فلپس نے سارے گمان پلٹ دیے، سمیع چوہدری کا کالم


گلین فلپس
قریب تھا کہ کیوی امیدوں کے محل مسمار ہو جاتے اور 15 سال بعد برّصغیر میں کوئی ون ڈے سیریز جیتنے کا خواب ادھورا ہی رہ جاتا مگر گلین فلپس بیچ میں آ گئے۔ اُنھوں نے جارحیت اپنائی اور پاکستان ہوم گراؤنڈ پر ایک اور معرکہ ہار بیٹھا۔

اپنے تئیں تو پاکستانی بولنگ اس میچ کو بہت پہلے ختم کر چکی تھی جب ٹام لیتھم بھی مڈل اوورز کے ہنگامی انہدام کی نذر ہوئے اور ڈگمگاتی کیوی بیٹنگ لائن کو صرف ایک ہی مستند بلے باز کا سہارا میسر رہ گیا تھا۔

مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ مستند بلے باز گلین فلپس ہوں گے جو صحت کے کچھ مسائل کے  باعث چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرنے سے قاصر رہ گئے تھے اور خلافِ معمول ساتویں نمبر پر بیٹنگ کرنے آئے۔

اگرچہ لیتھم مزاحمت کر رہے تھے مگر پاکستانی بولنگ پوری طرح میچ پر سوار ہو چکی تھی اور مطلوبہ رن ریٹ بھی چڑھتا جا رہا تھا۔ لیکن نجانے کیوں گلین فلپس جیسے بلے باز کو کریز پر آتے ہی شارٹ پچ کے پیکج سے بھرپور استقبالیہ دیا گیا۔ 

یہ بنیادی نکتہ پاکستانی بولرز سے کیونکر اوجھل رہ گیا کہ ایسے جارح مزاج بلے باز کے لیے شارٹ پچ یا فل لینتھ کے بجائے، تیکھی لائن میں ہارڈ لینتھ بھی عمدہ ہتھیار ہو سکتی تھی؟

یہ پچ پچھلے میچ سے بہت الگ تھی۔ اس میں ویسا بھیانک ٹرن اور دھیما باؤنس نہیں تھا۔ یہاں رنز بنانے کے مواقع دستیاب تھے اور سپنرز بھی کوئی بڑا خطرہ نہیں تھے۔ مگر پاکستانی بیٹنگ ایک بار پھر اپنی سوچ کے ہاتھوں ڈھیر ہو گئی۔

جہاں 300 کا مجموعہ قرینِ قیاس تھا، وہاں ٹاپ آرڈر کا سٹرائیک ریٹ آڑے آ گیا اور اوائل میں برتی گئی احتیاط بالآخر مہنگی پڑی؛ جب لوور آرڈر کیوی  بولنگ کے ڈسپلن کا شکار ہوا۔ جس وقت کے انتظار میں پاکستانی بلے بازوں نے لمبی تمہید باندھ رکھی تھی، وہ وقت آنے پر خود جاتے بنے۔

گلین فلپس

پچھلے دو عشروں میں دنیائے کرکٹ کا ارتقا بہت تیزی سے ہوا ہے مگر اپروچ کے معاملے میں پاکستانی بیٹنگ آج بھی دو دہائیاں پیچھے نظر آ رہی ہے جہاں اگر اوپر دو وکٹیں جلد گر جائیں تو ایک مدافعتی خول اوڑھ لیا جاتا ہے اور بازو کھولنے کے لیے کسی بھلے وقت کا انتظار شروع کر دیا جاتا ہے۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ بھلا وقت 35 اوورز سے پہلے آ کے نہیں دیتا۔ اور پھر بھلا وقت آنے تک اعصاب ہی نہیں، عضلات بھی جواب دے چکے ہوتے ہیں۔ یوں، حالات کا جبر ایک نئے بلے باز کو نئے سرے سے ساری کہانی باندھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اگرچہ پاکستانی بولنگ نے مڈل اوورز میں بہتر کارکردگی دکھائی مگر فلپس کے خلاف شارٹ پچ کے تجربے نے ساری کاوش کو گہنا دیا۔ جہاں گڈ لینتھ اور ہارڈ لینتھ سے طبع آزمائی مؤثر ثابت ہو سکتی تھی، نجانے کیوں وہاں شارٹ پچ اور لیگ سٹمپ چینل سے غزل سرا ہونا بھی ضروری سمجھ لیا گیا۔

اور پھر جب بابر اعظم طے کر ہی چکے تھے کہ اُنھیں رجحان بدل کر ہدف کے تعاقب کے بجائے مجموعے کا دفاع کرنا ہے تو پھر سلجھانے کی گتھی یہ بھی ہے کہ نسیم شاہ کو آرام دینا کیوں ضروری تھا۔ حالانکہ پی ایس ایل کے آغاز میں بھی ابھی مہینہ بھر باقی ہے اور یہ رواں سپیل کا آخری انٹرنیشنل میچ تھا جہاں جیت پاکستان کے لیے ضروری تھی۔

بحیثیتِ مجموعی یہاں پاکستانی بولنگ مایوس کن نہیں تھی مگر المیہ یہ رہا کہ اس بولنگ کی ذہانت کھیل کے کچھ دقیق لمحات میں اپنا رنگ جمانے سے  قاصر رہ گئی۔ 

اور یہیں اگر پاکستانی بیٹنگ بھی مجموعے میں 20 یا 30 رنز اور جوڑ پاتی تو شاید یہ سیریز پاکستان کے نام ہو سکتی تھی۔

مگر گلین فلپس اچانک امڈے اور ان کی یلغار نے سارے گمان پلٹ دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments