رچرڈسن کے مارشل لاء سے ایوب خان صاحب کی بادشاہت تک


جس خطے پر پاکستان واقعہ ہے، اس میں مارشل لاء کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آزادی سے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی۔ اپنے حال یا بے حالی کو سمجھنے کے لئے ماضی کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ 1942 میں برطانوی حکومت نے بالائی سندھ میں مارشل لاء لگا دیا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ پیر صبغت اللہ صاحب پگاڑا اور ان کے مرید حروں نے مسلح تحریک شروع کی ہوئی تھی۔ پیر صاحب پگاڑا اور انگریز حکومت کے اختلافات کی تاریخ پرانی تھی۔

پہلے 1930 میں انہیں آٹھ سال قید کی سزا ہوئی۔ ان پر بغیر لائسنس کے اسلحہ رکھنے کا الزام تھا۔ 1936 میں جب وہ رہا ہوئے تو انہوں نے حروں کی تعداد اور جمع شدہ اسلحہ میں اضافہ کرنا شروع کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت مسائل میں گھری ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پیر صاحب پگاڑا نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ تقدیر ہے کہ وہ سندھ کے بادشاہ بنیں گے۔ اکتوبر 1941 میں پیر صاحب دوبارہ گرفتار ہو گئے۔

کئی مرتبہ سندھ کے عوام بھی ان سرگرمیوں کا نشانہ بنے اور ان میں سے کئی قتل بھی ہوئے۔ ٹیلیفون کی لائنیں کاٹی گئیں۔ ریل گاڑیوں اور ریل کے پٹریوں اور سرکاری عمارتوں اور ملازموں کو نشانہ بنایا گیا۔ نہروں میں شگاف ڈالے گئے۔ صرف ایک ریل گاڑی میں حملے کے دوران 33 افراد ہلاک کر دیے گئے۔ شاید یہی وجہ تھی جب سندھ اسمبلی کے خفیہ اجلاس میں حروں پر پابندی کا قانون
Sind Suppression of Hur Outrages Act
منظور کیا گیا تو اس وقت سندھ اسمبلی میں اس کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی اور وزیر اعظم برطانیہ نے 4 جون 1942 کو پارلیمنٹ میں اس کا ذکر بھی کیا تھا۔ بہر حال جب بد امنی میں اضافہ ہوا تو یکم جون 1942 کو بالائی سندھ میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور جنرل رچرڈ سن اس مارشل لاء کے مائی باپ مقرر ہوئے۔ مارشل لاء سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے پیدا کردہ مسائل کا انبار چھوڑ کر رخصت ہوتا ہے۔ تین ماہ میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ مارشل لاء مثبت نتائج پیدا نہیں کر رہا۔

ان حالات کے دوران ستمبر 1942 میں مسلم لیگ سندھ کی کونسل کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں سندھ میں مارشل لاء ختم کروانے کی کوششوں کے بارے میں مشورہ کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ برطانوی حکومت کی مخبری اتنی مضبوط تھی کہ مارشل لاء کے بارے میں اس اجلاس کی حرف بحرف کارروائی حکومت کے پاس پہنچ گئی اور اب تک برٹش لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس اجلاس کی صدارت ایم اے کھوڑو صاحب کر رہے تھے۔ پہلے مارشل لاء کے متعلق کمیٹی کی کارگزاری اجلاس میں پیش کی گئی۔ اور ان کوششوں کا جائزہ لیا گیا جو کہ مسلم لیگ کی طرف سے کی جا رہی تھیں۔

جی ایم سید، جو کہ اس وقت مسلم لیگ کونسل کے ممبر تھے، کی طرف سے ایک قرارداد پیش ہوئی لیکن وہ خود اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ صدر اجلاس نے کونسل کو بتایا کہ اس مارشل لاء کے نفاذ کے لئے غیر قانونی طریقہ استعمال کیا گیا ہے اور ایک وکیل سے بھی رابطہ کیا گیا ہے مگر قائد اعظم محمد علی جناح کی رائے ہے کہ ہم پہلے گورنر سے مل کر مارشل ختم کرنے کا مطالبہ کریں۔ اگر یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا جائے تو وہ خود اس بارے میں وائسرائے سے بات کریں گے اور سیکریٹری آف سٹیٹ برائے ہندوستان کو لکھیں گے۔ اس طرح یہ ایک مضبوط مقدمہ بنے گا۔

ممبران کا نظریہ تھا کہ مارشل لاء نے حروں کی مہم کو تو ختم نہیں کیا لیکن بے گناہ لوگوں کو مارنا شروع کر دیا ہے۔ مارشل لاء حکام رشوت لے کر اپنی جیب گرم کر رہے ہیں۔ اور کئی با اثر لوگوں کی دعوتوں میں طوائفوں کا رقص دیکھ کر جی بہلا رہے ہیں۔ ایک ممبر نے کہا کہ مارشل لاء سے بہتر تو حروں کی حکومت تھی۔

صرف ایک ممبر تھے جو کہ بھرپور انداز میں مارشل لاء اور مارشل لاء کے افسران کی حمایت کر رہے تھے۔ اور وہ ممبر پیر علی محمد راشدی صاحب تھے۔ ان کے نزدیک جی ایم سید اور بعض اور ممبران حروں سے مل کر ساز باز کر رہے تھے۔ اور ان کا کہنا تھا کہ حقیقت میں مارشل لاء کی وجہ سے سندھ کے عام لوگوں کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ اور مارشل لاء سے پہلے جی ایم سید اور ان کے رفقاء خود مارشل لاء کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایک مرحلہ پر صدر صاحب نے پیر علی محمد راشدی صاحب کو کہا کہ آپ اپنے نمک کا حق ادا کر رہے ہیں۔ بہر حال جی ایم سید صاحب کی قرارداد منظور ہو گئی۔ سوائے پیر علی محمد راشدی صاحب کے باقی سب ممبران نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیر علی محمد راشدی صاحب پیر صاحب پگارا کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ اور جی ایم سید بعد میں سندھی نیشنلسٹ راہنما کے طور پر سامنے آئے۔

ہر کسی کو اپنی رائے کا حق حاصل ہے۔ اور یہ حق علی محمد راشدی صاحب کو بھی حاصل تھا۔ لیکن برٹش لائیبریری میں جو فائل موجود ہے، اس میں کچھ اور کاغذات بھی لگے ہوئے ہیں جو خفیہ رپورٹوں کی صورت میں لکھے گئے تھے۔ ان کاغذات پر نیچے علی محمد راشدی صاحب کے دستخط موجود ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ یہ خطوط حکومتی حکام کو لکھے گئے تھے لیکن ان کے اوپر اس شخص کا نام نہیں لکھا جسے خطوط لکھے گئے تھے۔ ان کے اوپر ”خفیہ“ لکھا ہوا ہے۔ ان رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علی محمد راشدی صاحب برطانوی حکومت کو مخبری کر رہے تھے۔

پہلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ میں ابھی بیماری سے صحت یاب ہوا ہوں۔ ایک دلچسپ دستاویز کا پہلا حصہ بھجوا رہا ہوں۔ دوسرا حصہ ابھی ٹائپ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک کاپی ینگ کو بھجوائی گئی ہے۔ [مسٹر ینگ اس وقت سندھ میں کمشنر پولیس تھے ]۔ اس پر کسی نامعلوم شخص کے دستخط ہیں اور لکھا ہوا ہے ”Acknowledged“

دوسری رپورٹ 23 ستمبر 1942 کو لکھی گئی تھی۔ اس میں لکھا ہے کہ آپ کے خط کا شکریہ میں اس دستاویز کا دوسرا حصہ بھجوا رہا ہوں۔ اس کو غور سے پڑھیں۔ مجھے امید ہے کہ کسی مرحلہ پر یہ دستاویز آپ کے کام آئے گی۔ اب دہلی سے کوئی کارروائی ہونی چاہیے۔ میں ٹنڈو محمد خان جا رہا ہوں اور واپسی پر حیدر آباد میں آپ سے ملاقات کروں گا۔ مجھے علم نہیں پیر پگارا کے متعلق کیا کیا جائے گا۔ عجیب افواہیں سننے میں آ رہی ہیں۔ جب تک اس شخص کو پھانسی نہیں دی جائے گی امن قائم نہیں ہو گا۔ اگر آپ میرے جیسے اشخاص کو اعتماد میں لیں تو ثبوتوں کی کوئی کمی نہیں۔ پھر نیچے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے کہ آپ کی زندگی کی یکسانیت کو توڑنے کے لئے کچھ کتابیں بھجوا رہا ہوں۔

بہر حال پیر علی محمد راشدی صاحب کی التجائیں رنگ لائیں اور 1943 میں پیر صبغت اللہ صاحب پگاڑا کو پھانسی دے دی گئی۔ ملک آزاد ہوا۔ لیکن پیر علی محمد راشدی صاحب کے عروج کا سفر جاری رہا۔ وہ سندھ اسمبلی کے رکن اور پھر صوبائی وزیر بنے۔ مرکزی کابینہ میں وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے۔ مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔ ایک صحافی اور مصنف کے طور پر نام کمایا۔

بہر حال ہماری قسمت میں کئی مارشل لاء لکھے تھے۔ ایک روز ایوب خان صاحب نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ اگر رچرڈسن کا مارشل لاء حلال تھا تو ایوب خان صاحب کا مارشل لاء حرام کس طرح قرار دیا جا سکتا تھا۔ علی محمد راشدی صاحب اس وقت فلپائن میں پاکستان کے سفیر تھے۔ انہوں نے ایوب خان صاحب کو لکھا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کی بنا پر میرا مشورہ ہے کہ ملک کو ایک باپ کی ضرورت ہے۔ اس لئے مناسب ہو گا اگر پاکستان پر اپنی موروثی بادشاہت نافذ کر دیں۔
[ڈان 18 اپریل 2014 ]

بھٹو صاحب نے اپنی کتاب
If I am assassinated
لکھا ہے کہ ایوب خان صاحب بادشاہت کی یہ تجویز پڑھ کر سنجیدہ بھی ہو گئے۔ اور ان پر اور نواب آف کالا باغ پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی تاکہ اس شاندار تجویز کا جائز لیا جائے۔ اس کمیٹی نے جلد ہی رپورٹ دی کہ اس معاملہ کو بھولنا ہی بہتر ہو گا۔ ایوب خان صاحب نے خندہ پیشانی سے کمیٹی کی رپورٹ تسلیم تو کر لی لیکن یہ بھی لکھا کہ یہ تجویز بالکل ہی خلاف عقل تو نہیں تھی۔

جب ایوب خان صاحب اقتدار کی بلندیوں سے گر رہے تھے اور ایوان صدر سے گوشہ گمنامی میں منتقل ہو رہے تھے، کیا اس وقت علی محمد راشدی صاحب نے کوئی خواب دیکھی تھی؟ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments