ہڈیو ں میں اتری سردی اور گرم حمام


مجھے تقریباً دس سال قبل وادی کشمیر میں ایک مہینہ رہنے کا موقع ملا۔ ستمبر کا مہینہ شروع ہوا اور ساتھ ہی وادی کشمیر میں خنک موسم شروع ہو گیا۔ سویٹر پہننے اور رات کو بستر میں پانی کی گرم بوتل رکھ کر سونا بھی شروع کر دیا گیا۔ مہینہ گزار کر واپس راولپنڈی پہنچا تو یہاں گرمی کا موسم ہی جاری تھا۔ لوگ گرم کپڑے ہی استعمال کر رہے تھے لیکن مجھے راولپنڈی پہنچ کر بھی سردی محسوس ہو رہی تھی اور سویٹر پہنے بغیر میرا گزارہ نہیں ہو رہا تھا۔

مجھے عجیب سا محسوس ہوا کہ سب لوگ گرم کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور میں سویٹر پہنے ہوئے ہوں۔ ایک ہمسائے دوست اکرام عباسی سے ذکر کیا کہ ہم بچپن میں گرمیوں کے موسم میں آزاد کشمیر کے سرد علاقوں سے آنے والوں افراد کو دیکھ کر ہنستے تھے کہ انہوں نے گرم موسم میں بھی سویٹر وغیرہ پہنے ہوئے ہیں، اب میرا بھی یہی حال ہے کہ میں بھی اسی طرح گرمی کے موسم میں سویٹر پہنے ہوئے ہوں۔ اس دوست نے بتایا کہ جب انسان سرد علاقے سے گرم علاقے میں آتا ہے تو اس کے باوجود اسے سردی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ سرد علاقے میں رہتے ہوئے سردی اس کی ہڈیوں میں رچ بس جاتی ہے۔ وہ سرد سرگرم علاقے میں آ بھی جائے لیکن اسی وجہ سے اسے دوسرے افراد کے برعکس سردی ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس دوست نے اس کا یہ علاج بھی بتایا کہ گرم پانی کے ٹپ میں کافی دیر رہا جائے، اس سے ہڈیوں میں جمی سردی ختم ہو جاتی ہے۔

اب چند سال سے ہر سال سردیوں کے موسم میں دل کرتا ہے کہ گرم پانی کے ٹپ میں لیٹ کر ہڈیوں میں جمی سردی کو ختم کیا جائے لیکن اب ٹپ کی سہولت میسر نہیں۔ تقریباً پینتالیس سال پہلے والد صاحب نے گھر کے اوپر دوسرا پورشن تعمیر کیا تو باتھ روم میں ٹپ بھی نصب کرا دیا۔ ہم بچپن میں اس ٹپ میں پانی بھر کر سوئمنگ پول کے مزے لیتے تھے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد اوپر کے پورشن کا باتھ روم توڑ کر نیا بنایا تو غلطی سے وہ ٹپ بھی ختم کر دیا۔ اب اس ٹپ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے چھان بین بھی کی لیکن کسی کے گھر ٹپ نصب نہیں ہے۔ چند عشرے قبل تک اکثر نئے تعمیر ہونے والے گھروں کے باتھ روم میں ٹپ نصب کیا جاتا تھا لیکن اب اس کا رواج ختم ہی معلوم ہوتا ہے۔

تقریباً اٹھارہ سال قبل چند ہفتوں کے لئے انگلینڈ رہنے کا موقع ملا۔ وہاں بارش ہوتی تو میں بے اختیار کہہ اٹھتا کہ واہ کیا شاندار موسم ہے، جبکہ وہاں کے لوگ اکثر ہونے والی بارش سے تنگ رہتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے بارش کا موسم بہت پسند ہے، کتنے بھی دنوں تک بارش ہوتی رہے، میں اس سے تنگ نہیں آتا۔ اس پہ جواب ملتا کہ تمہیں یہاں مستقل رہنا پڑے تو تم بھی آئے روز ہونے والی بارش سے تنگ آ جاؤ گے۔ وہاں ہی ایک دن مجھے فلو ہو گیا۔

دوا بھی لی لیکن عارضی افاقہ ہونے کے باوجود فلو ٹھیک نہ ہوا۔ اس پہ وہاں مشرقی یورپ کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ٹپ میں گرم پانی ڈال کر کافی دیر اس میں رہو، فلو ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے مشورے پہ عمل کیا اور واقعی اس سے سے فلو ٹھیک ہو گیا۔ اسی سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ یورپ کے سرد ملکوں والے گرم ملکوں میں جا کر سن باتھ کیوں لیتے ہیں۔

چند عشرے پہلے تک نائی کی اکثر دکانوں پہ نہانے کا بندوبست بھی ہوتا تھا جہاں سردیوں میں گرم پانی بھی میسر ہوتا۔ نائی کی ان دکانوں کے باہر بورڈ پہ نام کے ساتھ گرم حمام کا لفظ بھی تحریر ہوتا۔ ہم بچپن میں نائی کی دکان پہ بال کٹوانے کے لئے بیٹھے ہوتے تو سردی کے موسم میں وہاں نہانے والے کو رشک سے دیکھا کرتے۔ نہانے والا گاہک اسی دوران ہلکی سے آواز میں نائی کو کچھ کہتا تو نائی فوراً ہاتھ میں استرا پکڑے اس کے پاس پہنچ جاتا۔ گاہک اپنی قمیض ایک طرف سے بغلوں تک اٹھا کر ہاتھ بلند کر دیتا اور نائی مہارت سے چند ہی سیکنڈ میں اس کی بغلوں کے بال صاف کر دیتا۔ ہمارے لئے یہ بھی ایک رشک کا نظارہ ہوتا۔ رفتہ رفتہ نائی کی دکانوں پہ نہانے کا اہتمام ہی ختم ہو گیا اور اب تو کسی نائی کی دکان پہ ایسا انتظام نہیں ملتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments