بھٹو صاحب نے 93000 جنگی قیدی کیسے رہا کروائے؟


2 اور 3 جون 1947 ءکی درمیانی شب محمد علی جناح نامی ایک سیاست دان نے وائسرائے ہاﺅس دہلی میں ماﺅنٹ بیٹن سے مذاکرات کی میز پر پاکستان کی آزادی حاصل کی تھی۔ 24 برس بعد ایک فوجی حکمران یحییٰ خان نے اپنی غاصبانہ حکومت کی طوالت کے لالچ میں آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا۔ 13 سالہ آمریت کے اختتام پر 13 روزہ جنگ کے نتیجے میں 57320 مربع میل پر محیط مشرقی پاکستان جاتا رہا اور 93000 پاکستانی جنگی قیدی بنے۔

گزشتہ دنوں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے دعویٰ کیا کہ مشرقی پاکستان میں صرف 34000 فوجی تھے۔ دستاویزات کے مطابق پاکستانی جنگی قیدیوں میں 79676 افراد باوردی سپاہی تھے۔ بری فوج سے 55692، بحری فوج سے 1381 اور فضائیہ سے 833 افسر و جوان قید ہوئے۔ 16354 نیم فوجی دستوں اور 5296 افراد پولیس سے وابستہ تھے۔ 13324 جنگی قیدی سول انتظامیہ کے رکن یا پاکستان کے وفادار بنگالی تھے۔ 1972 کے ابتدائی مہینوں میں ہر شام اسیر فوجی افسروں کی بیویاں اپنے ننھے بچوں سمیت لاہور کی مال روڈ پر جمع ہوتی تھیں۔ بچوں کے ہاتھ میں اٹھائے پلے کارڈوں پر ایک ہی جملہ تحریر ہوتا تھا، ’صدر بھٹو، میرا ابو واپس لاﺅ‘۔

صدر بھٹو ایک محب وطن سیاسی رہنما تھا جو 20 دسمبر 1971 کی صبح اسلام آباد پہنچنے سے 24 گھنٹے قبل لندن میں مختصر قیام کے دوران ہی جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے بات کر چکا تھا۔ 28 جون سے 2 جولائی 1972 تک شملہ مذاکرات تو محض اس افہام و تفہیم کو باضابطہ شکل دینے کی مشق تھے جو 19 دسمبر 1971 کو بھٹو صاحب اور اندرا گاندھی میں طے پائی تھی۔ تاہم پاکستان میں بھٹو صاحب کو اس تواتر سے ملک توڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے مندرجات بھی دھندلا گئے۔

آئیے ایک سابق بھارتی سفارت کار ساشنک بینرجی سے یہ کہانی سنتے ہیں جو لندن میں بھارتی سفارت کار ہونے کے ناتے ان واقعات کے عینی گواہ تھے۔ 10 جنوری 1972 کو مجیب الرحمن لندن سے براستہ دہلی ڈھاکہ روانہ ہوئے تو 13 گھنٹے کے طویل سفر میں ساشنک بینرجی کی نشست مجیب کے پہلو میں تھی۔ انہوں نے India, Mujibur Rahman, Bangladesh Liberation & Pakistan کے عنوان سے 2011 میں ایک کتاب بھی لکھی۔


دسمبر 1971 میں بھارت اور بنگلادیش فتح کا جشن منا رہے تھے۔ بھارتی رائے عامہ چاہتی تھی کہ پاکستان کی فیصلہ کن شکست اور جنگی قیدیوں کی بڑی تعداد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر من مانا حل مسلط کیا جائے۔ تاہم اندرا گاندھی کو گمبھیر مسائل درپیش تھے۔ بھارتی معیشت کو اس جنگی مہم جوئی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ ایک کروڑ بنگالی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اب انہیں 90000 جنگی قیدیوں کے مصارف بھی اٹھانا تھے۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک میں جنیوا کنونشن اور سفارتی نزاکتیں بھی کارفرما تھیں۔

اندرا گاندھی نوزائیدہ بنگلادیش میں مسلح عناصر اور بھارت میں آزادی پسند گروہوں کے ممکنہ روابط سے سخت خائف تھیں۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان میں قید شیخ مجیب الرحمن کسی طرح زندہ سلامت بنگلہ دیش پہنچ کر حالات سنبھال لیں تاکہ بنگلادیش کے انتشار سے بھارت محفوظ رہ سکے۔ مجیب الرحمن کو پاکستان میں فوجی عدالت سے سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔ شیخ مجیب کی پاکستان سے رہائی کے لئے اندرا گاندھی کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار تھیں۔ انہوں نے رازداری سے بھارتی ایجنسی را کے سربراہ رام ناتھ کاﺅ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔

پاکستان میں یحییٰ خان کے لئے شدید خواہش کے باوجود مزید اقتدار میں رہنا ناممکن ہو چکا تھا۔ چنانچہ نیویارک میں موجود بھٹو کو فوراً اسلام آباد طلب کیا گیا تاکہ انہیں بچا کھچا پاکستان سونپا جا سکے۔ 17 دسمبر کو فلوریڈا میں نکسن اور کسنجر سے ملاقات کے بعد بھٹو صاحب پین ایم کی فلائٹ 106 پر لندن کے لئے سوار ہو گئے۔ ادھر مشرقی پاکستان کے آخری چیف سیکریٹری مظفر حسین بھارت میں پاکستان کے سینئر ترین سویلین جنگی قیدی تھے جنہیں بھارتی وزارت خارجہ کے اعلیٰ رکن ڈی پی دھر کے بنگلے پر ٹھہرایا گیا تھا۔ مظفر کی بیگم لیلیٰ حسین 3 دسمبر کو لندن گئی تھیں مگر جنگ کے باعث وہیں رک گئی تھیں۔

بھٹو صاحب کی سفری تفصیلات ملتے ہی اندرا گاندھی نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں ڈی پی دھر، رام ناتھ کاﺅ اور سیکریٹری خارجہ ٹی این کول شریک تھے۔ اندرا گاندھی کسی ایسے رابطے کی تلاش میں تھیں جو مجیب کے بارے میں بھٹو صاحب کے ارادے بھانپ سکے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ بھٹو صاحب اور لیلیٰ حسین میں خصوصی تعلقات رہے ہیں چنانچہ ساشنک بینر جی کو ذمہ داری سونپی گئی کہ کسی طرح ہیتھرو ائرپورٹ پر لیلیٰ حسین اور بھٹو میں ملاقات کرائی جائے جس میں بیگم مظفر بھٹو صاحب سے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے کوشش کی درخواست کریں۔

ملاقات طے پا گئی۔ بھٹو صاحب حسب توقع لیلیٰ حسین سے تپاک سے پیش آئے۔ تاہم وہ نہایت زیرک سیاستدان تھے۔ انہوں نے لیلیٰ حسین سے سرگوشی میں کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ مظفر حسین کی بیگم دراصل اندرا گاندھی کے ایما پر ملنے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اندرا کو بتا دو کہ میں پاکستان پہنچتے ہی مجیب الرحمن کو رہا کر دوں گا لیکن اس کے بدلے میں مجھے اندرا سے جو چاہیے، وہ میں اپنے ذرائع سے انہیں بتا دوں گا‘۔

اندرا کو یہ مثبت جواب سن کر کسی قدر اطمینان ہوا مگر انہیں بھٹو صاحب پر مکمل اعتماد نہیں تھا۔ مجیب کی رہائی کے بعد اندرا نے ایک قریبی سیاسی رفیق کو بتایا کہ’بھٹو نے انہیں اپنا مطالبہ پہنچا دیا ہے۔ وہ پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں‘۔ اب بھٹو صاحب کے مضطرب ہونے کا وقت تھا۔ کیا اندرا گاندھی اپنا وعدہ نبھائیں گی؟ بالآخر مجیب کی رہائی کے آٹھ ماہ بعد شملہ معاہدے میں جنگی قیدیوں کی رہائی طے پا گئی۔ رہا ہونے والے جنگی قیدیوں میں سے آٹھ افسر فور سٹار اور پانچ افسر تھری سٹار عہدوں تک پہنچے۔ تاہم بھٹو صاحب کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments