میرے مرشد کی لن ترانیاں


میرے مرشد کریم کا تازہ تازہ فرمان مارکیٹ کی زینت بن چکا ہے، فرماتے ہیں کہ قرآن کا حکم ہے کہ دوسروں کے گناہوں اور عیبوں پر پردہ ڈالو، میرے مرشد کا کیا کہنا؟ ”میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو“ میرے مرشد کی فطرت کا خاصہ ہے، وقت پڑے تو حلال کو حرام اور ضرورت ہو تو اگلے ہی لمحے اسی حلال کو حرام کو قرار دینا بھی انھی کو زیبا ہے بلکہ اس خصوصیت کے جملہ حقوق میرے مرشد کے نام ہیں، میرا مرشد دن کو رات کہے تو سب پر لازم ہے کہ وہ اسے رات کہیں، اگر کسی نے دن کہنے کی کوشش کی تو مرشد کے چیلے اس کی ماں بہن ایک کر دیں گے، اگرچہ جسم ناتواں میں تاب تو نہیں لیکن جرات کرتے ہوئے مرشد کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، چونکہ ہم غریبوں کے پاس نذرانے تو ہیں نہیں لہذا رہ سہ کر عرضی ہی پیش کر سکتے ہیں سو کیے دیتے ہیں۔

مرشد کریم سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ دوسروں اور خصوصاً رہنماؤں کے گناہوں یا عیبوں پر پردہ ڈالو، کیونکہ اسلام مسلمان قوم کی قیادت کسی بھی کمزور کردار کے مالک کے ہاتھوں میں نہیں سونپتا بلکہ اس کے لیے ایک کڑا معیار طے کرتا ہے، جو اسلام ایک گواہ کے لیے بھی باقاعدہ معیار طے کرتا ہے تاکہ اس کی گواہی سے کسی کو بیجا تکلیف نہ ہو کیسے ممکن ہے کہ وہ اسلام ایک پوری قوم کی قیادت کسی ایسے ویسے کو سونپ دے اور وہ کہتا پھرے کہ گناہ کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور ان پر پردہ ڈالو، جناب یہ ناممکن ہے، لہذا مہربانی کریں جو کہنا کہیں لیکن خدارا اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اسلام کی غلط تشریح مت کریں۔

لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ آپ نے صرف یہاں ہی قرآن مجید کا غلط حوالہ نہیں دیا بلکہ اپنے شہرہ آفاق دھرنوں کے دنوں کی ہر شام اپنی ہر تقریر میں آپ نے بڑے دھڑلے سے کہا کہ ”اللہ قرآن میں کہتا ہے“ اور اس کے بعد آپ نے جو کہا وہ قرآن مجید میں نہیں تھا، ہم تب بھی چیختے رہے کہ مرشد غلط کہہ رہے ہیں لیکن ہمارے جیسے چھوٹے قلمکاروں کی کسی نے نہیں سنی، اب جبکہ پاکستان بھر میں آپ کی غلط بیانیوں پر احتجاج ہوا ہے تو سوچا ایک بار پھر یاددہانی کرا دیں کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جیسا آپ نے فرمایا۔

البتہ قرآن مجید میں یہ ضرور لکھا ہوا ہے کہ دوسروں کی عیب جوئی نہ کرو، طعن و تشنیع سے پرہیز کرو، دوسروں کی ٹوہ نہ لگاؤ، کسی کا تمسخر مت اڑانا، بدگمانی نہ کرنا، کسی کی غیبت مت کرنا، احسان کا بدلہ احسان سے دینا، صدقات وغیرہ کی رقوم کی خود مت کھانا، دوسروں کے عیبوں پر پردہ مت ڈالنا وغیرہ، لیکن مرشد یہاں بھی معاملہ آپ کے دہرے معیار کا ہے، آپ کو عیب جوئی نہ کرنے والا فرمان اس وقت یاد کیوں نہیں آیا جب آپ جب خود دوسروں کو عیب جوئی کر رہے تھے؟

آپ کو اس وقت کیوں بھول گیا تھا کہ کسی کی جاسوسی کرنا اور ٹوہ لگانا منع ہے جب آپ سکرینوں پر کہتے تھے کہ ایجنسیاں جاسوسی کرتے ہیں اور میری اجازت سے کرتی ہیں، دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والی آیات و احادیث اس وقت آپ کے حافظے سے کیوں اتر گئی تھیں جب آپ نے مدد مانگنے آنے والی خاتون کی ویڈیو کو چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے کے لیے اپنے دوست کے چینل پر نشر کرائیں تھیں؟ غیبت کے ممنوع ہونے کا دھیان آپ نے وقت کیوں نہیں رکھا جب آپ بند کمروں میں کسی کو نا اہل کرنے کے منصوبے بناتے تھے اور منہ پر کہتے کچھ اور جبکہ بند کمروں میں کرتے کچھ اور تھے؟

ہم نے مانا کہ اسلام کہتا ہے کہ کسی کا تمسخر نہ اڑاؤ لیکن آپ نے اس بات کا خیال اس وقت کیوں نہ رکھا جبکہ آپ ایک بے بنیاد کالم (جس کا لکھنے والا خود اس کی تردید کرچکا ہے ) کی بنیاد پر کسی کو ڈیزل کہتے تھے، گھر کی خواتین واقعی معزز ہوتی ہیں لیکن اگر آپ اس بات کو مانتے تھے تو آپ کے چیلے مرید جلسوں کی میں کھڑی خواتین کو بوتلیں کیوں مارتے تھے اور سوشل میڈیا پر غلیظ ٹرینڈ کیوں چلاتے تھے جن کی تنخواہیں تک آپ کی منظوری سے جاری ہوتی تھیں؟

جھوٹ بولنا گناہ ہے لیکن آپ نے یہ بات اس وقت کیوں فراموش کی جب رجیم چینج کا ڈرامائی جھوٹ ”Let us play with it“ جیسے شہرہ آفاق تھیٹر کی زینت بنا؟ کسی پر الزام لگانا واقعی منع ہے لیکن اگر آپ کو خود بھی اس کا یقین ہے تو سیاسی مخالفین پر الزام کیوں لگائے جن کے جھوٹا ہونے پر دیار غیر میں جرمانے بھی بھرے؟ قرآن میں تو لکھا ہے کہ عدل کرو اور سچ بولو لیکن آپ تو کہتے تھے کہ قوم کو جھوٹ بول کر بیوقوف بناؤ۔

میرے سوہنے مرشد! جو جی میں آئے کیجیے لیکن خدارا مذہب کو اپنی ذاتی پوشاک مت بنائیں کہ جب جی چاہا پہن لی، جب جی چاہا اتار لی، جب جی چاہا پھاڑ دی اور جب جی چاہا پیوند لگا لیا اور وہ بھی اپنی مرضی کا، جناب یہ اسلام ہے جس کی حدود و قیود اللہ اور اس کے رسول نے طے کر دی ہیں، اب کسی کی سوشل میڈیا ٹیم اور نہ ہی کسی کے ذاتی قومی اور بین الاقوامی تعلقات ان حدود کو مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں رد و بدل کر سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments