کلیان: پہلی ہندوستانی ڈاکٹر خواتین کا شہر


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے

دوپہر بارہ بجے کے قریب ہم پونا پہنچے۔ پونا کا تاریخ میں اہم مقام ہے۔ بھارت کے تیسرے دورے پر مجھے پونا آنے کا موقع ملا تھا۔ میں اس شہر کا تفصیلی تعارف میں اس سفرنامہ کے تیسرے حصہ میں کروں گا۔ اب میں آپ کو کلیان کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔

ممبئی سے ساٹھ کلومیٹر پہلے کلیان نام سے ایک شہر آباد ہے۔ جب ہم شہر سے گزرے تو دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اس شہر کی تاریخ بھی بے انتہا دلچسپ ہے۔ یہ شہر سمندر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے لیکن بندرگاہ قریب ہونے کی وجہ سے صدیوں تک تجارت کے لیے نہایت اہم رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ موریا اور گپتا خاندان نے بھی اس شہر کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔ صدیوں تک اس علاقے میں ہندوؤں کی حکومت رہی۔ پہلی مرتبہ ریاست احمد نگر کے والی نے اس پر قبضہ کیا اور اس کا نام گلشن آباد رکھ دیا۔ ایک وقت آیا جب یہ شہر بیجاپور کی ریاست میں بھی شامل تھا۔

شاہجہاں نے اپنے دور حکومت میں اورنگزیب کو دکن فتح کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ جب شاہ جہاں کی وفات ہوئی تو اس وقت وہ دکن کی مہم پر ہی تھا۔ شاہجہاں نے یہاں پر ایک بہت ہی مضبوط قلعہ بنایا جس میں چار بڑے دروازے اور گیارہ مینار بنائے گئے تھے۔ اس قلعے کا رقبہ ستر ایکڑ ہے۔ ایک وقت آیا کہ یہاں انگریزوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں اس قلعے کو تباہ و برباد کر دیا اور یہاں کا سامان بھی اٹھا کر لے گئے۔

اس شہر کو ایک ایسا اعزاز بھی حاصل ہے جو شاید پورے برصغیر میں کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ یہاں کی دو خواتین نے 1886 ء میں یورپ سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی۔ ان میں سے ایک خاتون امریکہ بھی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی پہلی ہندو خاتون تھیں جس نے امریکہ کی دھرتی پر قدم رکھا۔

این ڈی ٹی وی نے ایک مضمون 31 مارچ 2018 ء کو
Anandi Gopal Joshi: The Inspiring Story Of India ’s First Female Doctor

کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس میں اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح ایک دور دراز علاقے کی ایک خاتون یورپ جاتی ہے اور طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آتی ہے۔

ہماری منزل یعنی ممبئی بالکل قریب آ رہی تھی اور ہم تھکاوٹ بھی محسوس کر رہے تھے۔ ہمیں سفر کٹنے کی خوشی بھی تھی۔ اس سفر کے دوران ہمارے ساتھ سفر کرنے والی خاتون اور ان کے بچوں سے ہماری گفتگو بے حد مفید رہی جو زیادہ تر خاندانی معاملات سے متعلق تھی۔ میں ان سے کی گئی بات چیت کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

جنوبی بھارت کا رہن سہن ایک خاتون کی زبانی

ہمارے ہاں عام طور پر خواتین اپنے ہاتھوں میں انگوٹھیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ ہمارے ساتھ سفر کرنے والی خاتون نے اپنے پاؤں کی انگلیوں میں بھی انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں۔ اب انھیں انگوٹھی کہاں جائے یا کچھ اور معلوم نہیں لیکن میں نے یہ پہلی مرتبہ دیکھا اور اس کے بعد مجھے کبھی بھی ایسا دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔

میں نے خاتون سے بات کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ ہمارے ہاں جب بھی خواتین چاند کو دیکھتی ہیں تو بچوں کو یہ کہتی ہیں کہ یہ چندا ماموں ہے۔ کبھی یہ نہیں کہتی کے چاچو چندا ہیں یا پھوپھا چندا ہیں۔ کیا صرف ماموں ہی چندا ہوتے ہیں؟ چچا یا تایا چندا نہیں ہو سکتے؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بھی یہی رواج ہے کہ چاند جو بہت ہی خوبصورت لگتا ہے کو دیکھ کر ماں ہمیشہ اپنے بچوں کو یہ کہتی ہے کہ یہ چندا ماموں ہیں۔ شاید یہ مشرقی عورت کی بھائیوں سے محبت کا اظہار ہے۔

میں نے ان سے یہ پوچھا کہ آپ کے ہاں خاندان کتنا مضبوط ہے اور کیا خاندانی روایات برقرار ہیں؟ ان کا جواب بہت ہی مناسب تھا۔ انھوں نے بتایا کہ میرا تعلق تامل ناڈو کے ایک چھوٹے سے قصبے سے ہے لیکن اس وقت میں اپنے میاں کی ملازمت کی وجہ سے ممبئی میں رہائش پذیر ہوں اس طرح مجھے ممبئی اور تامل ناڈو دونوں کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تامل ناڈو میں ابھی تک ہم پرانے رسم و رواج جن میں ساس کی عزت و احترام، بہو کے ساتھ ہونے والی تھوڑی بہت زیادتیاں، بڑوں کا ادب، مشترکہ خاندانی نظام وغیرہ شامل ہیں کے ساتھ کافی حد تک جڑے ہوئے ہیں۔

دوسری اہم بات انھوں نے یہ بتائی کہ ہمارے ہاں بچیوں کی تعلیم پر بہت زور دیا جاتا ہے اور بچیوں نے تعلیم کے میدان میں بہت کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ہاں لڑکیاں بہت کم ملازمت کرتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب خواتین آپ کو ہر جگہ کام کرتی نظر آئیں گی۔ شاید ہی کوئی ایسی لڑکی ہو جو پڑھی لکھی ہو اور اس نے پروفیشنل تعلیم بھی حاصل کی ہو اور وہ کوئی نوکری نہ کر رہی ہو۔ ایسا کرنے سے کچھ مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ کام کرنے والی خواتین کم بچے پیدا کرنا پسند کرتی ہیں۔ جس سے آبادی میں اضافہ اب نہ ہونے کے برابر ہے اور آہستہ آہستہ یہ مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بر سر روزگار خواتین اپنے خاوند سے اس طریقے سے بات نہیں کرتیں جس طریقے سے وہ خواتین کرتی ہیں جو بر سر روزگار نہیں ہیں۔ میں اسے معاشی آزادی کہہ سکتی ہوں۔ لڑکیوں کے ملازمت کرنے کی وجہ سے طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جسے اچھا نہیں سمجھا جا رہا۔ انھوں نے ایک اور بات بتائی کہ اب پڑھی لکھی برسر روزگار لڑکیاں طلاق کو برا بھی نہیں سمجھتیں۔ وہ سمجھتیں ہیں کہ جب آپس میں گزارا نہیں ہو سکتا تو علیحدہ ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

میں جو آپ کو بات بتا رہا ہوں وہ آج سے بیس سال پرانی ہے۔ اب جب میں نے اسے دوبارہ سے دیکھا تو پتہ چلا کہ معاملہ پہلے سے بھی بے حد تک بگڑ چکا ہے اور اس میں پاکستان اور بھارت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو کچھ ہمارے ہاں پاکستان میں ہو رہا ہے ویسا ہی بھارت میں بھی ہو رہا ہے۔

یورپ اور امریکہ میں رہنے والے کچھ بڑی عمر کے لوگوں سے بات چیت کر کے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آج سے پچاس قبل وہاں بھی خاندانی روایات کا احترام کیا جاتا تھا اور خاندانی نظام مضبوط بھی تھا۔ اس وجہ سے طلاق کی شرح بہت کم تھی۔ جیسے جیسے معاشی ترقی ہوئی، تعلیم عام ہوئی اور خواتین گھر سے نکل کر دفاتر اور فیکٹری میں آ گئیں تو طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہو گیا یہی صورتحال اب بھارت اور پاکستان میں بھی ہے۔

یہ کہنا کہ یہ سب تعلیم کی وجہ سے ہے درست نہیں ہو گا۔ اس کی بہت سی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ حال ہی میں مختلف لوگوں کی کی گئی تحقیق کے مطابق خواتین کا بر سر روزگار ہونا انھیں معاشی آزادی کی طرف لے کر گیا ہے۔ جس نے ان کے اندر ایک اعتماد پیدا کیا ہے۔ دوسرا انھیں اپنے حقوق کا بھی علم ہوا ہے۔ ان دو نکات نے طلاق کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔

آخر کار ہم ممبئی پہنچ گئے۔ سٹیشن پر ہماری ہم سفر خاتون جن کا ہم نام بھی نہ پوچھ سکے۔
مشرقی شرم و حیا کی وجہ سے۔
سٹیشن پر ان کے خاوند آئے ہوئے تھے۔ ان سے بھی ہماری سلام دعا ہوئی۔ انھوں نے ہمارا شکریہ بھی ادا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments