ہونی چاہیے لوگ باگ یا ان کی کڑوی کسیلی باتوں کی تمہاری نظروں میں قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے، تمہاری خوشیاں، سلامتی حتی کہ تمہاری خود کی زندگی دنیا کی کسی بھی رسم و رواج سے زیادہ اہم ہیں۔

11۔ زندگی میں کوئی بھی فیصلہ لینا تو اس فیصلے کی جج بھی خود ہی بننا،

اس فیصلے کی تصدیق و تائید کے لئے لوگوں کی طرف مت دیکھنا اور کبھی اس خیال کو اپنے قریب بھی پھٹکنے مت دینا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ دوسروں کی طرف دیکھتے رہنے سے بڑا روگ کوئی اور نہیں ہوتا اس لیے کبھی اس روگ کی جڑوں کو اپنے ذہن میں پنپنے مت دینا، جس بیماری کی جڑیں وجود میں مستحکم ہو جاتی ہیں وہ کینسر کا سبب بنتی ہے جس کا علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔

12۔ اگر تمہارے کسی فیصلے کے نتائج تمہاری امیدوں پر پورا نہ اتریں تو دل چھوٹا مت کرنا بلکہ اسے زندگی کا ایک سبق سمجھ لینا اور اس فیصلے کی ناکامی کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے اس کی ناکامی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر مت ڈالنا

ورنہ تمہاری فیصلہ سازی کمزور پڑنا شروع ہو جائے گی، یاد رکھنا غلطیاں آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کرتی ہیں یہ ہمیں ناکام ثابت نہیں کرتیں۔

13۔ اپنا سبب خود بننا دنیا میں درجنوں کام ہیں جنہیں کر کے تم ایک باعزت زندگی گزار سکتی ہو، ہاتھ کو پھیلانے کی بجائے اسے کارگر بنا کے تعمیری کاموں میں لگانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

14۔ اپنے خاتون ہونے کا فائدہ کبھی مت اٹھانا بلکہ اس حقیقت سے بے نیاز ہو کر اپنے پاؤں پر پورے قد کے ساتھ کھڑا ہونے کی کوشش کرنا، بے چارگی والی زندگی سے بدتر کچھ نہیں ہوتا۔

15۔ زندگی میں کبھی خود کا تقابل دوسروں سے مت کرنا تم خود اپنی ذات میں ایک ”اسپیشل یا خاص“ ہو اور اسی اسپیشلٹی کو اپنی طاقت بنا کے آگے بڑھتے رہنا، کسی بھی دوڑ کا حصہ مت بننا، تمہارے من کا راستہ تمہارا سب سے خوبصورت سنگھار ہے۔

16۔ تم ایک آزاد انسان ہو کبھی خود کو کسی کا غلام مت سمجھنا اور اپنی انفرادیت پر کبھی کوئی سمجھوتا مت کرنا۔

17۔ بطور والد میری تجویز ہوگی جسے تسلیم کرنا تم پر لازم نہیں بلکہ تمہاری چوائس ہوگی کہ تم اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ بھی کرنا تاکہ تم میں وسعت نظری پیدا ہو اور اپنی زندگی یوں بسر کرنا جس طرح سے کوئی عاجز طالب علم بسر کرتا ہے جسے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے یا جاننے کی تمنا ہوتی ہے اور کبھی اپنے ما حاصل کے آگے فل اسٹاپ نہ لگانا کیونکہ سچائیاں اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتی رہتی ہیں اور پتھر پر انمٹ لکیر کی مانند کچھ نہیں ہوتا۔

18۔ اپنی دانائی میں اضافے کی خاطر روایتی علوم سے استفادہ ضرور کرنا مگر آج کی زندہ و جاوید حقیقت ”سائنس“ سے روگردانی مت کرنا، آج کا سچ سائنس میں پنہاں ہے کیونکہ سائنس ارتقاء پر یقین رکھتی ہے اور نئے حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔

19۔ کسی بھی بات کو آنکھ بند کر کے تسلیم مت کرنا چاہے وہ بات آپ کے ماما پاپا یا ٹیچر نے ہی کیوں نہ بتائی ہو، حقائق کو ویری فائی کرنے کا تمہارا اپنا میکنزم ہونا چاہیے، یاد رکھنا کچھ بھی مقدس نہیں ہوتا ہمیشہ اسکیپٹک رویہ اختیار کیے رکھنا۔

آخر میں، میں تمہارے دانائی انکل اور اپنی رائٹنگ میوز جسے آپ تو کبھی نہیں ملے لیکن میں مل چکا ہوں ڈاکٹر خالد سہیل کی ایک بات کا حوالہ دینا چاہوں گا جس پر ہمیشہ غور کرتے رہنا۔
”دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان ہیں اور اتنی ہی حقیقتیں موجود ہیں جتنی دیکھنے والی آنکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments