مختصر فلم: ہزارہ


ہزارہ
تحریر: ایاز علی رند
(مختصر فلم)

منظر 1
وقت: شام
کردار: حسن بخش اور سو سے زیاد ہزارہ برادری کے لوگ

سخت سردی میں کچھ لوگ احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہیں۔ لوگوں کے درمیاں دس تابوت پڑے ہیں جن میں سے ہر تابوت کے سرہانے کوئی عزیز مرد یا خاتون بیٹھے ہیں۔ ایک تابوت کے سرہانے درد سے نڈھال بوڑھے حسن بخش کو فوکس کیا جاتا ہے اور پھر فلیش بیک میں کہانی کی شروعات ہوتی ہے۔

۔ کٹ۔
منظر 2
وقت: رات
کردار: حسن بخش، علی حیدر

(سردی کی ایک رات میں ایک نوجوان علی حیدر کو اپنے خستہ حال گھر سے دبے پاؤں نکلتے دکھایا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کی آواز کہانی بیان کرنا بھی شروع کرتی ہے۔ )

نوجوان کی آواز: سرد راتوں میں جب بابا سے چھپ چھپا کر میں اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی کبھار نکل جایا کرتا تھا تو نہ جانے وہ کیا چیز تھی جو بابا کو گہری نیندوں سے جگا کر بے چین کر دیتی اور پھر وہ پہروں میرے انتظار میں چوکھٹ پر پریشان بیٹھے میری راہ تکتے رہتے تھے۔

(غریب مزدور حسن بخش کو دروازے کی ہلکی سی آواز پر نیند سے بیدار ہوتے دکھایا جاتا ہے۔ وہ اٹھ کر علی حیدر کا بستر دیکھتا ہے جو پھٹی رضائی اور میلے تکیے پر مشتمل ہے، خالی پڑا ہے۔ اس کے چہرے پر پریشانی امنڈ آتی ہے۔ وہ بڑھ کر دروازہ کھولتا ہے جیسے تسلی کرنا چاہتا ہو کے دروازہ لاک نہیں ہے۔ وہ دروازہ کھول کر چوکھٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا ہے اور بیڑی جلا کر بیٹے کی راہ تکنے لگتا ہے۔ بیڑی کا دھواں فوکس ہوتا ہے۔ )

۔ کٹ۔
منظر 3
وقت: رات
کردار: علی حیدر اور تین دوست

(دھواں فوکس سے ہٹتا ہے تو علی حیدر کو تین ہم عمر دوستوں کے ساتھ سگریٹ پیتے اور ہنسی مذاق کرتے دکھایا جاتا ہے۔ علی حیدر نے دو پھٹے پرانے کوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ کسی سڑک کے کنارے ٹوٹے پھوٹے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہیں۔ )

نوجوان کی آواز: دوستوں کے ساتھ مستی میں میرا جوان جسم سردی کو کسی خاطر میں کم ہی لاتا تھا اور پھر مجھے گرم رکھنے کے لیے میرے آبا و اجداد کے ورثے میں چھوڑے گئے وہ کوٹ بھی کافی تھے جو بابا نے میرے لیے سنبھال رکھے تھے۔ لیکن بابا کو کون سمجھائے! ان کا بس چلتا تو شاید وہ مجھے کبھی گھر سے ہی نکلنے نہ دیتے۔

۔ کٹ۔
منظر 4
وقت: رات
کردار: حسن بخش اور علی حیدر

(حسن بخش کی منتظر نگاہیں اچانک چونک کر کسی کو غور سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جیسے یقین کرنا چاہتی ہوں کے دور سے نظر آنے والا اس کا بیٹا علی حیدر ہی ہے۔ اور لمحے بھر میں یقین ہو جانے پر اس کی آنکھیں اطمینان اور ہونٹ مسکان سے بھر جاتے ہیں۔ وہ ٹھنڈا سانس لیتا ہے اور بیٹے کو قریب آتے ہوئے پاتا ہے۔ )

نوجوان کی آواز: مجھے واپس آتا دیکھ کر دیر رات میں ان کے چہرے کی چمک سے کسی جگنو یا ٹوٹتے تارے کی طرح روشنی فضا میں سر بکھیرنے لگتی لیکن پھر اگلے ہی لمحے ان کی پریشانی ہٹتے ہی پیشانی پر بل پڑ جاتے اور پھر وہ دل کھول کر اپنا غصہ نکالتے۔ اور وہی کہتے جو وہ ہمیشہ کہتے ہیں۔ )

حسن بخش: تیری ماں زندہ ہوتی تو تونے اسے دل کا مریض بنا کر چھوڑنا تھا!

نوجوان کی آواز: پھر انہوں نے مجھے قہوہ پلانا، حکیم سے لائی پھکیاں کھلانی اور گھر بھر کی رضائیاں میرے اوپر یوں لادنی جیسے گدھے کے اوپر بوریاں لادی جاتی ہیں۔

(حسن بخش کو قہوہ کا پیالا علی حیدر کو تھماتے اور پرانی میز کی دراز سے حکیم کی پھکیاں نکال کر میز پر پڑے جگ سے گلاس میں پانی بھر کر علی حیدر کو دیتے اور پھر اسے سلا کر اس پر میلی کچیلی اور پھٹی پرانی رضائیاں ڈالتے دکھایا جاتا ہے۔ اس کے چہرے پر باپ کی فکر اور ماں کی شفقت دونوں کا تاثر ملتا ہے۔ )

۔ کٹ۔
منظر 5
وقت: دن
کردار: حسن بخش اور علی حیدر

(حسن بخش کو علی حیدر کے ساتھ صحن میں ہنستے بولتے دکھایا جاتا ہے۔ پھر اچانک برف باری شروع ہونے پر اسے بچوں کی طرح ڈر کر اندر بھاگتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ بیٹا صحن میں کھڑا ہو کر باپ کو برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لیے باہر آنے کے اشارے کرتا رہتا ہے لیکن وہ ڈر کے مارے انکار کرتا ہے۔ حسن بخش کے پیچھے دیوار پر لگی علی حیدر کی ماں فاطمہ کی تصویر لمحے بھر کے لیے باقی منظر بلر کر کے دکھائی جاتی ہے۔ )

نوجوان کی آواز: بابا مجھے جانی کہہ کر بات کرتے اور میں بھی انہیں اپنا جانی مانتا۔ وہ بابا کم اور دوست، ماں، بھائی وغیرہ زیادہ لگتے تھے۔ وہ میرے لیے کسی ہم خیال دوست کی طرح تھے، ان کی اور میری فطرت اور عادت سب ملتیں سوائے ایک اس بات کے کہ وہ ڈرپوک تھے اور میں نڈر۔ رشتے دار بتاتے تھے کہ انہیں بچپن سے ہی سردیوں سے خوف آتا تھا اور وہ بچپن میں سردیوں کے مہینوں میں گھر سے نکلتے ہی نہیں تھے۔ میں ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ سرد علاقے میں پیدا ہوئے پلے بڑھے بابا کو سردیوں سے کیوں کر ڈر پیدا ہوا تھا۔

(برف باری کو فوکس کیا جاتا ہے )
۔ کٹ۔
منظر 6
وقت: شام
کردار: حسن بخش، فاطمہ، علی حیدر

(برف باری سے فوکس ہٹتا ہے تو جوان حسن بخش کو سردی اور برف باری میں اپنی بیمار بیوی کو اٹھائے گھر سے پریشان نکل کر تیز تیز قدموں سے سڑک پر جاتے دکھایا جاتا ہے۔ ایک بچہ (علی حیدر کا بچپن) اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا جاتا ہے )

نوجوان کی آواز: پہلی بار انہیں سردی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے میں نے تب دیکھا تھا جب بیماری میں تڑپتی اماں کو ہسپتال پہنچانا تھا اور بابا نے اکیلے اس سخت سردی کی رات میں اماں کو ہسپتال پہنچایا۔ اگلے دن اماں ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں۔ وہ بہت المناک دن تھے۔ خاص کر بابا کے لیے۔ بابا کو ان سے بہت محبت تھی۔ اسی لیے سالوں تک اولاد نہ ہونے کے باوجود بھی بابا نے دوسری شادی نہیں کی۔

(حسن بخش کو گھر کے صحن میں سوگ کی حالت میں غمزدہ اور کھویا کھویا دکھایا جاتا ہے۔ وہ بھری آنکھوں سے گھر کے دروازے کی طرف دیکھتا ہے۔ )

۔ کٹ۔
منظر 7
وقت: دن
کردار: حسن بخش، فاطمہ، علی حیدر، کچھ پیر فقیر

(دروازے سے حسن بخش کی بیوی معصوم بچہ اٹھائے باہر نکلتی ہے۔ حسن بخش بڑھ کر بچے کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا ہے۔ وہ دونوں خوش ہیں اور سڑک پر نکل جاتے ہیں۔ )

نوجوان کی آواز: میں ان کی بڑھاپے میں ہونے والی اکلوتی اولاد تھا۔ شاید اسی لیے بہت عزیز تھا اور ان کی مجھ میں جان اٹکی رہتی تھی۔ لاکھوں منتوں مرادوں کے بعد میری پیدائش ہوئی تھی۔ اماں بابا نے کوئی درگاہ نہ چھوڑی تھی اور نہ کوئی پیر فقیر۔ اماں مرتے دم تک نفلی روزے اور نمازیں پڑھتی رہیں ان کی سانسیں میری پیدائش سے پہلے مانی گئی نمازوں روزوں کی منتوں مرادوں کے ختم ہونے سے پہلے ختم ہو گئیں اور بابا ہمیشہ چڑھاوے چڑھاتے رہے۔ ان کے لیے میری آمد کی امید میں کٹے رات دن سے کہیں زیادہ کٹھن اور تکلیف دہ مجھے پالنے پوسنے کے دن رات رہے۔

(حسن بخش اور اس کی بیوی کو بچہ اٹھائے مختلف درگاہوں اور پیروں کے پاس جاتے دکھایا جاتا ہے۔ ماں کو نفلی روزے رکھتے اور نمازیں ادا کرتے دکھایا جاتا ہے۔ حسن بخش کو درگاہ پر پیر کو نذرانہ دیتے دکھایا جاتا ہے اور ساتھ کھڑی بیوی کی بانہوں میں بچے کو فوکس کیا جاتا ہے۔ )

۔ کٹ۔
منظر 8
وقت: صبح
کردار: حسن بخش، فاطمہ، ننھا علی حیدر، ڈاکٹر

( بچے سے فوکس ہٹتا ہے۔ وہ گھر میں ماں کی گود میں رو رہا ہے۔ ماں پریشان ہے۔ حسن بخش ڈاکٹر کو لے کر اندر داخل ہوتا ہے اور ڈاکٹر بچے کا معائنہ کرتا ہے۔ )

نوجوان کی آواز: سب سے بڑا اضطراب وہ وہم تھا جو انہیں لاحق رہتا کہ کہیں مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ ہلکا پھلکا بخار یا کھانسی بھی ان پر یوں گراں گزرتی جیسے خدا نہ خواستہ کوئی لاعلاج مرض لاحق ہو گیا ہو۔ عزیز و اقارب اماں کو دلاسے دیتے تو بابا کے آنسو نہ رکتے، بابا کے آنسو پونچھتے تو اماں کی آنکھیں برستی رہتیں۔

(دونوں میاں بیوی کی آنکھوں میں آنسو دکھائے جاتے ہیں۔ بیوی کی آنکھوں کو فوکس کیا جاتا ہے۔ )
۔ کٹ۔
منظر 9
وقت: رات
کردار: حسن بخش، فاطمہ، نوجوان علی حیدر
(آنکھوں سے فوکس ہٹتا ہے۔ وہ رو رہی ہے اور حسن بخش سے کہہ رہی ہے۔ )

فاطمہ: میری نہیں مانتا وہ! کہتا ہے مزدوری کرے گا۔ ہائے میرا بچہ! اس کے ہاتھوں میں چھالے نہیں دیکھ سکتی میں۔

(علی حیدر اتنے میں گھر کے اندر داخل ہوتا ہے اور باپ اس خوب ڈانٹ پلاتا ہے )

نوجوان کی آواز: میں جب دس بارہ سال کا ہوا تو مزدوری کرنے کا خیال دل میں آیا کہ اسی عمر کے یار دوست مزدوری پر لگے ہوئے تھے۔ لیکن جب بابا کو پتہ لگا تو وہ حجامت کی کہ طبیعت صاف ہو گئی۔ وہ مجھے نکموں کی طرح گھر بیٹھ کر روٹیاں توڑنے پر مجبور رکھنے میں کامیاب رہے۔ ان کے آگے بھلا کس کی چلتی تھی۔ چاچو اور تایا بھی ان کے آگے نہیں بولتے تھے۔

۔ کٹ۔
منظر 10
وقت: شام
کردار: حسن بخش، علی حیدر
(حسن بخش بیمار بستر پر پڑا ہے اور علی حیدر اسے دوائی پلا رہا ہے۔ )

نوجوان کی آواز: لیکن اماں کے جانے کے بعد ان کی ہمت کے ساتھ ساتھ ان کی صحت بھی جواب دیتی رہی۔ ایسے میں بڑی منت سماجت کے بعد انہوں نے مجھے مزدوری کی اجازت دی۔ میرے کچھ دوست پہلے سے کوئلے کی کان میں کام کرتے تھے ان کی مدد سے مجھے بھی کام مل گیا۔ اماں کے جانے کے بعد مجھے لگتا تھا کہ شاید خوشی سے کبھی پالا نہ پڑے گا لیکن اس دن میں نے خوشی کو ایک بار پھر اپنے دل میں اترتا محسوس کیا۔ یہ وہ دن تھا جس کی میں نے ہمیشہ تمنا کی تھی۔ میں محنت مزدوری کر کے اماں بابا کے لیے وہ سب کچھ کرنا چاہتا تھا جو انہوں نے میرے لیے کرنے کے خواب دیکھے تھے۔

(علی حیدر کو دوستوں کے ساتھ کوئلے کی کان میں کام کرتے خوش دکھایا جاتا ہے۔ )
۔ کٹ۔
منظر 11
وقت: شام
کردار: علی حیدر، تین دوست، چھ مزدور، کچھ مسلح حملہ آور افراد

(علی حیدر کو تینوں دوستوں کے ساتھ فخریہ انداز میں بات چیت کرتے دکھایا جاتا ہے دوستوں کو اس کی تعریف کرتے دکھایا جاتا ہے۔ آس پاس سے چھ اور بھی مزدور بیٹھے دکھائے جاتے ہیں۔ )

نوجوان کی آواز: پہلے ہی دن میں نے وہ جوش دکھایا کہ یار بیلی ہکے بکے رہ گئے۔ ان کا خیال تھا جس شخص نے کبھی خود سے اٹھ کر پانی تک بھر کے نہ پیا ہو وہ لاڈلا بھلا کیا مزدوری کرے گا! اور وہ بھی کوئلے کی کان میں! لیکن میں نے بھی ثابت کیا کہ میری رگوں میں مزدور ماں باپ کا خون دوڑتا ہے۔ ہم کان کے قریبی علاقے میں بیٹھے اسی پر بات کر رہے تھے۔ دوستوں کی طرف سے تعریفیں تھیں اور میرا فخر تھا کہ تھمتے ہی نہ تھے اور فضا میں شاباشیاں تھیں یا پھر ہمارے قہقہوں کی گونج تھی۔

(اچانک کچھ مسلح لوگ ان پر حملہ کر دیتے ہیں )

نوجوان کی آواز: اتنے میں نہ جانے کہاں سے قیامت برپا ہوئی! یوں لگا کہ جیسے وہ بے حس ہی نہیں اندھے اور بہرے بھی تھے جو ڈنڈوں سے ہمیں پیٹتے چلے جا رہے تھے، گھسیٹتے چلے جا رہے تھے اور ہماری ہڈیوں پسلیوں کے ٹوٹنے اور درد و کرب سے اٹھتی چیخوں کو وہ سن بھی نہیں پاتے تھے۔ اور خون میں لتھڑے جسموں اور اذیت میں کھلی رہ گئی آنکھوں کو دیکھ بھی نہ پاتے تھے۔ یہ یقین ہونے تک کہ ہم مر چکے ہیں، انہوں نے ہمیں پیٹا، گھسیٹا، ہمارے ہاتھ باندھے، گردنوں پر چھریاں پھیریں، پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو ذبح شدہ لاشوں پر گولیاں برسائیں۔ بس چند ہی لمحوں میں قہقہوں کی جگہ چیخ و پکار نے لی اور پھر چیخوں کی جگہ قبرستان کی خاموشی نے۔

۔ کٹ۔
منظر 12
وقت: شام
کردار: حسن بخش اور سو سے زیاد ہزارہ برادری کے لوگ

(سخت سردی میں کچھ لوگ احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہیں۔ لوگوں کے درمیاں دس تابوت پڑے ہیں جن میں سے ہر تابوت کے سرہانے کوئی عزیز مرد یا خاتون بیٹھے ہیں۔ ایک تابوت کے سرہانے درد سے نڈھال بوڑھے شخص حسن بخش کو فوکس کیا جاتا ہے برف باری سے ڈھک کر اس کی پلکیں اور بھنویں مزید سفید ہو گئے تھے۔ )

نوجوان کی آواز: میں بدنصیب! پیدا نہ ہو کر بھی بابا کے لیے تکلیف کا باعث بنتا رہا۔ پیدا ہو کر بھی انہیں سکون نہ دے سکا۔ اور پھر مر کر بھی انہیں کس کرب میں چھوڑ گیا۔ سردی کے نام سے کانپ جانے والے بابا زندگی میں دوسری بار سردی کو خاطر میں لائے بغیر سخت ترین سرد راتوں میں سڑک پر میری لاش کے سرہانے بت بنے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments