بلدیاتی انتخابات کے دنگل میں غیر جمہوری رنگ


سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مخالف امیدواروں کے خلاف جھوٹے مقدمات، تشدد کے واقعات، دھونس اور دھاندلی کے حربے، پولیس کے ذریعے ہراساں کر کے ووٹرز کو مینیج کرنا پیپلز پارٹی کی عین جمہوری روایات میں شامل ہے۔ یہی سب کچھ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی کیا گیا تھا۔

بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 26 جون 2022 کو منعقد ہوا تھا جس میں لاڑکانہ سکھر اور شہید بینظیر آباد ڈویژن کے 14 اضلاع میں انتخابات کرائے گئے تھے۔ پہلے مرحلے کے دوران مختلف اضلاع میں قتل و غارتگری تشدد اور جھگڑوں جیسے ناپسندیدہ واقعات پیش آئے تھے اس کی سب سے بڑی وجہ ظاہر ہے انتظامیہ کی نا اہلی تھی۔ پہلے مرحلے کے با نسبت اب دوسرے مرحلے میں مارا ماری اور قتل جیسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تاہم کراچی جامشورو اور مختلف واقعات میں جھگڑے فساد ضرور ہوئے ہیں۔

15 جنوری 2023 کو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے 16 اضلاع میں انتخابات ہوئے ہیں جن میں کراچی کے اہم شہری اضلاع سمیت ضلع حیدرآباد دادو جامشورو مٹیاری سجاول بدین ٹھٹھہ ٹنڈو الہیار ٹنڈو محمد خان ملیر لیاری اور کورنگی وغیرہ شامل ہیں۔ خبروں کے مطابق کراچی ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو پراسرار طور پر روک دیا گیا ہے اور نتائج کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے پورا انتخابی عمل مشکوک ہو گیا ہے۔ ظاہری صورتحال کے مطابق کراچی میں حکمران جماعت (پیپلز پارٹی) کا بوریا بستر گول ہو گیا ہے اور جماعت اسلامی نے میدان مار لیا ہے۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن جی ڈی اے کے سردار عبدالرحیم و دیگر رہنماؤں نے گنتی کے عمل میں حکومتی مداخلت اور دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے عمران اسماعیل نے دعویٰ کیا ہے کہ میئر کراچی پی ٹی آئی کا ہو گا۔ جبکہ حیدرآباد ڈویژن میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔

اب تک موصول ہونے والے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق میونسپل کمیٹیز کی سیٹوں پر پیپلز پارٹی کے 130 اور پاکستان تحریک انصاف کے 16 ممبران کامیاب ہوئے ہیں۔ جے یو آئی نے حیدرآباد میں پانچ سیٹیں جیت لی ہیں۔ جبکہ ضلع دادو کی تحصیل میہڑ میں پیپلز پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں تحریک انصاف نے 8 اور پیپلز پارٹی نے صرف 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ میہڑ کے عوام نے پیپلز پارٹی سے سیلابی صورتحال کے دوران عوام کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا بدلہ ووٹ کے ذریعے لیا ہے۔

جبکہ ضلع جامشورو میں بھی پہلی بار پیپلز پارٹی کو دھچکا لگا ہے پیپلز پارٹی کے مخالف جامشورو اتحاد کے 4 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ سندھ کی قومپرست سیاست کے اہم کردار جی ایم سید کے آبائی علاقے ”سن“ میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے پیپلز پارٹی کو شکست سے دو چار کیا ہے۔ ٹاؤن کمیٹی سن کے چار وارڈز پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے امیدواروں آصف شاہ شھمیر ملاح ایاز خاصخیلی اور چاندی پلیجو نے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے ایک اور امیدوار امیر حسن پنہور نے بھی بدین کی یونین کونسل کھور واہ میں فتح حاصل کی ہے۔

ملک میں عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات۔ انتخابات میں شفافیت کا فقدان ہمیشہ سے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے انتخابات میں سرکاری مشینری کو بے جا طور پر استعمال کیا ہے۔ پولیس کو سندھ بھر میں اپنی سیاسی ونگ کے طور پر چلایا جا رہا ہے ایسے حالات میں ایک عام آدمی اپنے ووٹ کا صحیح حق استعمال کرنے کے لیے مکمل طور پر با اختیار اور آزاد نہیں ہے۔ مختلف مجبوریاں پاؤں میں زنجیر بن کر آڑے آ جاتی ہیں کہیں وڈیرے کا خوف ہاری کو آزادانہ حق رائے دہی سے محروم کر دیتا ہے تو کہیں جھوٹے مقدمات پولیس کا ظلم اور جیل جانے کی صورت میں بے روزگاری اور پھر خاندان کے لیے معاشی مسائل اور ذہنی اذیتیں سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ایک حقیقی عوامی حکومت کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ خلق خدا کو ووٹ کا بنیادی جمہوری حق آزادانہ طور پر استعمال کرنے دیا جائے۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ حلقہ بندیوں میں اپنی من چاہی تبدیلیاں حکومت کی سب سے بڑی چال ہے جس کا حکومت نے ڈٹ کر فائدہ اٹھایا ہے ظاہر ہے جب ایک خاندان کے چار افراد میں سے دو کا ووٹ لیاری میں ہو اور دو افراد کا ووٹ نوری آباد میں۔ یا ایک کا جامشورو میں اور ایک کا دادو کے فرید آباد یا میہڑ میں تو ووٹ کیسے کاسٹ کیا جا سکے گا۔

حکومت نے جان بوجھ کر اپنے مخالفین کے ووٹس کو نئی حلقہ بندیوں کے ذریعے بری طرح سے تقسیم کر دیا ہے یہاں تک کہ شوہر کا ووٹ ایک حلقہ میں ہے تو بیوی کا ووٹ اس سے سو کلو میٹر دور۔ علاوہ ازیں انتخابات سے قبل مختلف پی پی مخالف امیدواروں کے خلاف من گھڑت مقدمات درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا کہیں کہیں تو مخالفین کو منشیات جیسے سنگین نوعیت کے مقدمات میں بھی پھنسایا گیا ہے۔ اس طرح کی غیر جمہوری سازشوں کے ذریعے فتح کے جھنڈے گاڑنے پر جمہوری جماعت پیپلز پارٹی کو مبارک ہو۔ اور ہاں مخالفین کے ساتھ اب الیکشن کے بعد کیا کیا ہونا باقی ہے یہ تو وقت بتائے گا کیوں کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments