عوام کا معیار زندگی، ایک لمحۂ فکریہ


معیار زندگی کا تعلق مادی اشیا اور سہولیات کے حصول کے ساتھ ساتھ اس کے سماجی ماحول اور ذہنی کیفیت سے بھی ہے۔ ذہنی کیفیت اور دماغی صحت تو خیر ہمارے ہاں موضوع بحث ہے ہی نہیں مگر چلیں کچھ چیدہ چیدہ اصول جو دنیا نے وضع کیے ہیں انہی پر خود کو پرکھ لیتے ہیں مثلاً تعلیم اور اس کی شرح خواندگی، صحت اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل، جمہوری اقدار، آزادی اظہار، سماج میں خواتین کا مقام، ترقی کے یکساں مواقع، قانون کی پاسداری اور کتب بینی کی شرح۔

کیا مندرجہ بالا کسی بھی پیمانے پر ہم اس طرح پورا اترتے ہیں جیسا کہ ہونا چاہیے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر اس کی وجوہات کا تعین ضروری ہو جاتا ہے۔

کچھ دن پہلے میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پانی کی قلت کا احساس دلانے کے لئے ایک پوسٹ کی کہ ہمارے ہاں پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے تو ایک حاضر دماغ اور باشعور صاحب نے کمنٹ میں لکھا کہ دماغی سطح بارے کیا خیال ہے؟ ان کا یہی اشارہ میرے اس کالم کی بنیاد بنا۔

روز بڑھتی ہوئی آلودگی اور آبادی ہماری ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ کسی بھی ملک یا معاشرے میں آبادی اس ملک کے وسائل پر دباؤ کا باعث بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں عموماً معیار زندگی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ آبادی اور وسائل میں فرق کو ختم کرنے کے لیے بالآخر انگلستان کے مشہور معیشت دان تھامس مالتھس نے نظریہ آبادی پیش کیا جس کا تعلق آبادی میں کمی سے ہے۔ حالیہ دہائیوں کے دوران میں کئی ترقی پذیر ممالک جن میں بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان شامل ہیں افراط آبادی کا شکار ہیں۔

ان ممالک میں ہر سال آبادی کے دباؤ میں جو اضافہ ہو رہا ہے وہ ساری دنیا کے پچاس چھوٹے ممالک کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کی ترقی کی رفتار متاثر ہو رہی ہے۔ ان کی پیداوار، فی کس آمدنی، سرمایہ کاری اور بچتیں بھی متاثر ہوتی جا رہی ہیں۔ جس سے عوام روز افزوں کے مصائب میں گرفتار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

کسی بھی ملک کے عوام کے معیار زندگی بلند کرنے کے لیے خوراک، رہائش، تعلیم، طبی سہولتوں اور دیگر اشیا کا مناسب مقدار میں میسر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ قومی نقطہ نظر سے بہتر زندگی کے لیے قوم کے ہر فرد کو سہولیات کا میسر ہونا نا گزیر ہے۔ جتنے کم افراد کو یہ سہولیات میسر ہوں گی اس قوم کا معیار زندگی اتنا ہی کم ہو گا۔ اگر زندگی کے ہر شعبے میں سرکاری اور نجی سطح پر منصوبہ بندی سے کام لیا جائے تو ان در پیش مسائل میں خاطر خواہ کمی کی جا سکتی ہے، عوام کے معیار زندگی کو بلند کیا جا سکتا ہے اور وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

بہتر معیار زندگی ہر فرد کا بنیادی حق ہے لیکن آبادی اور وسائل میں عدم توازن اس حق کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے محبت، احترام، دردمندی اور رواداری کی جگہ خود غرضی، ابتری، بے اطمینانی اور انتشار پھیلتا ہے۔ جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے اور سماجی عدم توازن جنم لیتا ہے جس سے سماجی بنیادیں کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ بے روزگاری کی شرح میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس امر ہے کہ ہم لوگ اپنی زندگی میں انفرادی سطح پر تھوڑا سنجیدگی سے کام لیں اور اس لمحۂ فکریہ میں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے خود اعتدالی سے کام لیں اور زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں تا کہ اجتماعی سطح پر ہمارے اس اقدام سے بہتری آئے اور ملکی سطح پر سرمایہ کاری کی راہیں ہموار ہوں۔ عوام کے روزگار اور آمدن میں اضافہ ہو اور غربت و افلاس میں کمی واقع ہو۔

ہمارا سماجی نظام، تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی عوامل کے زیر اثر تشکیل پاتا ہے۔ جس میں ہماری مذہبی اقدار سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دنیا و آخرت پر ایمان، صداقت، بزرگوں کا احترام، والدین، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق، ازدواجی زندگی میں وفاداری، سماجی انصاف ایسی اسلامی اقدار ہیں کہ جن پر چل کر ہم اپنے بہت سے سماجی مسائل میں حوصلہ افزا کمی لا سکتے ہیں اور یہ صرف اور صرف ہماری قوت فیصلہ، مصمم ارادے اور نیک نیتی ہی سے ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments