دانش اور دھوکے


سال اختتام کو پہنچا، دودھ دہی والوں، گندم گیہوں والوں، شہد شکر والوں، گھی تیل والوں، ٹماٹر ٹینڈے والوں، مستریوں اور مکینکوں، پلمبروں اور الیکٹریشنوں، ڈاکٹروں اور حکیموں، ججوں اور جرنیلوں، گیس اور واپڈا والوں، نادرا اور پاسپورٹ والوں، پولیس اور پارلیمنٹ والوں، ٹرانسپورٹروں اور ٹاؤن والوں و دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ہاتھوں روزمرہ کے چھوٹے موٹے دھوکے سارا سال کھانے کے علاوہ اس سال ہم نے 15 ایسے بڑے قابل ذکر دھوکے کھائے جو بلحاظ طریقہ واردات بالکل نئے نویلے اور اچھوتے تھے۔ سوا دھوکہ ماہانہ کی اوسط سے یہ سال ہم پہ یوں بیتا کہ امید واثق ہے ایک آدھ سال اور، اسی اوسط سے لگ گیا تو انشاء اللہ اگلے سال تک 33 جلدوں پہ مشتمل، گزشتہ چالیس میں کھائے گئے، نت نئے طریقوں پہ مبنی دھوکوں کی جامع ڈکشنری، عوام الناس کے وسیع تر مفاد میں شائع کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔

ہمارے ایک دوست ہیں جو دانشور اور مفکر ہونے کے علاوہ ادیب اور شاعر بھی ہیں۔ ان کی دانشوری کا اس سے بڑھ کے اور کیا ثبوت پیش کروں کہ نام کے ساتھ ”دانش“ تخلص کرتے ہیں۔ رقیب ان پہ الزام دھرتے ہیں کہ دانش کا دھوکے کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو دامن کا چولی کے ساتھ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دانش، دور سے گزرتے دھوکے کو آواز دے کے پاس بلا لیتے ہیں اور التجا کرتے ہیں، دھوکے بھائی، سب سے پہلے مجھے نمٹاؤ پھر کوئی دوسرا کام کرنا۔ ان کے قریبی دوست تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ کھانے میں، دھوکہ کھانا، دانش کی پسندیدہ ترین خوراک ہے۔ دشمن ان کی دانش پہ چاہے لاکھ اعتراض اٹھائیں مگر ہم ان کی بالغ نظری اور دیدہ وری کے کبھی شاکی نہیں رہے۔

آج سے بیس برس قبل زمانہ طالبعلمی کے دنوں میں، ایک روز کالج سے واپسی پر ہمارے دوست احسان اللہ دانش سڑک کنارے کھڑی کسی سرف بیچنے والی وین کی سیلز گرلز کو اپنے فن و فکر سے متعارف کروانے کے لئے رکے تو ان ظالم حسیناؤں نے الٹا دانش کو اپنے فن و فکر سے لبھاتے ہوئے سرف کا ایک ننھا سا پیکٹ بعوض ایک ہزار روپے، یہ کہہ کر فروخت کر دیا کہ پیکٹ کھولنے پر کوئی نہ کوئی قیمتی انعام موقع پہ ضرور نکلے گا اور ساتھ میں گاڑی کے انعام کے لئے قرعہ اندازی میں شمولیت کی رسید بھی موجود ہو گی۔

دانش پہ قسمت کی دیوی تو ہمیشہ سے ہی مہربان رہتی تھی مگر اس روز تو مٹی کو بھی ہاتھ لگاتے تو سونا بن جاتی۔ دانش نے سرف کا پیکٹ کھولا تو ایک عدد نائکون کیمرہ انعام میں نکل آیا جس کی مالیت اس وقت تقریباً تین لاکھ روپے تھی جو آج کے 13 لاکھ کے برابر ہیں۔ دانش کے ہاتھ میں انعام تھماتے ساری سیلز گرلز خوشی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں، دانش کی ڈھیروں بلائیں لیں، انہیں قسمت کا دھنی گردانتے ہوئے یہ پیش گوئی بھی کر دی کہ کار کا انعام بفضل تعالیٰ ان کا ہی نکل کے رہے گا۔

احسان اللہ دانش خوشی سے نہال، کیمرے والا ڈبہ جو حجم میں مائیکرو ویو اوون والے ڈبے سے بھی بڑا تھا سر پر لادے دوڑتا ہوا میرے پاس پہنچا تو میں بھی اس کی خوشی بختی پہ رشک آنے لگا، مبارکباد دیتے ہوئے موقع پہ ہی اس سے پارٹی کا مطالبہ کر دیا۔ سرف والیوں کو ایک ہزار ادا کرنے کے بعد ، دانش کی جیب میں چند سو ابھی باقی تھے، فوراً رضا مند ہو گیا۔ طے پایا کہ کسی اچھے ریسٹورنٹ جا کے مسرت کے ان لمحات کی تصویر کشی کی جائے تاکہ یادگار رہے۔

یہاں یہ یاد دہانی کروانا مناسب سمجھتا ہوں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب وی سی آر کرائے پہ چلا کرتے تھے، موبائل فونز اور فیسبک ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کیمرے اور تصویر کا ولولہ آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوا کرتا تھا۔ میں نے بنا مزید وقت ضائع کیے ، کیمرہ کا ڈبہ کھولنا شروع کیا تو ڈبہ کے اندر سے ایک اور ڈبہ برآمد ہوا، سوچا، مہنگی اور نازک چیزیں احتیاط کے پیش نظر شاید زیادہ بہتر انداز سے پیک کی جاتی ہیں اس لئے کیمرہ ضرور اس نئے برآمد ہونے والے ڈبہ میں موجود ہو گا۔

وہ ڈبہ کھولا تو اندر سے ایک اور ڈبہ برآمد ہوا، احسان اللہ دانش تو پیکنگ کے معاملے میں کمپنی کے اس حد تک احتیاطی انتظامات پر عش عش کر اٹھا اور داد دیے بنا نہ رہ سکا البتہ مجھے اب کچھ تشویش سی لاحق ہونے لگی۔ دانش صاحب کی ادبی رگ پھڑک اٹھی اور فرمانے لگے، حسن ہو تو نزاکت آ ہی جایا کرتی ہے ویسے بھی حسین چیزیں ایسی ہی پردہ داری کی متقاضی ہوتی ہیں ورنہ حسن یوں سر بازار آ جائے تو اس کے دام گر جایا کرتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ پیکنگ کی شان میں دانش صاحب پوری غزل ہی داغ دیتے میں نے عجلت میں تیسرا ڈبہ بھی کھول دیا۔ لال اور پیلے رنگ کے پلاسٹک سے تیار کردہ ایک کھلونا کیمرہ برآمد ہوا جس نے خوشیوں بھری کمرے کی فضا کو اچانک سوگ میں بدل دیا۔ روہانسی صورت بنائے، انتہائی شکستہ لہجے میں، اس روز دانش نے ایسا جملہ کہا جو گزشتہ بیس برس سے بلاناغہ، ہر سال کے اختتام پر میرے ذہن کے پردے پر گونجنے لگتے ہیں۔ دانش نے کہا ”میں ہر روز یہ سمجھتا ہوں کہ دھوکے کھا کھا کے اب میں سیانا ہو گیا ہوں مگر ہر روز ایک نئے طریقے سے، اس ملک میں میرے ساتھ نیا دھوکہ ہو جاتا ہے،“ ۔ دانش اس واقعہ سے اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ ملک ہی چھوڑ گیا۔

گزشتہ برس ہمارے دوست باسط گوندل کے اسرار پہ ہم نئے سال کی خوشی میں، جشن آتش بازی دیکھنے منڈی بہاؤالدین سے بحریہ ٹاؤن لاہور گئے۔ ایک مہینے سے اس آتش بازی کا ڈھنڈورا شہر شہر قریہ قریہ متواتر پیٹا جا رہا تھا۔ رش کے سبب چہار سو رستے بند تھے، ہم بحریہ ٹاؤن کے عقب سے، کھلیانوں میں گاڑی ڈرائیو کرتے، گجروں کے تبیلے پھلانگتے، نصف شب، یخ سردی میں آئفل ٹاور پہنچ گئے۔ ہند سندھ سے آئے چرند پرند نما، ملک کے تمام بھونڈ وہاں اکٹھے تھے۔

اس عمر میں اپنے آپ کو ان لونڈوں کے درمیان پا کر ہلکی سی شرمندگی تو محسوس ہوئی مگر ساتھ ہی، معقول تعداد میں کچھ شرفاء اور فیملیز کو دیکھ کے دل کو کچھ تسلی ہو گئی۔ آئفل ٹاور، جو کہ جشن آتش بازی کے حوالے سے مرکزی کھمبا تھا، غیر معمولی طور پہ گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس پہ مستقبل قریب میں ہونے والی کسی آتش بازی کا کوئی شائبہ نہیں ہو رہا تھا۔ ٹھٹھرتی سردی میں لگاتار منہ اس کھمبے کی طرف اٹھائے ہوئی عوام میں جب تشویش بڑھنے لگی تو منچلوں کے ایک گروپ نے لوگوں کی یہ کہہ کے ڈھارس بندھائی کہ آتش بازی کا سامان سیٹ ہو چکا ہے،

(جاری ہے ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments