پاک فضائیہ کے بحری جہاز شکن آٹھویں اسکواڈرن کے کارناموں پر ایک نظر


یہ تیس مئی 1995، دوپہر تقریباً تین بجے کا وقت تھا، امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ابراہم لنکن (CVN۔ 72 ) بحیرہ عرب میں شمال کی جانب بڑھ رہا تھا، امریکی طیارہ بردار جہاز کے کپتان کو یقینا یہ گمان ہو گا کہ طاقت اور ٹیکنالوجی سے بھر پور یہ جہاز نا قابل تسخیر ہے، اس وقت دنیا کے بڑے بحری جہازوں میں ایک اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ، قوت سے بھرپور اس جہاز کے کپتان کا خیال کوئی خاص غلط بھی نہ تھا لیکن دنیا میں کچھ لوگ بڑے زبردست چیلنجر بھی ہوتے ہیں، جن کو چیلنج کرنے میں لطف آتا ہے، پاکستان ائر فورس ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ایک ادارہ ہے، جو چیلنج کرنے اور پھر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کراچی کے ائر بیس مسرور (سابقہ ماری پور) پر متعین ونگ کمانڈر عاصم سلیمان جو اس وقت آٹھویں اسکواڈرن کے کمانڈنگ افسر تھے، فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کے ہمراہ اپنے میراج فائیو طیاروں پر امریکی طیارہ بردار جہاز پر حملہ کرنے کے مشن پر موجود تھے۔

بحیرہ عرب کی موجوں سے کچھ فٹ کی بلندی پر انتہائی نچلی پرواز کرتے ہوئے یہ دونوں جہاز اپنے ہدف کی جانب بڑھ رہے تھے، امریکی طیارہ بردار پر عملہ اس ممکنہ حملے سے آگاہ تھا، جہاز کے ریڈارز اور ان پر متعین افسران کی خواہش تھی کہ ممکنہ حملہ آور طیاروں کو ڈھونڈ نکالیں، یہ ان کی کامیابی کے لیے ضروری تھا، اور پاکستانی پائلٹس کو یہ کام اس ساری حالت کے اندر ہی مکمل کرنا تھا وہ بھی بغیر ریڈار پر نظر آئے حملہ کریں۔ خیر جیت پاکستانی پائلٹس کے حصے میں ہی آئی۔ یہ ایک مشق تھی لیکن دونوں طرف کا عملہ اپنی بہترین پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ اس مشق میں کامیابی کے لئے کوشاں تھا۔

پاکستانی طیاروں کو اس مشق میں اپنے ایکسویٹ میزائلوں سے مصنوعی حملے کی مشق کرنی تھی، قارئین کو بتاتا چلوں، طیارہ بردار جہاز اکیلے مشق میں حصہ نہیں لے رہا تھا اس کے ساتھ ایک مکمل بحری بیڑہ موجود تھا جس کو ائر کرافٹ ٹاسک فورس کہا جاتا ہے، جس میں پیشگی وارننگ کا مکمل اور جدید ترین نظام مکمل طور پر موجود اور متحرک تھا، جو اس کی معاونت کے لئے اس کے ہمراہ تھا۔

طیارہ بردار جہاز ظاہر ہے بغیر طیاروں کے اس مشق کا حصہ نہیں رہا ہو گا، باوجود ان تمام تر لوازمات کے پاکستانی پائلٹس اس مشن میں کامیاب ہو گئے (لنک نمبر 1 )۔ بلاشبہ ایک کامیاب ضرب کی مشق تھی۔ مشق ”انسپائرڈ الرٹ“ ( Inspired Alert ) ایک یادگار مشق ضرور ہو گئی۔ بعد میں پاکستانی پائلٹس نے اپنی فتح کے بعد طیارہ بردار بحری جہاز کے اوپر ایک چکر بھی لگایا، پاکستانی پائلٹس کے لئے اور دنیا کی فضائی تاریخ خصوصی بحری ایوی ایشن کی تاریخ میں یہ ایک اہم سنگ میل ضرور تھا۔

یہی نہیں جیسے کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی آبدوزیں پاکستانی سمندروں میں آ کر جاسوسی کرنے کی کوشش کرتی ہیں ایسی ہی ایک شرارت بھارت نے 24 ستمبر 1992 کو کی جب اس کا ایک آبدوز شکن جہاز آئی این ایس تلوار پاکستانی حدود میں گھس آیا۔ نمبر 32 ٹیکٹیکل ائر ونگ کی نمبر 8 اسکواڈرن کے دو میراج 5 طیارے اس کو پاکستانی حدود سے بے دخل کرنے لئے اڑے، بھارتی بحریہ نے پاکستانی لڑاکا طیاروں کو جب اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو فرار کی راہ لی۔ یہ ہی ہیبت اس حیدر اسکواڈرن کی تھی۔

نمبر آٹھ اسکواڈرن کا بنیادی فریضہ بحری جہاز شکنی کا ہے یعنی دشمن کے بحری جہازوں کو غرقاب کرنے کا ، اس کے میراج فائیو پی اے ٹو/ تھری ایکسوسیٹ میزائلوں سے لیس ہو کر یہ فریضہ بخوبی انجام دے رہے تھے، اس وقت یہی کام جے ایف سترہ طیاروں سے باآسانی لیا جاسکتا ہے، اور اس کے لئے اضافی اسکواڈرن کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔ اسی وجہ سے پاک فضائیہ کی سب سے زیادہ اعزازت کی حامل اسکواڈرنز میں سے ایک آٹھویں اسکواڈرن کو ائر ہیڈ کواٹرز کی جانب سے وقتی طور تحلیل کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد اسکواڈرن کے افسروں اور جوانوں کو پاک فضائیہ کی دوسری اسکواڈرنز میں بھیج دیا جائے گا، لیکن جیسے ہی پاک فضائیہ کی انوینٹری میں نئے طیارے کی آمد ہوگی، آٹھویں حیدر اسکواڈرن کو دوبارہ فعال کر دیا جائے گا۔ دنیا کی افواج میں اس قسم کی تبدیلی وقت کے ساتھ آتی رہتی ہیں۔ حیدر ضرور اپنے نئے کردار کے ساتھ ضرب حیدری کی یاد دلانے واپس آئیں گے۔ جیسے اس کی خدمات 1960 ء سے 1968 ء تک جاری رہیں، پھر 1983 ء میں اس اسکواڈرن کو دوبارہ فعال کیا گیا، ویسی بھی میراج طیاروں کو بتدریج سروس سے سبکدوش کرنے کے لئے یہ کام ہونا وقت کی ضرورت تھا۔

پاکستانی نوجوانوں کے لئے ان کی ائر فورس ایک روشن مثال ہے، پاک فضائیہ سے والہانہ محبت کرنے والوں میں ہر عمر ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، کراچی والے بھی کہاں کسی سے پیچھے ہیں، میرے حلقہ احباب میں سید ارتضیٰ، سید زہیب ایسے ہی دو دوست ہیں جو آٹھویں اسکواڈرن کے ساتھ مختلف حوالوں سے جڑے رہے۔

یہ دونوں عام شہری ہی ہیں، لیکن انھوں نے مختلف حوالوں سے اس اسکواڈرن کے ساتھ کام کیا، ارتضیٰ نے اپنے شاندار گرافک ڈیزائننگ کے ذریعے اس اسکواڈرن کے لئے وہ پیچز ( پائلٹ کے Coveralls کے لئے بیجز) ڈیزائن کیے، جو اس اسکواڈرن کے پائلٹس کے کور آل پر خوب جچے۔

ایسے ہی زہیب کا شمار پاکستان کے بہترین ایوی ایشن فوٹوگرافرز میں ہوتا ہے، پھر میرے ایک اور دوست محمد عرفان جو ایوی ایشن اسکیل ماڈلنگ، آرکائیونگ ساتھ ہی ایوی ایشن فوٹوگرافی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اس اسکواڈرن سے محبت رکھنے والوں میں شامل ہیں، ان تینوں دوستوں نے مختلف وقتوں میں اس حوالے سے جو کام کیے ان کی ایک جھلک اوپر دیے کو لاج میں پیش خدمت ہے۔

لنکس اور حوالہ جات
(لنک نمبر 1 ) https://historyofpia.com/forums/viewtopic.php?t=19088


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments