قوت برداشت اور نوجوان


سب انسان کسی نہ کسی معاشرے میں رہتے ہیں معاشرے میں ہمارے ساتھ بہت سارے انسان ہیں جن کے رویے مختلف ہوتے ہیں کسی کی آواز بھاری ہوتی ہے تو کسی کی انتہائی نرم گفتگو ہوتی ہے کسی کی گفتگو سے دل میں چاشنی محسوس ہوتی ہے تو کسی کی گفتگو سن کر ہمیں کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے یہ ایک فطری بات ہے کہ جب کوئی اخلاق سے پیش آتا ہے تو سکون محسوس ہوتا ہے اور جب کوئی اونچی آواز میں بات کرتا ہے یا ہمارے مزاج کے خلاف بات کرتا ہے تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے اصل انسان کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے جب وہ مزاج کے خلاف بھی بات سن کر برداشت کرے۔

ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو نوجوان نسل میں سب سے زیادہ غصہ، بدتمیزی، گالم گلوچ نظر آتی ہے گھر ہو کہ محلہ، بازار ہو یا دفتر، کچہری ہو یا اسمبلی ہر جگہ افراد دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر لڑنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ”نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ اصل بہادر انسان وہ ہے جو غصہ پی جائے“ آپ نے رستم زماں گاما پہلوان کا نام سنا ہو گا۔ ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا، ایک دن ایک دکاندار نے گاما پہلوان کے سر پر وزن کرنے والا باٹ مار دیا۔

گاما کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے، اس نے سر پر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا۔ انہیں دیکھ کر لوگوں نے کہا، ”پہلوان صاحب، آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہیں تھی آپ دکاندار کو ایک تھپڑ ہی مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی۔ گاما پہلوان نے جواب دیا،“ مجھے میری طاقت نے نہیں، میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زماں رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی۔ ”

چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے دور کے معروف لیڈر تھے اور تمام لیڈروں سے آگے تھے۔ انہیں انگریزی زبان پر عبور تھا لیکن انہوں نے پوری زندگی، انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا۔ ان ذرا آپ ان کی قوت برداشت کا اندازہ لگائیے کہ، انہیں انگریزی میں لطائف سنائے جاتے تو وہ سن لیتے لیکن ہنستے نہیں تھے کہ وہ قومی زبان کو اہمیت دیتے تھے، جب مترجم لطیفے کا ترجمہ کر کے سناتا تو وہ دل کھول کر ہنستے تھے۔

ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کا بھی قصہ ملاحظہ کریں۔ انہیں ایک بار خارش کا مرض لاحق ہو گیا۔ ان کی بیماری کی خبر پھیلی تو ان کا ایک حریف ان کی عیادت کے لیے آیا۔ بابر بیماری کی حالت میں کیسے اپنے دشمن کے سامنے جاتے۔ لیکن ہو یہ کہ، بابر نے فوراً پورا شاہی لباس پہنا اور بن ٹھن کر حریف کے سامنے بیٹھ گئے، تقریباً وہ آدھا دن اس کے سامنے بیٹھے رہے جسم پر شدید خارش ہوتی رہی لیکن بابر نے برداشت کی ایک منٹ بھی دشمن کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ تکلیف سے بے چین ہو رہے ہیں۔

دنیا میں لیڈرز ہوں سیاستدان ہوں حکمران ہوں یا عام انسان ہوں ان کی اصل قوت برداشت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کر سکتا۔ درج بالا چند مشہور شخصیات کے برداشت کے واقعات نوجوان نسل کو بتانے کا یہی مقصد ہے کہ صرف وہی لوگ آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے۔ برداشت دنیا کی سب سے بڑی اینٹی بائیوٹک او ملٹی وٹامن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بالخصوص نوجوانوں میں عدم برداشت کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ اس پر قابو پالیں گے تو کچھ کر پائیں گے۔ اور اپنی ملک و قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments