عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں


خاک کے خمیر میں ظلم اور رحم کی حدت کے ساتھ، جب جذبات کی آمیزش کی گئی تب قرطاس کائنات پر آدمیت کا ظہور ہوا اور اس کا مسکن جنت قرار پایا۔ انسان ظلم کے حصار میں آ کر ظالم ٹھہرا اور جنت سے زمین پر ایسے پھینک دیا گیا، جیسے ٹوٹا تارا آسمان سے زمین کی طرف گرتا ہے۔ دوبارہ مہ کامل بننے کے لیے رحم کو ظلم پر حاوی کرنا لازم تھا۔ آدمیت کی اس کوشش میں ظلم اور رحم کے درمیان جنگ شروع ہوئی، اور آدمیت تقسیم ہو کر طبقات میں بٹ گئی۔

کوئی عالمی طاقت کا روپ اختیار کرتے ہوئے دنیا کے منظر نامہ پر چاند کی مانند چھا گیا تو کوئی غریب محکوم ٹھہرا۔ عالمی طاقت نے خود کو غریب کا حاکم قرار دیتے ہوئے محکوم کو دبانا شروع کر دیا، تاکہ وہ طاقت حاصل نہ کر پائے۔ دباؤ کے نتیجے میں شعور کا جنم ہوا، جس نے محکوم کو ترقی کی راہ دکھائی۔ اسی راہ پر چلتے ہوئے محکوم سیاست کے میدان میں ذوالفقار علی بھٹو، کاروبار میں شاہد خان، تعلیم میں ملالہ یوسف زئی، فزکس میں عبدالسلام، کیمسٹری میں عبدالقدیر خان، صحافت میں کامران خان، کھیل میں عمران خان، بابر اعظم، اور انسانی خدمت کے میدان میں ایدھی اور امجد ثاقب بن کر نکلے۔ ان ٹوٹے ہوئے تاروں کی کوشش، محنت اور قربانیوں کو دیکھ کر حاکم سہم گئے ہیں کہ کہیں یہ مہ کامل کی صورت عالمی عنبر پر چمکتے ہوئے ہماری چمک ماند نہ کر دیں۔

رحم کو جب عبدالستار ایدھی جیسے جانباز سپاہی ملے تو وہ ظلم پر حاوی ہونے لگا۔ اس معاملہ کو دیکھ کر عزازیل سہم گیا اور محو حیرت ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس چاند کو اس نے تارے کی مانند جنت سے توڑا تھا، وہ پھر سے مہ کامل بن کر وہی مقام حاصل نہ کر لے۔

موجودہ وقت سائنسی زمانہ ہے۔ انسان نے اس میدان میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ فضاؤں سے خلاؤں تک کا سفر کرتا ہوا چاند پر پہنچا اور اب مریخ کی دھرتی کو مسکن بنانے کی جدوجہد میں مشغول ہے۔ بلین سال قبل چمکنے والے ستاروں کی تصاویر حاصل کر کے اپنی کائنات سے نکل کر دوسری دنیاؤں میں چاند کی صورت چمکنے کے خواب کی تعبیر میں سرگرداں ہے۔ اس نے ایسے ہتھیار بنا ڈالے ہیں کہ دشمن کو ختم کرنے کے لیے ایک انچ بھی سفر کی ضرورت نہیں۔ گھر بیٹھے جو چاہے کر سکتا ہے۔ مشت بھر خاک کی اتنی ترقی دیکھ کر کائناتی ستارے محو حیرت ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اور سہم گئے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 65 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments