تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت


خیبر پختون خوا کی دوسری بڑی اور قدیم گومل یونیورسٹی ایک بار پھر حکمراں اشرافیہ کے سیاسی عزائم کی آگ میں جل رہی ہے، جمعہ کے دن طاقتور سیاسی پشت پناہی کے حامل درجن بھر ملازمین کے مسلح گروہ نے گاڑی کی ٹکر سے وائس چانسلر کی سرکاری رہائشگاہ کا بند گیٹ توڑ کے اندر داخل ہوتے ہی ڈیوٹی پہ مامور اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا پھر وی سی آفس پہ یلغار کر کے توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ پی اے ٹو وائس چانسلر کو تھپڑ رسید کر کے دفتر پہ قبضہ جما لیا، بعد از خرابی بسیار پولیس کی نرم مداخلت سے بلوائیوں کو شاہی پروٹوکول میں یونیورسٹی کی چاردیواری سے باہر منتقل کر دیا گیا، گورنر کی مداخلت پہ رات گئے پولیس نے 59 سالہ ڈائریکٹر ایڈمن سمیت متعدد اہلکاروں کے خلاف عام سی فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ”تفتیش“ شروع کر دی۔

کسی بھی شہر کے عمومی داخلی نظم و نسق اور اعلی تعلیمی ادارے کے وقار کے خلاف اس قدر سنگین جارحیت کا ارتکاب ہمارے بالادست طبقات کے ذہنی افلاس کی بدترین مثال تھی، بلاشبہ جو لوگ عقل و دانش اور نیکی کا تجربہ نہیں رکھتے وہ ہمیشہ ایسی ہی قباحتوں میں مصروف رہتے ہیں، ظاہر ہے، وہ ایک بار جب ادنی سطح پہ اتر آئیں تو پھر عمر بھر اسی لیول پہ رہتے ہیں، انہوں نے کبھی سچائی کی طرف دیکھا نہ بلند اٹھے نہ کبھی دائمی مسرت سے ہمکنار ہوئے، جانوروں کی طرح ہر وقت نگاہیں زمین پہ لگائے جھکے رہتے ہیں، سرکاری چرا گاہوں میں بدمست پھرنے والے یہ لوگ اپنی دلچسپیوں کی کبھی نہ کم ہونے والی ہوس میں لوہے کے سینگھوں سے ایک دوسرے کو ٹھوکریں مارتے ہیں اور اگر ان کی ہوس پوری نہ ہو تو ایک دوسرے کو مار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

اسی قماش کے اہلکاروں کی باغیانہ سرگرمیوں کا پس منظر یہی تھا کہ تحریک انصاف کے جنوبی اضلاع میں مدارالمہام سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے ڈیڑھ سال قبل متوقع عام انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے حلقہ نیابت کے ووٹرز کے لئے چار، پانچ سو نئی اسامیوں کی گنجائش پیدا کرنے کی خاطر گومل یونیورسٹی کے طلبہ، اثاثہ جات، چار فیکلٹیز اور ہزار کنال اراضی، پچھلے پانچ سالوں سے غیر فعال پڑی، زرعی یونیورسٹی کو منتقل کرنے کے لئے صوبائی کابینہ کی توثیق حاصل کر لی تو شیخ الجامعہ ڈاکٹر افتخار نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر بتایا کہ یونیورسٹی ماڈل ایکٹ کے تحت گومل یونیورسٹی سمیت صوبہ بھر میں کسی بھی یونیورسٹی کے طلبہ، اراضی اور دیگر اثاثہ جات منقسم نہیں ہو سکتے لہذا صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کریں، اگر وہ جامعہ گومل کی تقسیم چاہتے ہیں تو ایسے کسی بندوبست سے پہلے یونیورسٹی ماڈل ایکٹ میں ترمیم کر لیں بصورت دیگر کسی بھی وائس چانسلر کے لئے اس غیر قانونی حکم کی تعمیل ممکن نہیں ہو گی۔

وی سی کے اسی خط کو جواز بنا کر اس وقت کے گورنر شاہ فرمان نے پہلے شوکاز نوٹس جاری کیا پھر چند روز بعد انہیں نوے دن کی جبری رخصت پہ بھیج کر گومل یونیورسٹی کا چارج بھی مجوزہ زرعی یونیورسٹی کے وی سی پروفیسر مسرور کے حوالے کر دیا جنہوں نے حکومتی احکامات پہ عملدرآمد کرتے ہوئے گومل یونیورسٹی کی ہزار کنال اراضی کے علاوہ کم و بیش چھ ہزار طلبہ سمیت چار فیکلٹیز، سینکڑوں ملازمین اور ٹرانسپورٹ، زرعی یونیورسٹی کے سپرد کر دیں تاہم پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے وی سی ڈاکٹر افتخار کی درخواست پہ صوبائی کابینہ کے فیصلہ کو یونیورسٹی ماڈل ایکٹ سے متصادم قرار دیے کر جامعہ گومل کی تقسیم روک دی۔

چنانچہ تین ماہ پہ محیط اس قانونی عمل کی تکمیل کے بعد جب ڈاکٹر افتخار نے دوبارہ یونیورسٹی کی عنان سنبھالی تو طاقت کے نشہ میں سرشار سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے ایک جانب انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے حامی طلبہ کے ذریعے وی سی کے خلاف کئی ہفتوں پہ محیط احتجاجی دھرنا لانچ کرائے رکھا، دوسری طرف وٹس ایپ پیغامات اور سوشل میڈیا پہ ویڈیو بیانات کے ذریعے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر انہیں مستعفی ہونے مجبور کرتے رہے، معتوب وائس چانسلر نے ذاتی تحفظ اور تعلیمی ادارہ میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے مقامی انتظامیہ سے مدد مانگی تو افسران نہایت سرد مہری سے وی سی کی درخواست ٹھکرا دی۔

وائس چانسلر نے گورنر کو خط لکھ کر ان مشکل حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لئے رہنمائی مانگی تو اس وقت کے قائم مقام گورنر مشتاق غنی نے انہیں وفاقی وزیر علی امین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا مشورہ دیا لیکن وائس چانسلر نے یونیورسٹی ماڈل ایکٹ اور عدالت عالیہ کے فیصلہ کا حوالہ دے کر یونیورسٹی کی تقسیم سے معذرت کر دی جس کے بعد قائم مقام گورنر نے 18 اکتوبر کو ایک بار پھر انہیں نوے دن کی جبری رخصت پہ بھیجنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں ان کو پرسنل ہیرنگ کا موقعہ فراہم کرنے کا وعدہ دیا گیا مگر تین ماہ تک گورنر نے انہیں پرسنل ہیرنگ کے لئے طلب نہ کیا بلکہ اٹھارہ دسمبر کو جبری رخصت ختم ہونے پر سیکریٹری ایچ ای ڈی نے ازخود انہیں تیسری بار جبری رخصت پہ بھیجنے کا نوٹیفیکشن جاری کر کے سیاسی جبریت کے سلاسل کو دراز کر دیا۔

دریں اثناء نئے تعینات شدہ گورنر غلام علی خان نے ڈاکٹر افتخار کی پرسنل ہیرنگ کے بعد ان کی جبری رخصت ختم کر کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو وی سی کی بحالی کا نوٹیفیکشن جاری کرنے کا فرمان جاری کیا تو ایچ ای ڈی نے حکم کی تعمیل سے پہلو تہی برتی، جس کے بعد گورنر غلام علی خان نے اس معاملہ کو گومل یونیورسٹی سینٹ کی 124 ویں اجلاس میں پیش کر کے فاضل ممبران سے رائے مانگی تو سینٹ کی اکثریت نے وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار کے موقف کو درست قرار دے کر ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالہ کا فیصلہ دیا تو گورنر نے ڈاکٹر افتخار کی جبری رخصت ختم کر کے 9 جنوری کو فوری بحالی کا نوٹیفیکشن جاری کر دیا چنانچہ طویل رد و قدح کے بعد گیارہ جنوری کو وی سی نے یونیورسٹی پہنچتے ہی چند اہم تبادلوں کا احکامات جاری کیے تو متذکرہ ڈائریکٹر ایڈمن نے مقتدر سیاستدان کی ایما پر وی سی کے احکامات ماننے کی بجائے دفاتر کو تالے لگا کر بغاوت کر دی۔

صورت حال سے نمٹے کی خاطر وی سی نے سینڈیکیٹ کی ہنگامی میٹنگ طلب کر کے ڈائریکٹر ایڈمن (پول) اور سیکیورٹی آفیسر کو معطل کر کے شوکاز نوٹسز جاری کرنے کے علاوہ 24 جنوری کو پرسنل ہیرنگ کے لئے طلبی کے ساتھ دونوں اہلکاروں کے یونیورسٹی میں داخلہ پہ پابندی لگا دی، جس کے ردعمل میں ڈائریکٹر ایڈمن کے حامی سیکیورٹی اہلکاروں نے رات کو کیبلز کاٹ کر یونیورسٹی کے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کو بند کر دیا، منصوبہ کے مطابق 13 جنوری کی صبح ڈائریکٹر ایڈمن نے اپنے دس پندرہ حامیوں کے ساتھ زبردستی یونیورسٹی میں داخل ہو کر پہلے وی سی ہاؤس پہ حملہ کر کے وہاں ڈیوٹی پہ مامور اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس میں ٹرانسپورٹ آفیسر عمران اللہ کی ٹانگ ٹوٹی اور چہرے پہ زخم آئے، اس کے بعد وی سی دفتر میں توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ پی اے ٹو وائس چانسلر کو خوب مارا پیٹا تاہم دو ڈھائی گھنٹوں پہ محیط بدامنی کی اس مشق ستم کیش کے دوران ضلعی انتظامیہ کی پوری مشینری لاتعلق رہی۔

وائس چانسلر نے بتایا، متعلقہ تھانہ کی پولیس نے گرفتار کرنے کی بجائے ملزمان کو یونیورسٹی سے نکلنے کی سہولت فراہم کی، بعد ازاں اعلی سطح کی مداخلت کے نتیجہ میں رات گئے ڈائریکٹر ایڈمن سمیت متعدد اہلکاروں کے خلاف یونیورسٹی تھانہ میں مقدمہ کا درج کر لیا گیا لیکن گرفتاریاں نہیں کی گئیں، حتی کہ پس منظر میں موجود با اثر سیاستدان کی ایما پر ملزمان کے خلاف مقدمہ کے اندراج سے قبل اسسٹنٹ کمشنر ڈیرہ اور سرکل ڈی ایس پی کے ذریعے وائس چانسلر سے ملزمان کے ساتھ صلح کرنے کی درخواست کرائی گئی جسے وی سی نے مسترد کر دیا۔

تعلیمی اداروں میں اس قدر گہری سیاسی مداخلت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ابتری ہماری نوخیز نسلوں کی ذہنی بلوغت کو منجمد رکھنے کے علاوہ انہیں اخلاقی گمراہی کے دلدل میں دھکیل کر مجموعی سماجی نظم و ضبط کو بھی پراگندہ کر رہی ہے، کرپشن نے لوگوں کی بصیرت کو اس قدر کند کر دیا، اگر اوپر کی کمائی نہ ملے تو ان کا نظام انہضام بگڑ جاتا ہے، ہر شخص نے اپنے عمل کی معذرتی تاویل تراش رکھی ہیں اور ہمارے ارباب اختیار اپنے غرور کی بنا پر علم و عقل کے بڑھتے ہوئے زوال سے بے خبر ہیں۔

دنیا بھر میں اعلی تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد تحقیق و تعلم پہ محمول تھا کیونکہ حقیقی سائنس کا کام یہ ہے کہ وہ انسانی شعور کو شخصی و اجتماعی زندگی پہ عائد کرنے کے مختلف طریقے بتائے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تعلیم انسان کی سائنسی، فنی، ذہنی اور اخلاقی میراث کو زیادہ زیادہ سے لوگوں تک پہنچانے کا حتمی وسیلہ ہے، ایک بامقصد تعلیم ہی ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کو رد کرنے کی بجائے مثبت انداز میں ایک راہ پہ لگا سکتی تھی۔ بلاشبہ آئن سٹائن کی طرح ایک اعلی پائے کا محقق ہی زمانے کے بطن میں پنہاں اسرار کو بے حجاب کر سکتا ہے اور اپنے زمانے کے تقاضوں کا ادراک رکھنے والے ہی جانتے ہیں کہ انسانی اور مادی ترقی کے لئے کون سی چیزیں لازمی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments