بچے کے دل کی دھڑکن یا موسیقی کا انترا مکھڑا


سا رے گا ما پا دھا نی سا رے
سا سا سا رے ما ما پا دھا نی ی ی

سی ٹی جی گراف مدفن سے نکلنے کا وقت آ پہنچا۔ سی ٹی جی سیکھتے ہوئے ایسا لگا کہ کلاسیکی موسیقی کے داؤ پیچ ہیں۔ کس کو اونچا کہنا ہے، کس کو سرگوشی سا، کس کو کھینچنا ہے، کس کو جلدی سے۔

پیٹ میں بچے کے دل کی دھڑکن جو پل پل بدلتی ہے اور اسی طرح کاغذ پہ بھی۔ سی ٹی جی گائنی ڈاکٹروں کے لیے انعام ہے اگر سیدھے سبھاؤ چلے اور ڈراونا خواب اگر پٹڑی سے اتر جائے۔

مشکل یہ ہے کہ سی ٹی جی گراف میں اس قدر تنوع ہے جیسے سڑک پہ چلتی ٹریفک۔ سڑک پہ لال پیلی بتی، درمیان میں لائن کھنچی، ہر طرف ٹریفک سائن مگر پھر بھی علم نہیں کہ چلتے چلتے کس طرف سے موٹر سائیکل رکشہ یا کوئی بھی گاڑی آئے اور گئے آپ، اگر بریک پہ مہارت نہ ہو تو حادثہ لازم۔ ہر روز سڑک پہ ٹریفک کی کہانی مختلف۔

اسی طرح سی ٹی جی کی بنیادی باتیں تو چار ہی ہیں، لیکن ان چاروں کا ظہور اس قدر تنوع کے ساتھ کہ سمجھ نہ آئے۔ ہن کیی کریے؟ سی ٹی جی بہت اچھی ہو یا بہت بری، دونوں مقام باعث مسرت کہ فیصلے میں کوئی مشکل نہیں۔ لیکن تب کیا کریں جب نہ اچھی ہو اور نہ بری؟

چار میں سے دو چیزیں اچھی نظر آئیں اور دو بری۔ ہن کیی کریے؟

ایک اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ جب سی ٹی جی اچھے اور برے کے درمیان جھول رہی ہو تب درست فیصلہ تب ہی ممکن ہے جب سی ٹی جی مشین مسلسل چلتی رہے، گراف نکلتا رہے اور ڈاکٹر سی ٹی جی مشین کے سرہانے بیٹھا رہے۔ خود فیصلہ کیجیے کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے؟

اول تو گراف پیپر موجود نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو دس منٹ سے زیادہ گراف نکالنے کی اجازت نہیں ہوتی کہ پیپر مہنگا ہے، آئے گا کہاں سے؟ جب گراف ہی نہیں نکلے گا تو پیچیدگیاں دیکھنے اور سیکھنے کو کہاں سے ملیں؟

یہی ہوا ہمارے ساتھ، یہی ہوتا ہے سب کے ساتھ۔ لکھ چکے ہیں ہم پہلے کہ نشتر ہسپتال میں سی ٹی جی مشین گراف کے بغیر چلتی اور ہم سی ٹی جی مشین کی آواز دم سادھے سنتے بالکل سا رے گا ما کی طرح۔ سب فیصلے اندازے کی بنیاد پہ ہوتے کہ ہاں اب آواز ہلکی ہو گئی شاید دل کی دھڑکن ٹھیک نہیں، لو اب تیز ہو گئی، ٹھیک ہو گئی بھئی۔

امتحان کا قصہ بھی سنا چکے کہ کیسے کتابوں میں چھپے گراف دیکھ دیکھ کر رٹا مارا اور وہی رٹا فر فر سنا کر امتحان پاس کیا۔ یقین جانیے امتحان پاس کرنے کا کوئی تعلق قابلیت سے نہیں، یہ صرف یادداشت کا ٹیسٹ ہے۔

امتحان پاس ہوا، ہولی فیملی ہسپتال میں آ کر اترے۔ نشتر ہسپتال سے حالات کچھ بہتر کہ ہر مریض کے حصے میں دس منٹ کا گراف ضرور آتا۔ ان دس منٹوں میں ہی فیصلہ ہوتا کہ اچھا یا برا؟ بچہ ٹھیک یا نہیں ٹھیک؟ اگر ٹھیک نہیں تو مزید چیک کرنے کے لیے اگلا کوئی ٹیسٹ موجود نہیں تھا۔ سی ٹی جی اچھی ہوتی تو ڈاکٹر کا چہرہ ہشاش بشاش ہو جاتا، بری ہوتی تو چہرے سے فکر مندی ٹپکنے لگتی۔ لیکن جان پہ تب بنتی جب نہ سرخ بتی جلتی نہ سبز، بس پیلی بتی جلتی اور ڈاکٹرز کا دل ہولا کر رکھ دیتی۔

ایسے ہی ہول ہول کر ہم تبوک جا اترے جہاں ملٹری ہسپتال میں گائنی ڈیپارٹمنٹ کے کٹ کھنے سربراہ متواتر چلتی بیس سی ٹی جی مشینوں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے، کسی خونخوار بلا کی طرح شکار کا خون پینے کو بے تاب۔

ہمیں لینڈ کرتے ہی ان کے ارادوں کی خبر مل گئی۔ پہلے جی چاہا واپسی کا ٹکٹ کٹوائیں۔ پھر سوچا نہیں بھئی ایسے تو نہیں، جنگ کے بغیر ہار کا کیا مزا؟ دو ڈھائی ہفتے کی مہلت تھی جس میں ہم نے گھر سیٹ کرنے کی بجائے اپنے زنگ آلود ہتھیار تیز کیے۔ نیا شہر اور اجنبی ملک کیسا ہے، یہ جاننے کی بجائے ہم ان بیس مشینوں کے سائے تلے جا بیٹھے اور دن رات ان سینکڑوں گز گراف پہ چھپی پہاڑیاں دیکھ دیکھ کر لرزتے رہے جو کسی کتاب میں تو چھوڑیے، آج تک خواب میں بھی نہیں دیکھی تھیں۔

ایسا لگتا ہر بچہ رونالڈو یا میسی کا شاگرد ہے، اچھی بھلی سی ٹی جی میں ایسی کک لگاتا کہ دل اچھل کر حلق میں آ جاتا۔ مڈوائف دوڑتی، ڈاکٹر کو پیجر پہ بلاتی، ڈاکٹر بھاگی آتی، آ کر ویجائنا میں ایک بھونپو نما آلہ ڈالتی، بچے کے سر سے دو قطرے خون نکالتی، مشین میں ڈالتی اور مشین دو منٹ بعد بتاتی کہ بچہ خطرے میں ہے یا نہیں؟ اس مشین کی بابت کتابوں میں ہی پڑھا تھا، تبوک میں زیارت ہو گئی۔ خیر جناب یہی کچھ دیکھتے عید آ گئی، دعوتیں کھاتے جلدی سے گزر گئی اور لیجیے رو برو ہونے کا دن آ پہنچا۔

ایک طویل و عریض کمرہ، چالیس کرسیوں پہ بھانت بھانت کے ڈاکٹر، سامنے جہازی سائز کی میز، پیچھے لگی تین کرسیوں پہ ایمرجنسی رپورٹ پیش کرتے آن کال ڈاکٹر، سائڈ پہ بڑی کرسی پہ موصوف ہیڈ براجمان، ناک کی پھننگ پہ عینک، نیلی سرد مہر آنکھیں ہر کسی کو گھورتی ہوئی اور ہم جل تو جلال تو کا زیر لب ورد کرتے ہوئے۔

ایمرجنسی ڈاکٹر؛ مریضہ آئی، درد اچھے تھے، سروکس پانچ سینٹی، سی ٹی جی ٹھیک۔ کچھ دیر بعد سی ٹی جی میں ڈپ آ گئی، ہم نے بچے کا خون چیک کیا۔ پی ایچ ٹھیک تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ آدھ گھنٹے بعد دوبارہ خون چیک کریں گے۔ ڈپس زیادہ ہو گئیں۔ پھر خون چیک کیا، پی ایچ بارڈر لائن تھی۔ سروکس چھ سینٹی تھا۔ ہم نے سوچا کچھ اور وقت دے دیں۔ یکایک سی ٹی جی میں بریڈی کارڈیا آ گیا۔ فوراً او ٹی لے گئے، سیزیرین کیا۔ بچہ ذرا دیر سے رویا لیکن اب ٹھیک ہے۔

سی ٹی جی دکھاؤ، موصوف غرائے۔
پچاس گز لمبی سی ٹی جی میز پہ بچھا دی گئی۔

ڈاکٹر کاظمی، کیا آپ اس سی ٹی جی کو دیکھ کر ہمیں بتائیں گی کہ کب کیا ہوا؟ کیا درست ہوا؟ کیا غلط ہوا؟ کس وقت کیا کرنا چاہیے تھا؟

ڈاکٹر کاظمی، اٹھو گھبرانا نہیں، آج تمہارا امتحان ہے۔ اس اعتماد کا جس کے سہارے تم یہاں تک آ پہنچی ہو۔ ثابت کرو کہ تم جیت سکتی ہو، ہم دل ہی دل میں خود کو تھپکی دیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میز کے قریب پہنچے جہاں سی ٹی جی کا گراف مسکرا مسکرا کر ہمارے انتظار میں تھا۔ ہاتھ کانپنے کو تیار تھے مگر ہم نے اجازت نہ دی کہ ہر سائز اور ہر رنگ کی اسی جمع دو، بیاسی آنکھیں ہم پہ گڑی تھیں۔

یوگا کے اصولوں کے تحت ساری توانائی مرتکز کرتے ہوئے گراف ہاتھ میں تھاما، بغور دیکھا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ جو تربیت ملی تھی نا سٹیج پہ چڑھ کے سامعین کو قابو کرنے والی، اس کا بھرپور استعمال کر ڈالا۔ ہمارے بولنے کے ساتھ ساتھ کٹ کھنے صاحب کی تنی ہوئی بھنویں ڈھیلی پڑتی گئیں۔ مسکرانا تو خیر حرام تھا ان کے لیے، سو ہمارے لیے یہی کافی تھا۔ درمیان میں انہوں نے دو چار حملے کیے جو ہم سہ گئے۔ جب سی ٹی جی کا گراف میز پر رکھا تو موصوف کا سر ہلا جو اشارہ تھا کہ ہم واپس اپنی جگہ پر جا سکتے ہیں۔

اعصابی دباؤ کو اپنی مسکراہٹ میں چھپا کر ہم دھڑلے سے اپنی کرسی پر آ بیٹھے۔ لیکن ابھی ان کے ترکش میں کافی تیر باقی تھے جو ایک گھنٹے کی میٹنگ میں وہ ہم پہ برساتے رہے۔ چالیس میں سے چار پاکستانی ڈاکٹرز دم سادھے بیٹھے رہے کہ ان کی عزت بھی داؤ پہ لگی تھی۔

میٹنگ ختم ہوئی، سب باہر نکلے۔ موصوف تیز قدموں سے اپنے دفتر کی طرف لپکے اور ہم پاکستانیوں کے ساتھ کیفے ٹیریا۔ آخر پہلی فتح چائے کی پیالی اور ڈونٹ کے بغیر کیسے منائی جا سکتی تھی؟

اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ آئندہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments