کراچی کا مقدمہ


ایک تصویر میں سنۂ 1955 کا نیویارک ہے، آج کا نیو یارک اس سے بھی زیادہ ترقی کرچکا ہے، سنۂ 1955 کا لندن بھی خاصا ترقی کرچکا تھا، ہاں مگر ایشیا میں کراچی بھی اسی رفتار سے ترقی کر رہا تھا جب سنۂ 1980 میں امریکی بزنس جریدے نے آئندہ معاشی طور پر دنیا کی ترقی میں تین شہروں کی رفتار کا موازنہ کیا تھا، جب سنۂ 60 کی دہائی میں امریکی سفارت کار جان ہنسن کا کہنا تھا کہ میں کراچی کی ترقی اور انتظام کو دیکھ کر حیران ہوں کہ آنے والے دنوں میں یقیناً دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہروں میں سے ہو گا۔ دوسری تصویر میں سنۂ 1960 کا کراچی ہے۔

سنۂ 1955 کا نیویارک ہے
سنۂ 1955 کا نیویارک ہے

سنۂ 1960 کی دہائی کا کراچی دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا، اس وقت دنیا کا پر امن ترین شہر تھا، دنیا جہاں کے سفارت کار، سیاح اور ہپی، شہر میں کھلے بندوں پھرتے تھے۔ کراچی میں اس وقت ہوٹلز، ڈسکوز اور بازار آباد ہوتے تھے، کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوں میں سے ایک گنا جانا تھا، پی آئی اے پاکستانی قومی ائر لائنز دنیا کی چار بڑی ائرلائنز میں آتی تھی۔ یورپ، امریکہ، مشرق بعید، عرب ممالک سوویت یونین، جاپان اور ہندوستان جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے، کیونکہ کراچی ایشیا کا گیٹ وے کا درجہ رکھتا تھا، دنیا بھر کے ٹرانزٹ فلائٹس کے مسافر کراچی کے بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے تھے، کوئی جانتا تھا کہ اس وقت کراچی شہر میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلتی تھیں، حکومت نے انڈر گراؤنڈ ٹرین کے لئے شہر میں کھدائی مکمل کروا لی تھی اور یوں کراچی ایشیا کا پہلا شہر بننے والا تھا، جس میں میٹرو کی سہولت ہوتی۔

سنۂ 1960 کا کراچی
سنۂ 1960 کا کراچی

کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا کیونکہ اس کی روشنیاں رات کو دن میں بدل دیتی تھیں، دنیا بھر کے تمام سفارت کار یا مسافر اور سیاح کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے تھے، اس وقت کراچی کے ساحل بھی لاجواب تھے، یورپ و امریکا کے گورے ہفتہ اور اتوار کا دن کراچی کے ساحل کی گرم ریت پر لیٹ کر گزارتے تھے، غیر ملکی سیاح کراچی کے ساحل کے ساتھ ساتھ سائیکل بھی چلاتے تھے، راتوں کو مزدور پارک میں سو جاتے تھے، کراچی میں سنۂ 1960 میں ڈرائیو ان سینما ہوتے تھے، سوچو کیسا تھا میرا شہر، اس وقت کراچی میں دنیا بھر سے بحری جہاز آتے تھے، ان بحری جہازوں کے ذریعے ہزاروں مسافر کراچی آتے تھے۔ کراچی خطے کا جنکشن بھی تھا۔ یورپ سے لوگ ٹرین کے ذریعے استنبول آتے تھے۔ استنبول سے تہران، تہران سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی آتے تھے۔ کراچی میں رک کر ٹرین کے ذریعے انڈیا چلے جاتے تھے اور وہاں سے سری لنکا ”نیپال اور بھوٹان“ تک پہنچ جاتے تھے۔

کراچی میں اس عہد تک دنیا کی جدید ترین مصنوعات ملتی تھیں، اس وقت دنیا کے معروف ترین مہنگے برانڈز کے ٹیپ ریکارڈر، ریڈیو، رنگین ٹی وی، ہیو بائیکس کراچی سے ملتی تھیں، کراچی بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتا تھا۔ جاپان، یورپ اور امریکہ سے مہنگی گاڑیاں کراچی آتی تھیں اور کراچی کے معروف تاجر و بزنس مین باقاعدہ بولی دے کر یہ گاڑیاں خریدتے تھے، کراچی کا ریلوے اسٹیشن اس وقت دنیا کے بہترین ریلوے اسٹیشنوں میں شمار ہوتا تھا۔

ریل گاڑیاں بھی جدید، صاف ستھری اور آرام دہ تھیں، اور ٹرینوں کے اندر کھانا بھی انتہائی صاف ستھرا اور معیاری ملتا تھا۔ پاکستان کے زیادہ تر سفارتی عملہ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں قیام کے منصوبے بناتا تھا۔ کراچی میں پراپرٹی خریدنا بھی سب کی خواہش ہوتی تھی، کیونکہ کراچی شہر پورے پاکستان کے مقابل سب سے زیادہ صاف ستھرا تھا، فضا بھی بہت اچھی تھی، سردیوں اور گرمیوں میں دونوں میں ہی درجہ حرارت معتدل رہتا تھا۔

کراچی میں موجود حکومتی عہدیدار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ ہوتے تھے۔ کراچی میں لوگ بہت مہمان نواز تھے، حالانکہ ویسے شہروں کے بارے میں جو گمان رکھا جاتا ہے، اس عہد کا کراچی ایسا نہیں تھا، کراچی شہر میں کسی قسم کی ٹینشن اور خوف نہیں ہوتا تھا، کراچی کے کسی سفارتخانے کے سامنے سیکیورٹی گارڈ یا پولیس نہیں ملتی تھی۔ کراچی میں سفارت خانے کا عملہ ہی خود سفارت خانے کا گیٹ کھولتا تھا، پاکستانیوں کے لئے کسی ملک کے پیشگی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، پاکستانی شہری جہاز میں سوار ہوتے تھے، یورپ کے ممالک میں اترتے اور انہیں ائرپورٹ پر ویزا مل جاتا تھا۔

اس کی وجہ بہت دلچسپ تھی، کیونکہ پاکستان اس وقت ایک ایسا ملک تھا جس میں صرف ان لوگوں کو پاسپورٹ دیا جاتا تھا جو واقعی جینوئن مسافر ہوتے تھے۔ پاکستانی شہریوں کو پاسپورٹ کے حصول کے لئے اپنے خوش حال ہونے، صاحب جائیداد ہونے اور سفر کی وجوہات کے ثبوت دینا پڑتے تھے چنانچہ پاکستان کے جس شہری کے پاس پاسپورٹ ہوتا تھا، اس کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ صاحب حیثیت جینوئن مسافر ہے لہٰذا بیرونی ممالک اسے ”آن ارائیول“ ویزا دے دیتے تھے۔

پاکستان کا معیار تعلیم پورے خطے میں بلند تھا، اس وقت یورپ، عرب ممالک، افریقہ، مشرق بعید، ایران، افغانستان اور چین کے طلباء تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان آتے تھے اور کراچی اور لاہور کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوتے تھے، امریکہ اور یورپ کے پروفیسر روزگار کے لئے پاکستان کا رخ کرتے تھے، کراچی شہر میں ایک ہزار کے قریب غیر ملکی ڈاکٹر، طبیب اور پروفیسر تھے۔ پاکستان کا بینکنگ سسٹم جدید اور فول پروف تھا۔

بجلی، ٹیلی فون اور گیس کا انتظام بہت اچھا تھا، سیوریج سسٹم شاندار تھا، کراچی میں بارش کے آدھے گھنٹے بعد سڑکیں خشک ہوجاتی تھیں، روز گار کے مواقع عام تھے، فیکٹریاں لگ رہی تھیں اور مقامی پروڈکشن کی ایکسپورٹ ہو رہی تھی، اس وقت ٹی وی نیا نیا آیا تھا تو کراچی کی چھتوں پر اینٹینوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی تھیں۔ اس زمانے میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے عہدیدار کراچی میں امریکی ایمبیسی آتے تھے اور پاکستانی حکومت کو قرضہ لینے پر آمادہ کرتے تھے۔ اس وقت پاکستانی وزیر خزانہ کہتے کہ ”ہمیں قرضے کی ضرورت ہی نہیں“ ۔ ہم قرضہ کیوں لیں؟ (آج ہم پوری دنیا میں بھیک مانگنے کے لئے مشہور ہیں )

یہ سب اس عہد کا قصہ ہے جب امریکی سفیر جان ہنسن پاکستان میں تھا، یہ اس کی ڈائری کی یادداشتیں ہیں، وہ کہتا تھا کہ ”ہم سفارت کار اس وقت ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کراچی 1980 ءتک پہنچ کر دنیا کا سب سے بڑا شہر ہو گا یا لندن اور نیویارک؟“

پھر اس کراچی نے مذہبی جماعتیں دیکھی، پیپلز پارٹی و نواز شریف دیکھے، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کو بھی دیکھا، شیعہ و سنی منافرت پر مبنی مسلکی تنظیمیں دیکھیں، بس تقسیم در تقسیم لسانی، مذہبی، مسلکی، سیاسی بنیادوں پر یہاں رہنے و بسنے والوں نے صرف اپنوں کے خون کی نہریں دیکھیں، پھر وہ کراچی جو دنیا کا شاندار ترین شہر بننے جا رہا تھا، تین سال پہلے دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں میں شامل ہو گیا تھا۔

کراچی میں پچھلے کئی برسوں میں صرف چند سو غیر ملکی آئے ہیں اور یہ بھی سرکاری مہمان تھے اور انہیں بھاری سیکیورٹی میں ائر پورٹ تا ہوٹل لایا جاتا ہے، پھر یہی کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں بھی شامل ہو چکا ہے، اس کے ساحل، فضا اور سڑکیں آلودگی کی انتہاء کو چھونے لگے، بارشوں کے بعد کراچی میں گھر سے باہر نکلنا محال ہونے لگا، کراچی شہر میں آج اسٹریٹ کرائم کی صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے لوگ ہاتھ میں سستا موبائل، جیب میں اضافی پرس جس میں تین چار ہزار روپے سے زائد نہ ہوں اور کلائی پر سستی سی گھڑی پہن کر گھر سے نکلتے ہیں اور انہیں جس چوک پر ”سب کچھ ہمارے حوالے کردو“ کا حکم ملتا ہے، یہ چوں چرا کیے بغیر اپنی گھڑی، اپنا پرس اور اپنا موبائل حکم دینے والے کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن یہ کراچی والے اس کے باوجود مارے جاتے ہیں کیونکہ لٹیرے صرف مال ہی نہیں چھینتے بلکہ انہیں کراچی میں آج جان لینے کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے۔

کراچی شہر میں عام بڑی شاہراہوں پر بھی سفر محال ہے، گاڑیاں چھیننا موٹر سائیکل چھیننا یا کسی بھی شخص کو اغوا کرلینا عام سی بات ہے۔ کراچی میں لاشوں کا بھی موسم آتا ہے، اور جب یہ موسم آتا ہے تو تو ہزار ہزار نعشیں گر جاتی ہیں، اسپتالوں اور قبرستانوں میں لاشیں رکھنے کی گنجائش نہیں بچتی، میرا شہر ہزار قسم کے مافیاز اور بھتہ گیروں میں تقسیم ہے، سارے معروف مذہبی گروہ، لسانی گروہ سیاسی گروپ کے ماتحت چلنے والے یہ مافیاز اور گروہ قانون اور حکومت سے مضبوط ہیں، حکومت کسی گروپ کے اشتہاری کو گرفتار کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔

ربیع الاول اور محرم الحرام کے مہینے میرے شہر پر خوف بن کر آتے ہیں، میرے شہر کے تاجر اور صنعت کار حکومت کی بجائے مافیاز کو ٹیکس دیتے ہیں، اور یہ جب تک ٹیکس دیتے رہتے ہیں، ان کا مال، ان کا خاندان اور ان کی فیکٹریاں محفوظ ہیں، پولیس والے میرے شہر کے بجائے دوسرے شہروں کے ہیں، وہ صرف یہاں کمانے آتے ہیں، اگر یہ تاجران اپنا مقدمہ ان مافیاز کو دینے کے بجائے پولیس کو دیں گے، تو باقی زندگی انہیں رو رو کر گزارنی پڑے گی۔

میں نے ماضی کے کراچی کا بتا دیا ہے، میرے کراچی کو ایک قوم پرست جماعت نے برباد کر دیا، اس قوم نے ایک اور قوم پرست جماعت کی بنیاد ڈال دی، میرے کراچی کو مذہب کے نام پر برباد کر دیا گیا، آج کراچی ایک ناسور بن چکا ہے اور اس ناسور سے آہستہ آہستہ خون اور پیپ ٹپک رہی ہے اب کوئی اس ناسور پر پٹی رکھنے کے لئے تیار نہیں، با اختیار صاحبان اس برباد ہوتے شہر کا نظارہ کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس شہر کو اسی طرح برباد ہونے دیں گے؟

اب بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں، ایم کیو ایم کے جتنے دھڑے بھی ہوں ان سے کوئی امید نہیں ہے، پیپلز پارٹی سندھ کی صوبائی جماعت ہے، مگر مجھے اس سے بھی بہت امید نہیں، عمران خان نے وزارت اعظمی سنبھالنے کے بعد کراچی کو اربوں کا فنڈ دینے کاجو وعدہ کیا تھا وہ بھی وفا نہ ہوا، لوگوں کو حافظ نعیم سے امیدیں ہیں، مجھے حافظ نعیم کے سیاسی منشور سے تو کبھی اتفاق نہیں ہوسکا، مگر مجھے لگتا ہے کہ شاید کراچی والوں کے پاس اس وقت سب سے آخری درجے کا آسرا یہی ہے۔

کیونکہ میرے شہر کو برباد کرنے والے اس ملک کے سب سے طاقتور لوگ ہیں، اور میرے جیسا عام شہری ان طاقتور حکمرانوں سے کیسے پوچھ سکتا ہے؟ اور اگر پوچھ بھی لے تو کون اس کا جواب دے گا، کیونکہ ”غریب“ ملکوں میں اکثر با اختیار لوگ جواب نہیں دیا کرتے بلکہ یہ سوال کے جواب میں سوال پوچھتے ہیں یا سوال کرنے والوں کو اٹھا لے جاتے ہیں، اور سوالوں کی اس تکرار میں بے بسی کے اندھیرے گہرے ہو رہے ہیں، بالکل میرے شہر کی فضاؤں کی طرح، جہاں میرے جیسے شہری خوف میں جی رہے ہیں۔ ہائے کاش کوئی انہیں اس خوف سے نکال دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments