ماہ پارہ صفدر کا زمانہ اور ان کی کہانی


بچپن سے ریڈیو سننے کے شوق نے ہمیں لفظوں کی درست ادائیگی، بڑے اچھے انداز اور نستعلیق لہجے میں اردو اور پنجابی زبان سننے کا عادی بنا دیا تھا۔ گھر میں ریڈیو پر والد محترم خبریں سنتے تھے جس دوران سارے گھر میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ بی بی سی پر سیربین اور خبریں سن کر جب وہ فارغ ہوتے تو ریڈیو سننے کی ہماری باری آتی۔ پی ٹی وی کا ایک ہی چینل ہوتا تھا اور شام آٹھ بجے والا ڈرامہ دیکھنے کے بعد خبر نامہ گھر کے سب افراد ہی بڑی توجہ سے سنتے اور دیکھتے تھے۔

وہ سب کچھ تو اب ایک خواب ہو گیا ہے لیکن اس دور کے ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ افراد کی ایک طویل فہرست ابھی تک یاد ہے۔ انہی میں ایک شخصیت ماہ پارہ صفدر کی ہے جن کا خبریں پڑھنے کا انداز بڑا باوقار اور منفرد انداز تھا۔ پھر وہ پی ٹی وی سے غائب ہو گئیں۔ ہم نے بھی غم روزگار میں مصروف ہونے کی وجہ سے دھیان نہیں دیا۔ پچھلے سال ٹویٹر پر ان کے چند وی لاگ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ برطانیہ میں مستقل رہائش پذیر ہیں۔

دو ہفتے قبل بک کارنر جہلم پر ان کی خود نوشت ”میرا زمانہ میری کہانی“ ایک خوبصورت کتاب کی صورت میں نظر آئی۔ اچھی کتابیں اور سوانح حیات پڑھنے کا شوق والد محترم سے وراثت میں ملا تھا، اس لیے فوراً ہی کتاب کے حصول کے لیے بک کارنر جہلم سے رابطہ کیا۔ کتب کی انتہائی جلد اور محفوظ ترسیل میں گگن شاہد کی کارکردگی داد کے قابل ہے۔

جب سے بک کارنر جہلم نے کتب چھاپنا شروع کی ہیں، کتابوں کی اشاعت میں ایک نکھار آنا شروع ہو گیا ہے۔ کئی دفعہ تو صرف خوبصورتی اور اچھا گیٹ اپ دیکھ کر کتاب خرید لی، لیکن جب کتاب پڑھی تو املا کی غلطیوں سے پاک کتاب کے بہترین مندرجات دیکھ کر پڑھنے کا لطف اور بھی دوبالا ہو گیا۔ ماہ پارہ صفدر صاحبہ کی خود نوشت بھی جس دن منظر عام پر آئی اس سے دوسرے دن وہ کتاب میری میز پر تھی۔ حسب عادت کتاب پڑھ بھی لی۔ 464 صفحات پر مشتمل کتاب میں ان کی زندگی کا احاطہ کرنے والی بہت سی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر بھی کتاب کا حصہ ہیں۔

ان کے لکھنے کا اسلوب، ان کا زبان اور بیان ایک منفرد انداز لیے ہوئے ہے، جس میں باوجود تنقیدی نظر سے پڑھنے کے کوئی جھول نظر نہیں آیا۔ اپنی داستان حیات کو انہوں نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ والدین اور بہنوں کے ساتھ ان کے بچپن، تعلیم، خانہ آبادی اور ریڈیو کے ابتدائی دور کے واقعات پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ جو ان کے ریڈیو اور پی ٹی وی پر گزرے ہوئے بھرپور وقت، ملک کی سیاست اور اس دوران ہونے والے دوسرے بہت سے مختلف واقعات پر مشتمل ہے۔ تیسرے حصے میں برطانیہ میں ان کی بی بی سی کی مصروفیات اور مختلف شخصیات اور خبروں کی دنیا کے ان کے ساتھیوں پر مضامین شامل ہیں۔ خبریں پڑھنے کے علاوہ وہ ایک بہت اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ کتاب کے آخری حصہ میں انھوں نے اپنی نظمیں اور غزلیں شامل کی ہیں۔

سرگودھا میں ایک متوسط سید گھرانے میں آنکھ کھولی، گھر میں چھ بہنوں کا ساتھ تھا۔ ان کا بچپن سرگودھا میں گزرا۔ علم کی دولت سے مالامال والدین نے اپنی بیٹیوں کی بڑی اچھی تربیت کی اور انھیں اعلی تعلیم دلائی۔ انھوں نے کالج اور یونیورسٹی کے دور میں ہی ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اپنی پسند اور والدین کی مرضی سے جلدی شادی ہو گئی تھی۔ ریڈیو اور پی ٹی وی پر خبریں پڑھنے کی وجہ سے حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر رہی اور ہونے والے سب واقعات کو ایک تنقیدی نگاہ سے دیکھا۔

70 / 80 کے سیاہ اور تاریک دور میں ہونے والے غیر معمولی واقعات کو بہت قریب سے دیکھا او ر انھیں اپنی اس داستان حیات میں قلم بند بھی کیا ہے۔ پاکستان جیسے مرد غالب معاشرے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور معاشرے کے نامناسب رویوں، ملازمت پیشہ خواتین اور میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو درپیش مشکلات کے بارے میں اپنے مشاہدات اور تجربے پر بہت کچھ لکھا ہے۔ آپ نے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا میں بھی خواتین کو مساویانہ حقوق دلانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔

ماضی میں چھپنے والی کچھ ادیبوں اور بڑی شخصیات کی خودنوشت پڑھ کر اندازہ ہوا کہ لوگ اپنے بارے میں سچ نہیں لکھتے بلکہ اپنی خاندانی حیثیت اور ابتدائی زندگی کے واقعات و حالات کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کر کے اپنی اصل اور ابتدائی حالات کو قرطاس ابیض سے چھپا لیتے ہیں۔ لیکن ماہ پارہ صاحبہ کی خودنوشت پڑھتے ہوئے یہ نظر آتا ہے کہ انہوں نے اپنے بارے میں جو بھی لکھا سچ لکھا اور انتہائی سنجیدگی سے سارے حقائق بیان کیے ہیں۔

اپنی تعلیم کے دوران کالج اور یونیورسٹی کے واقعات، ریڈیو اور ٹی پر گزرا ہوا وقت، وہاں پیش آنے والی مشکلات اور چھوٹے چھوٹے واقعات جن میں خواتین ساتھیوں کو کیسے تنگ کیا جاتا ہے۔ مرد غالب معاشرے میں کام کرنے والی عورتوں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں اور ان سے فہم و فراست سے کیسے نبٹا جا سکتا ہے اس کا اظہار بھی ان کی خود نوشت میں ملتا ہے۔

ریڈیو اور ٹی وی پر کام کرنے کے علاوہ وہ ایک بہت اچھی شاعرہ اور ایک بہت اچھی لکھاری بھی تھیں، اپنے اس شوق کو انہوں نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ زندہ رکھا۔ اپنے پسندیدہ فنکاروں محمد علی زیبا، مہدی حسن، ندیم، صبیحہ خانم، مسرور انور، فریدہ خانم، بابا غلام احمد چشتی پر ان کے مختصر مگر انتہائی جامع مضامین بھی ان کی خود نوشت کا حصہ ہیں جس سے ان کی اپنے دیس کے فنکاروں کے ساتھ محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنے کربلا اور نجف اشرف کے سفر کے واقعات اور تاثرات کو بھی انہوں نے اپنی قارئین کے لیے لکھا ہے۔

اپنا وطن چھوڑ کر باہر جا کر بس جانا بڑا آسان لگتا ہے لیکن میرا یہ مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی ایسی ہجرت کی ہے اور جو لوگ بھی اس مرحلے سے دوچار ہوئے ہیں ان کے دل میں ہر وقت اپنے وطن کی تاہنگ رہتی ہے جو رہ رہ کر انہیں وطن میں گزرے ہوئے وقت کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ میاں محمد بخش ؒ نے اس وچھوڑے کو بڑے درد بھرے لہجے میں بیان کیا ہے۔

سن مرلی دی لکڑ کولوں درد وچھوڑا رکھ دا
سبھناں دا ایہہ حال محمد ؒ کہو کی حال منکھ دا

گو کہ انھوں نے بی بی سی کی ملازمت کے لئے اپنا وطن چھوڑا اور آنے والے حالات نے انہیں برطانیہ میں مستقل رہائش پر مجبور کر دیا لیکن ان کے دل میں اب بھی اپنے وطن جانے کی امنگ کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ دیار غیر میں وہ اپنا ساتھ دینے والے پڑوسی تارکین وطن کو نہیں بھولیں اور ان کا ذکر خصوصی طور پر اپنی خودنوشت میں کیا ہے۔

ہم ان کو ٹی وی اور ریڈیو پر خبریں پڑھنے والی نیوز کاسٹر کی حد تک جانتے تھے لیکن ان کا اتنی اچھی شاعرہ ہونے کا اندازہ ان کی شاعری پڑھ کر ہوا۔ وہ مشاعرے پڑھنے کے لے کافی جگہوں پر جا چکی ہیں جس کا اظہار انہوں نے اپنی خودنوشت میں کیا ہے۔ یوں تو ان کی سبھی غزلیں اپنے اندر بہت خوبصورتی سمیٹے ہوئے ہیں لیکن ایک اور لحاظ سے بھی یہ غزلیں منفرد خصوصیت کی حامل ہیں کہ ان سب غزلوں میں کہیں بھی انہوں نے اپنا تخلص استعمال نہیں کیا۔ مجھے ان کی ایک غزل کے دو شعر زیادہ پسند آئے۔

خزاں دریدہ بدن کو سجاؤں شاخوں پر
ہر ایک پتے پر زخموں کا خوں بہا رکھوں
وہ راہ کھو جتا شاید ادھر نکل آئے
میں اپنے ہاتھ میں جگنو کوئی جلا رکھوں
اور ان کی نظم ”سنو“ بھی مجھے بہت اچھی لگی۔
چلو ابھی تو ذرا
تھوڑی دیر ساتھ چلیں
پھر اگلا موڑ
جدائی کا آنے والا ہے۔
جو اس کے بعد جدا ہو کے پھر ملے بھی کہیں
یوں گزر جائیں گے جیسے تمھیں دیکھا ہی نہیں
رفاقتوں کے یہ لمحے بہت غنیمت ہیں
پھر اس کے بعد جدائی کے سب زمانے ہیں۔
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments