یہ جو اتنی سردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔


لاریب کہ دور رواں وطن عزیز کے لئے بیرونی سازشوں کا دور ہے اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ موسم بھی، امپورٹڈ، ہوتے جا رہے ہیں۔ حالیہ یخ بستہ مغربی اور روسی ہوائیں ان سازشوں کا واضح ثبوت ہیں۔ مگر شاید ان ہواؤں کو یہ علم نہیں کہ ان کے جاڑوں کو کس قوم سے، پالا، پڑا ہے۔ لہٰذا اے میرے لذیذ ہم وطنو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پوری قوم یک جاں ہو کر ، یہ جو اتنی سردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے، کے بیانیہ کو لے کر اٹھے اور ان ظالم موسموں کے خلاف حقیقی آزادی کے لئے ڈٹ کے کھڑی ہو جائے۔

حقائق سے واضح ہے کہ اس بیرونی موسمی مداخلت کو ہمارے قومی موسموں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ قوم اپنے شمالی اور مغربی علاقہ جات کے باشندوں اور پہاڑوں سے پوچھنا چاہتی ہے کہ انہوں نے ان ظالم اور سازشی ہواؤں کو کیوں نہ روکا۔ گویا ہمارے بہت سے پہاڑی سلسلوں اور وہاں کے باسیوں نے میر صادق و جعفر کا کردار ادا کیا ہے۔

یقیناً اس امپورٹڈ زمستاں کی سرد ناک سردی نے عام لوگوں کو چھٹی تو کیا، گیارہویں کا دودھ بھی یاد دلا دیا ہو گا اور شعراء کو سردی کی بابت اپنے شعری نظریات سے یوٹرن لینے پر ضرور مجبور کیا ہو گا۔ سوشل میڈیا پر اڑنے والی سردی کی ہولناک وعیدوں نے خاص و عام کے خوب ”تراہ“ نکالے رکھے اور آخر شیر آ ہی گیا۔ ان سازشوں کی وجہ سے ہماری بہت سی سنہری روایات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ماضی میں آتشیں حسد و عشق میں جلے بھنے شعراء سرد اور برفاب موسم کو باعث راحت مانتے تھے۔

کبھی سرد ہوا یار کو یاد کرنے کا موجب بنتی تو کبھی سردی کی آمد پہ محبوب سے ملاقات کی بنتی کی جاتی۔ جبکہ گرمیوں کو کسی نے بھی لائق تحسین نہ جانا۔ دسمبر کے تو اتنے گن گائے گئے کہ وہ ناز سے اترانے لگا اور کچھ مدت کے لئے ٹھنڈا ہونا بھی چھوڑ دیا۔ نا معلوم جنوری کی شان میں کیوں نہ لکھا۔ غالباً نحیف و ناتواں شعراء کے دسمبر کے اندر ہی کام، بن، یا پھر تمام ہو جاتے ہوں گے۔ اب کے سال سرما میں ر خورشید کا نور ظہور بھی عید کا چاند ٹھہرا۔

اندھا دھند، دھند نے دھند میں تارے دکھا دیے۔ ٹمپریچر نے اس حد تک کم ظرفی دکھائی کہ اپنی اوقات سے بھی زیادہ گر گیا۔ یوں مزید درجہ حرارت گرنے کے خوف سے عشاق بے چارے سرد آہیں بھرنے سے بھی معذور ہیں۔ عشق کو تپتے ہوئے صحرا سے تشبیہ دینے والے عشاق بھی جاڑے سے دانت بجانے لگے۔ گویا کپکپاہٹ، دندناہٹ اور یخ یخاہٹ کا دور دورہ ہے۔ کھانسنا، چھینکنا اور کھنگھارنا تو اوڑھنا بچھونا ٹھہرا ہے جبکہ ناک کی نم ناک روانی اسے اس قدر خطر ناک بنائے ہوئے ہے کہ عاشق و معشوق سب، ناک، چھپائے پھرتے ہیں۔

انگاروں اور چائے کے سوا کوئی چارہ نہیں البتہ انڈا اور لنڈا فروشوں کی تو گرانی کے موجب چاندی ہوئی ہے۔ لنڈا کی مہنگائی کے پیچھے بھی انگریزوں کی سازش کار فرما ہے جبکہ انڈے کی ہوشربا قیمتوں کی وجہ حکومت کی نا اہلی اور مرغیوں کے اپنے انڈوں پر رائلٹی کے مطالبات ہیں۔ یعنی بیرونی مداخلت کی بدولت اب مرغیوں کے شعور اور تحت الشعور میں نا جائز منافع وصول کرنے کی کرپشن کا بھوت سوار ہو چکا ہے۔ ان سرد ناک موسمی ساشوں کے باعث ہمارے خطے کے سورماؤں میں عجیب و غریب ٹرانسجینڈرانہ تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں۔

حدت جذبات کے پیکروں کے ہاں جذبات کی یخ بستگی نے عاشقی و مردانگی کو ہی مشکوک بنا دیا۔ اس حال میں کتاب تنہائی کی ساتھی ہے نہ وصل ہجر کا درماں ہے بلکہ صرف رضائی مقصود اور اٹیچ باتھ مطلوب ہے۔ حتیٰ کہ ایسی شب یلدائی ٹھنڈ نے سبھی کوایک دوسرے کا رضائی بہن بھائی بنا کے رکھ دیا ہے۔ یہ عقدہ بھی عیاں ہوا کہ کمبل کو چھوڑنے کے باوجود کمبل کیوں نہیں چھوڑا کرتا گویا شب زہاف کی جگہ شب لحاف نے لے لی ہے۔ سنا ہے آج کل نہانا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور احباب تیمم کے لئے شرعی رخصت کی خاطر معتدل علما سے رابطے میں ہیں۔

البتہ جلنے والوں کو سردی کا احساس ضرور کم ہوتا ہو گا۔ مزید براں سردیوں میں گرمی کی اذیت سے بھی جاں چھوٹ جاتی ہے۔ اصل میں منطقہ معتدلہ میں واقع ہونے کے موجب وطن عزیز میں سارے موسم ہی اپنے اپنے رنگ جماتے ہیں۔ ان دنوں شمالی نصف کرہ میں سردی تو جنوبی نصف کرہ میں گرمی ہے۔ سرما میں اس خطے میں سورج دیوتا کی بے رخی کے باعث دھرتی ماتا سے فاصلے کافی بڑھ جاتے ہیں اور وہ شدید سرد مہری پر اتر آتا ہے۔ دن چھوٹے اور راتیں اتنی لمبی ہو جاتی ہیں کہ علم ریاضی کے دعویدار بھی، طول شب فراق، ناپنے سے قاصر دکھتے ہیں۔

پھر سرما کی چھٹیوں میں عدم توسیع کے فیصلے نے معماران قوم پر غموں اور دکھوں کے پہاڑ ڈھا رکھے ہیں۔ ادھر سرکار بے سروکار نے مہنگائی کو چار چاند لگا کر غریبوں کے لئے، کئی چاند سر آسماں، چڑھا رکھے ہیں جبکہ سابق سرکار نے تو قبر میں سکون کی وعیدانہ نوید سنا رکھی تھی۔ کوئی انہیں بتلاؤ کہ بعد از مرگ بھی، زم حریر، کا عذاب منتظر ہے۔ جانے اب اس دلگداز اور سرد ناک زمستاں میں ابوالکلام آزاد اور عرش صدیقی ایسے، ثناء خوان تقدیس سرما، کہاں ہیں؟ اور بہادر شاہ ظفر ہوتے تو کچھ یوں کہہ اٹھتے،

ان سردیوں سے کہہ دو کہیں دور جا بسیں اتنی سکت کہاں ہے طبع ناتواں میں

جو بھی ہو اب قوم ان ہولناک جاڑوں کو پھیلانے والے سازشی عناصر کو پہچان چکی ہے اور گلی گلی اک، شور شر انگیز، ہے کہ  “یہ جو اتنی سردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے ‘.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments