مریم نواز ”وزارت عظمیٰ کی امیدوار پارٹ۔ 2


2017 ء میں نواز شریف کی حکومت جن حالات ختم کی گئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو سیاسی منظر سے ہٹا کر 2018 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا سائز کم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی گئی۔ اسی طرح 12 اکتوبر 1999 ء کے ”پرویزی مارشل لاء میں بھی مسلم لیگ (ن) کے پر کاٹنے کی پوری کوشش کی گئی مسلم لیگ نون کی صفوں میں کوئی بڑی دراڑ پیدا نہیں ہو سکی جس سے مسلم لیگ نون کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکے نواز شریف نے اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ان کی صاحبزادی مریم نواز ان کی جیل کی ساتھی تو تھیں لیکن باپ بیٹی کو جیل میں ملنے کی اجازت نہ تھی۔

نواز شریف تو جیل کی کال کوٹھری ”حجلہ عروسی“ سمجھ کر وقت گزارتے رہے۔ پرویز مشرف اور پھر عمران خان کے دور میں ان کو جیل یاترا کرائی گئی نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کی قید اٹک قلعہ میں جرات و استقامت سے جھیلی اس دوران جیل میں ان کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تھی۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے منتخب وزیر اعظم ہر روز اپنی بہادر بیٹی مریم نواز کے ساتھ اسلام آباد میں احتساب عدالت میں کھڑے ہو کر ان تمام قوتوں کو جو انھیں سیاسی میدان میں شکست نہیں دے سکتیں، یہ باور کرانے کی کوششیں کرتے رہے کہ وہ جیل جانے سے خوفزدہ ہیں اور نہ ہی ان کے اعصاب اس قدر کمزور ہیں کہ وہ سرنڈر کر دیں۔

مریم نواز اس وقت مشکل ترین وقت میں اپنے باپ کے ساتھ ثابت قدمی سے نہ صرف کھڑی رہیں بلکہ انھیں اپنی سیاسی عمر سے بڑے مشورے بھی دیتی رہیں۔ عملاً مریم نواز نواز شریف کی سیاسی مشیر بن گئیں نواز شریف کے بیشتر سیاسی فیصلوں میں ان کی رائے شامل ہوتی ہے۔ پارٹی کے اندر چند سینئر مسلم لیگیوں کے لئے یہ صورتحال کبھی قابل قبول نہیں رہی لیکن زمینی حقائق ہیں کہ مریم نواز ہی مسلم لیگ نون کی کرتا دھرتا ہیں۔ مریم نواز کے انداز سیاست سے ان کی اپنی پارٹی کے بعض سینئر لیڈروں کو بھی تحفظات ہیں چونکہ مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے لئے حوصلے و استقامت کا پہاڑ ہیں۔

مریم نواز اپنے سیاسی و غیر سیاسی مخالفین سے ”چومکھی“ لڑائی لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہماری عدالتی تاریخ میں مریم نواز کے بیانات غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے۔ انھوں نے تین روز تک عدالت میں چار چار گھنٹے کھڑے ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔ مریم نواز نے ابتدا میں نواز شریف کے ہمراہ پورے ملک میں جلسوں سے خطاب کیا اور متبادل قیادت کے طور پر سیاسی افق پر نمودار ہوئیں اور کہا ہے کہ ”نواز شریف کی بیٹی ہونا ہی میرا قصور ہے۔

انھوں نے کہا کہ نواز شریف کی بیٹی ہونا میاں صاحب کی کمزوری نہیں بلکہ ان کی طاقت ہے اور ہر آزمائش میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ” مریم نواز واقعتاً مجمع کی لیڈر بن چکی ہیں۔ ان کے جلسوں میں عوام کا سمندر امڈ آنا اور جوشیلے انداز میں نعرے بازی کرنا دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے۔ نواز شریف نے جہاں سیاسی خلا ء کو پر کرنے کے لے شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنا یا تھا۔ اب پارٹی کو لیڈ کرنے کے لئے مریم نواز کو آگے لا رہے ہیں۔ مریم نواز میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو ایک لیڈر میں ہونی چاہئیں۔

سر دست وہ شہباز شریف کی جگہ تو نہیں لے رہیں لیکن شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز پر مشتمل جو مثلث بن گئی ہے۔ اس میں مریم نواز کو نمایاں پوزیشن حاصل ہو گئی ہے۔ ویسے بھی اس وقت پارٹی امور پر مریم نواز کی گرفت پائی جاتی ہے۔ شہباز شریف کے صدر مسلم لیگ (ن) بننے کے باوجود کچھ فیصلے مریم نواز اپنے والد کی وساطت سے پارٹی سے منوا لیتی ہیں۔ مریم نواز کے جلسوں میں جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں جماعت میں مجمع اتنا ”چارجڈ“ نہیں ہوتا۔

مریم نواز لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئی ہیں کہ وہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی کے لئے قوت کا باعث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عوام میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ مسلم لیگ نون کے جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور پرجوش انداز، اس بات کا غماز ہے کہ آئندہ انتخابات میں مریم نواز مرکزی رول مل رہا ہے۔ مریم نواز بھی اپنے باپ کی طرح غیر لچک دار رویہ رکھنے والی جارحانہ سیاست کرنے والی خاتون ہیں جن کے جارحانہ رویے سے بعض اوقات سیاسی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی رہی ہیں لیکن مجموعی طور پر مریم نواز نے اپنے آپ کو ایک مضبوط سیاست دان ثابت کیا ہے جو اپنے باپ کی جگہ بخوبی لے سکتی ہیں۔

گو وہ بے نظیر بھٹو تو نہیں بن سکیں، اور نہ ہی اس وقت انہیں بے نظیر بھٹو جیسے حالات کا سامنا ہے۔ لیکن جس طرح انہیں ”مقتل“ میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی بے نظیر بن جائیں گی جن کے گرد پارٹی کی سیاست گھومے گی۔ تاہم انھیں مسلم لیگ نون کی قیادت سنبھالنے کے لئے اپنے ”انکلز“ سے جان چھڑانے کی بجائے ان سے مشاورت اور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ مریم نواز کے گرد جو نو وارد مسلم لیگی اکٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جگہ بنانے کے لئے انھیں ان ”انکلز“ سے دور کر رہے ہیں جنھوں نے پوری زندگی نواز شریف کو ملک کا بڑا لیڈر بنانے میں صرف کر دی۔

سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 13 جولائی 2018 ء کو گرفتاری پیش کرنے کے بعد اسی رات اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا جبکہ کیپٹن (ر) محمد صفدر پہلے ہی گرفتاری پیش کر کے اڈیالہ جیل پہنچ چکے تھے۔ نواز شریف کو قیدی نمبر 1421 اور مریم نواز کو قیدی نمبر 1422 الاٹ کیا گیا نواز شریف کم و بیش ڈیڑھ سال سے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں اور انصاف کے حصول کے لئے عدلیہ کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا نواز شریف کو اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی علالت اور رحلت کے ایام میں جو اذیت اٹھانی پڑی اسے انہوں نے ”مرد آہن“ کی طرح برداشت تو کر لیا لیکن اس سانحہ نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز جو 13 جولائی 2018 ء سے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید تھے۔ وہ 68 روز اڈیالہ جیل میں رہے جب کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر 72 روز تک اڈیالہ جیل میں ”سرکاری“ مہمان رہے۔

اس ”مرد میدان“ نے بھی جیل میں بی کلاس لینے سے انکار کر دیا کوٹ لکھپت کی تاریخی جیل میں نواز شریف کو قیدی نمبر 4470 الاٹ ہوا محمد نواز شریف کو احتساب عدالت نے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں 7 سال قید 25 ملین روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ طویل عدالتی جنگ میں نواز شریف نے حوصلہ ہارا اور نہ ہی ہتھیار ڈال کر این آر او مانگا، بلکہ تھکا دینے والی طویل عدالتی لڑنے کے لئے ہر روز صبح 5 بجے اٹھ کر احتساب عدالت پہنچتے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کسی سیاست دان نے اس قدر پیشیاں بھگتی ہوں گی۔

محمد نواز شریف سے ہر جمعرات کو پارٹی لیڈروں سے ملاقات سے ملاقات کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ مسلم لیگی رہنماؤں کا اپنے قائد محمد نواز شریف ملاقات کے بعد ”مورال“ بلند ہو جاتا ہے کیونکہ وہ نواز شریف کا حوصلہ دیکھ کر اپنا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور عوام کے لئے ”قطب مینار“ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے ملاقات کے بعد ہمارے حوصلے ہمالیہ کی طرح بلند ہو جاتے ہیں۔

مریم نواز اپنے والد میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد مزید ”جارحانہ“ موقف اختیار کرتی تھیں مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کا سینئر نائب صدر اور پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کیے جانے پر پارٹی میں دوسرے درجے کی تجربہ کار قیادت میں اضطراب کا اظہار کیا گیا ان کا کہنا ہے کہ اس تقرری کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور اس تقرری سے مریم نواز پارٹی میں اپنے والد نواز شریف اور چچا شہباز شریف کے بعد تیسری طاقتور شخصیت بن گئی ہیں۔
(ختم شد) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments