گزرے تھے ہم جہاں سے


کردار:

ہیروئین: شہنیلا۔ فلمی نام۔ عمر 45۔ 50 برس کے درمیان۔ لباس موقع کی مناسبت سے مگر دلفریب اور ایک خاص چمک لئے۔ گہری آنکھیں۔ شوخ لپ سٹک۔ اس کے کلاسیکی ذوق کا پتہ دیتے ہیں

مانی: (ملک فیضی کا دوست جس کا گھر میں آنا جانا ہے ) لگ بھگ 55 برس کا بیورو کریٹ۔ بھاری بھرکم شخصیت

ملک فیضی : ہیروئن کا سابقہ شوہر۔ زمیندار۔ حسن پرست عیاش طبع۔ ڈارک ویب پہ سیکس سکینڈلز دیکھتے دیکھتے ایک روز اپنی بیوی کو بھی اس کام پہ لگانے والا

———————————————————————-
مناظر: کلاسیکی انداز میں فلمائے گئے۔ خوبصورت لائیٹ ایفیکٹس
———————————————————————-

تھیم (مرکزی خیال) : عورت جب بھی گری، کسی مرد کے ہاتھوں ہی پھسل کے گری۔ مگر گرنے کے بعد یہ عورت دوبارہ اسی تمکنت سے اٹھتی ہے اور اپنے آپ کو منواتی ہے۔

————————————————————————-

موجودہ کہانی: فلم اداکارہ کے شاٹ سے شروع ہوتی ہے کہ جسے ایک اخلاق باختہ کردار کے نبھانے پہ خوب پذیرائی ملتی ہے۔ آڈینس شہنیلا کے کردار کو تو پسند کرتے ہیں مگر اسے حقیقت میں اخلاق باختہ ہی تصور کرتے ہیں۔ وہ ہونٹوں پہ مسکان سجائے ایوارڈ تو وصول کرتی ہے پر دل ہی دل میں روتی ہے۔ اس کی آنکھ بھر آتی ہے۔ آج اس کے کیرئیر کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ وہ مزید کام کرتی ہے۔ انٹرویوز اور ریٹنگز کے ذریعے اس کی پذیرائی دکھائے جائے گی۔ سوشل میڈیا فالوونگ کا بھی ذکر رہے گا۔ انٹرویو میں سوال ہوتے ہیں۔ (آج اس کی زندگی میں سیکس کہیں نہیں اور وہ بدنام ہے ) اور پھر فلم کے اختتام پہ اسے کسی ( آ سکر جیسے بڑے ) ایوارڈ حاصل کرتے دکھایا جاتا ہے۔

ماضی کی کہانی: ماضی کی جھلکیاں۔ شوہر کی جی حضوری کبھی اس کے رنگین مزاج شوہر کو اس کے لئے رام نہ کر سکی۔ مانی کی ہمدردی پہ اپنے دل میں اس کے لئے نرم گوشہ پیدا کر لیتی ہے۔ وہ فیضی کے پرتشدد سیکس سے بیوی ہوتے ہوئے خود کو گرا ہوا انسان سمجھنے لگتی ہے۔ فیضی کے پیسے کے آگے تو یوں بھی اس کی کوئی اوقات نہیں۔ بظاہر خوشگوار نظر آنے والی زندگی اچانک ایک ٹرن لیتی ہے کہ جب فیضی شہنیلا کو وائف سواپنگ کے لئے راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ اسے مانی کے ساتھ تحفظ محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ پھر مانی ہی کیوں نہیں؟ مگر خود کو سنبھالے رکھتی ہے۔ ایک دن فیضی اسے ڈارک ویب پہ لائیو سیکس کے لئے رام کرتا ہے۔ وہ بھاگ نکلتی ہے۔ مانی کی ہمدردی اسے اس کے پہلو میں لے آتی ہے۔ بس ایک بار کا یوں پھسلنا اسے اس قدر بے قرار کرتا ہے کہ وہ اس تکلیف کا بدلہ لینے جو اتنے برس جھیلی اور آخرکار ایک غلیظ کام پہ اختتام پذیر ہوئی، وہ فیضی کو جا کر بتا دیتی ہے کہ میں اپنی پسند سے سیکس کر آئی ہوں۔ وہ فیضی کا گھر چھوڑ کر مانی کے پاس جاتی ہے۔ وہ نکاح سے انکار کر دیتا ہے۔ اور اس کا ماہانہ خرچ باندھ دیتا ہے۔ وہ قبول کر لیتی ہے۔ لکھنے لگتی ہے جہاں سے اسے ڈراموں اور فلموں کی آفر آنے لگتی ہے۔

منظر 1 :

( شہنیلا سٹیج پہ ایوارڈ وصول کر رہی ہے۔ آنکھوں میں چمک۔ بھنوؤں میں تناؤ۔ غرور حسن اور فتح کا اعتماد اس کے چہرے سے جھلکتا ہے۔ بیک گراؤنڈ میں گانا چل رہا ہے۔ لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے۔ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے )

منظر 2 :

اسی گانے کی کنٹینیوٹی۔ شہنیلا کے بال کھلے ہیں۔ وہ ایک خوبصورت ماڈرن فلیٹ کی بالکونی میں کھڑی ہے۔ نیچے سڑک کی لائٹیں اس کے چہرے پہ پڑ رہی ہیں۔ ہوا سے بال اڑ رہے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو ہیں۔ مگر وہ مسکرا دیتی ہے۔ اور پھر زور زور سے ہنسنے لگتی ہے )

منظر 3 :
کردار: شہنیلا اور اس کا شوہر
مقام: ایک خوبصورت ہوٹل
وقت: شام یا دن
شہنیلا: ( خوش نہیں دکھتی) آج گھر پہ ہی سیلیبریٹ کر لیتے فیضی۔ کیا ضرورت تھی اس سب کی۔

فیضی: ارے ہماری بیگم کی سالگرہ اور ہم سپیشل نہ بنائیں۔ (کانٹے سے بوٹی منہ میں ڈالتے ہوئے ) بائی دا وے، آپ کا تحفہ گھر جا کے ملے گا آپ کو

شہنیلا: اچھا۔ تحفے تو آپ دیتے ہی رہتے ہیں، کون سا پہلی بار ہے
فیضی: ہماری بیگم کسی چیز کو پسند کریں اور ہم ان کے قدموں میں نہ لا رکھیں۔ یہ ممکن نہیں۔
Your diamonds are waiting for you at home)
امیرانہ تفاخر کے ساتھ کہتا ہے )
شہنیلا: ارے ے ے ے۔ وہ نیکلس۔ پر فیضی وہ تو مجھے یونہی پسند آ گیا تھا۔ کیا ضرورت تھی

فیضی: چلو چلو کھانا کھاؤ۔ پھر گھر چل کے اپنے ہاتھوں سے پہناؤں گا (ذومعنی نظروں سے دیکھتا ہے اور مسکراتا ہے۔ شہنیلا بے چین دکھتی ہے )

منظر 4 :
کردار : فیضی۔ شہنیلا۔ مانی
مقام: شہنیلا کا گھر
وقت : رات

(دونوں کھانے سے گھر لوٹتے ہیں۔ نوکر بتاتا ہے کہ مانی صاحب آئے ہوئے ہیں۔ دونوں خوشی خوشی اندر آتے ہیں۔ مانی آگے بڑھ کر سرخ گلاب کے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتا ہے۔ )

شہنیلا: ارے اس کی کیا ضرورت تھی۔
مانی گہری نگاہوں سے اسے دیکھتا ہے
مانی: آپ کے لئے تو چاند بھی حاضر کر دوں بھابھی، پھول کیا چیز ہیں۔
(شہنیلا دلکشی سے مسکراتی ہے )
فیضی: Come let ’s have some cocktail together
( وہ شراب مکس کرنے لگتا ہے۔ مانی بھی گلاس اٹھاتا ہے۔ گہری نظروں سے شہنیلا کی طرف دیکھتا ہے۔ )
مانی: شعر پڑھتا ہے۔ (دوسرے مصرعے پہ شہنیلا کی طرف دیکھتا ہے )
ان زاہدوں کو چاہیے مسجد الگ الگ
ہم مے کشوں کو ایک ہی مہ خانہ چاہیے
منظر 5 :
مقام: بیڈروم
وقت: رات
کردار: شہنیلا اور فیضی

(فیضی سیکس کے بعد اوندھا پڑا سو رہا ہے۔ شہنیلا تکیے پہ سر ٹکائے سیدھی لیٹی ہے۔ اس کا آنسو ایک طرف کو ڈھلک جاتا ہے )

وائس اوور: یہ کیسا رشتہ ہے جس میں انسان خود کو گرا ہوا محسوس کرے۔ میرے وجود کی ایسی تذلیل کب تک کرو گے؟ کب تک میں ازدواجی فرض نبھانے کے نام پر روندی جاتی رہوں گی۔ اس رشتے میں اتنی غلاظت؟ نہیں۔ یہ سب تو خدا کو بھی منظور نہیں۔ میرے لئے رب نے اس رشتے میں عزت کا سلوک رکھا ہے۔ اور۔ تم نے مجھے کتیا بنا ڈالا۔ یہ گناہ ہے۔ یہ گناہ ہے۔ (وہ منہ ڈھانپ لیتی ہے )

منظر 6 :
مقام/ وقت : کسی جگہ سپاٹ لائٹس میں شہنیلا کو سٹیج پہ بیٹھا دکھایا جائے۔ انٹرویو کا منظر
صحافی: آپ پے در پے کامیابیاں حاصل کرتی جا رہی ہیں۔ اس کے بعد آپ کا کیا کرنے کا ارادہ ہے

شہنیلا: یہ ایوارڈ کسی کھلونے کی دکان پہ لے جاؤں گی۔ اسے دے کے اپنی بیٹی کا کھویا ہوا بچپن لے آؤں گی۔ اس کی باربی ڈالز، اس کے لئے پیارا سا گھر۔ بتائیے، یہ سودا مہنگا تو نہیں نا؟

منظر 7 :

( پچھلا منظر فیڈ آؤٹ ہوتا ہے۔ ایک معصوم بچی گڑیا پکڑے سہمی ہوئی ماں باپ کی لڑائی سن رہی ہے۔ باپ گرج رہا ہے )

فیضی: مرد ہوں میں۔ تمہیں جواب دہ نہیں ہوں۔ افورڈ کرتا ہوں اپنے پسند کی عورتیں۔
شہنیلا: اور میں؟ انتظار کرتی رہوں تمہارا؟
فیضی: بکواس بند کرو۔ تمہیں پیسہ مل جاتا ہے نا

شہنیلا: پیسہ پیسہ پیسہ۔ نہیں چاہیے مجھے پیسہ۔ فیضی مجھے گھر کا سکون چاہیے، خوشی چاہیے عزت چاہیے (رونے لگتی ہے )

(بچی کو منہ بسورتے دکھایا جائے )
فیضی: بند کرو یہ دیسی عورتوں کی طرح رونا دھونا۔ (دھڑ سے دروازہ بند ہوتا ہے )
(بچی ایک دم جھٹکا کھاتی ہے۔ اس کی گڑیا اس کے ہاتھ سے فرش پہ گر جاتی ہے )
منظر 8 :
کردار : شہنیلا اور مانی
مقام: ایک خوبصورت لان
وقت: شام
(شہنیلا چائے کا کپ آگے بڑھاتی ہے۔ )
مانی: بہت اچھی چائے بناتی ہیں آپ۔
(شہنیلا آنکھ اٹھا کے اسے دیکھتی ہے۔ دوسرے کپ میں چائے ڈالنے لگتی ہے )
شہنیلا: فیضی کا کوئی پتہ نہیں۔ آج کل کئی کئی دن بعد ہی آتے ہیں۔
مانی: میں بس چائے پی کے چلتا ہوں۔ آپ کو میرا بیٹھنا اچھا نہیں لگا؟
شہنیلا: نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ زندگی میں سب کچھ ہماری پسند سے تو نہیں ہوتا۔
مانی: آپ پریشان لگتی ہیں
شہنیلا: نہیں، بس یونہی۔

مانی: فیضی میرا دوست ہے۔ میں اسے بہت اچھے سے جانتا ہوں (کچھ ٹھہر کے ) آپ مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں۔ بلکہ۔ (جھجکتے ہوئے ) آپ کو جب بھی میری ضرورت پڑے، مجھے پکار سکتی ہیں۔

شہنیلا آنکھ اٹھا کر دیکھتی ہے۔ دونوں کی نظریں ٹکراتی ہیں۔
منظر 9 :

(شہنیلا لیپ ٹاپ لئے بیٹھی ہے۔ فیضی کے نام کا میل باکس کھلا ہے۔ وہ کلک کرتی ہے۔ لاسٹ سینٹ میل دیکھتی ہے۔ اسے اپنی تصویریں نظر آتی ہیں۔ نائیٹی میں بے سدھ سوئی ہوئی۔ وہ گھبرا جاتی ہے۔ تین چار تصویریں کھول کے دیکھتی ہے۔ بھیجے جانے والے ایڈریس پہ غور کرتی ہے۔ سمجھ نہیں پاتی۔ اس کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں )

منظر 10 :
مقام: بیڈ روم
وقت : رات
شہنیلا واش روم سے باہر آتی ہے۔ الجھی ہوئی ہے۔
فیضی: (لیپ ٹاپ پہ کچھ کر رہا ہے ) سنو، ادھر آؤ۔ اسے ہاتھ سے پکڑ کے پاس بٹھاتا ہے
شہنیلا خاموش اسے حیرت اور الجھن سے دیکھتی ہے
فیضی: میری بات غور سے سنو۔ جب ہم سیکس کرتے ہیں تو تم انجوائے نہیں کرتی ناں؟
شہنیلا: (اسے حیرت سے دیکھتی ہے۔ نظریں پھیر لیتی ہے )

فیضی: ( اسے اپنی طرف مائل کرتے ہوئے ) انجوائے کرنا چاہتی ہو؟ (آنکھ مارتا ہے ) میرے پاس ہے ایک طریقہ۔

شہنیلا: (حیرت میں ڈوبی ہوئی) ۔ وہ کیا؟
فیضی: دیکھو، یہ جو سیکس ہے نا۔ اس میں روز ایک ہی ٹیسٹ اچھا نہیں لگتا۔ You stop enjoying)
جیسے روز ایک ہی دال نہیں کھا سکتے۔ نہیں کھا سکتے ناں؟ ہمیں ذائقے بدلنا اچھا لگتا ہے۔
شہنیلا: تو اسی لئے آپ کو نئی نئی عورتیں چاہیے ہوتی ہیں

فیضی: (کمینی ہنسی کے ساتھ) تمہیں نہیں چاہیے نیا ٹیسٹ؟ ہاں؟ بولو؟ ( اس کے بازو پہ شہوانی انداز میں ہاتھ پھیرتا ہے ) کوئی اور مرد تمہیں چھوے، تمہارے جسم کو سہلائے۔ تمہیں بھی بہت اچھا لگے گا۔

شہنیلا: یہ۔ یہ کیا کہہ رہے ہو؟

فیضی: ارے یار۔ یہ کوئی ایسی بری بات نہیں۔ روز ایک ہی جسم لذت نہیں دیتا یار۔ ( جوش سے ) یہ دیکھو۔ میں نے تمہاری تصویریں بھیجی تھیں۔ اسے پسند آ گئی ہیں۔

شہنیلا: (اضطراب سے ) ۔ کسے بھیجی تھیں؟ کسے پسند آ گئی ہیں؟

فیضی: ضرار کو۔ احمد ضرار۔ یار۔ میرا دوست۔ شوقین آدمی ہے۔ پر ذرا اور طرح کا شوقین۔ (گھٹیا انداز میں ہنستا ہوا) میرے جیسا شوقین۔ یا ا ا ا ار۔ اس میں بھی اپنا ہی مزہ ہے۔

(انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے ) ۔ وائف سواپنگ
شہنیلا: کیا بکواس ہے یہ؟ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے؟

فیضی: (اشارہ کرتے ہوئے ) ششش ششش ششش۔ یہ باتیں بلند آواز میں نہیں کرتے۔ یہ رازداری کی باتیں ہیں۔ کھلے عام تو بندہ کہیں بھی منہ مار لیتا ہے۔ پر یارررر۔ اس میں مزہ بڑا ہے۔

شہنیلا: میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اس قدر گھٹیا انسان نکلو گے۔ (غصے سے اٹھ کے جانے لگتی ہے)

فیضی: (اس کو زبردستی ہاتھ سے کھینچ کر بٹھاتا ہے۔ اس کی گردن سے پیار کے ساتھ بال پیچھے کرتا ہے۔) غصے سے نہیں، ٹھنڈے دماغ سے سوچو۔ اور پھر تمہیں کیا۔ شوہر ہوں تمہارا۔ میری اجازت سے کرو گی۔ گناہ نہیں ہو گا۔ And you will enjoy

شہنیلا: تمہیں یہ سب کہتے ہوئے ذرا سی بھی شرم نہیں آ رہی۔ میں بیوی ہوں تمہاری۔ تمہاری جنسی زیادتیاں صرف یہ سوچ کے برداشت کرتی رہی کہ تمہاری بیوی ہوں، تمہارا پردہ رکھنا فرض ہے میرا۔ ( نفرت انگیز تاثر سے ) تمہارے آگے الٹے سیدھے ہو کر تمہیں لذت فراہم کرتے کرتے میں مر گئی۔ میری ہستی فنا ہو گئی۔ لیکن تمہاری ہوس ایک ایسا جہنم ہے جس کی آگ تھمتی ہی نہیں۔

فیضی: (اس کے منہ کو جبڑے سے جکڑ لیتا ہے ) نہیں ماننا تو مت مان۔ پر یہ بکواس کسی کے سامنے کی ناں۔ تو پتہ ہے نا پھر میرا۔ تیری لاش بھی لے جانی پڑی تو لے جاؤں گا۔ مجھے انکار کرتی ہے (غراتا ہے ) جانور ہوں میں۔ جانور! ( اسے دھکا دے دیتا ہے اور پیروں سے ٹھڈے مارتا ہے )

منظر 11 :

فلم ڈائریکٹر: میڈم، آپ کا یہ پہلا کام ہو گا بڑی سکرین کے لئے۔ میرا مطلب ہے۔ ریحان صاحب کہہ رہے تھے آپ کرنا چاہتی ہیں۔ پر بڑے پردے پہ کام کرنا ذرا اور طرح سے مشکل ہے۔ اور پھر یہ رول۔

شہنیلا: ارے ڈائریکٹر صاحب، کیا رول کرنا مشکل ہے۔ کیا بڑی سکرین کی مشکل۔ ہم اداکار ہیں۔ ہر طرح کا کردار نبھاتے ہیں زندگی میں۔ ہے کہ نہیں؟ (قہقہہ لگاتی ہے )

فلم ڈائریکٹر: بات تو درست ہے پر یہ رول ایک ویشیا کا ہے۔ بڑا کچھ کرنا پڑے گا اس میں

شہنیلا: ہاں تو کیا۔ ویشیا انسان نہیں ہوتی؟ اس کے اندر بھی تو ایک عورت ہوتی ہے نا۔ مجھ جیسی۔ (درد سے مسکراتی ہے )

منظر 12 :
فلم کی شوٹنگ۔ شہنیلا کتھک پرفارم کر رہی ہے۔ طبلے کی تھاپ پہ نظم چلتی ہے
نظم:۔
دن کی تھکن سے ہو کر چور چور
رات کی وزنی گٹھڑی سر پہ اٹھائے
کب وہ عورت سے فاحشہ بنتی ہے
یہ وہ خود بھی نہیں جانتی
کولہے مٹکا کر چلتی ہے جب
آنکھ میں وحشت کا کاجل
اور بھی گہرا ہو جاتا ہے
گوشت کی منڈی بند رہے تو
فکریں سونے کب دیتی ہیں؟
نیندوں پہ جس کا پہرا ہو
اسی کے خواب میں جینا ہو گا
اس کے کہے پہ مرنا ہو گا
اور مدد کو کوئی نہیں ہے
دور دور تک۔ کوئی نہیں ہے
کوئی نہیں ہے۔ کوئی نہیں ہے
منظر 13 :
کردار: مانی اور شہنیلا
مقام: لان
وقت : رات
مانی: (گہری سوچ میں گم۔ سگریٹ بجھاتا ہے ) کتنے دن ہوئے گھر نہیں آیا
شہنیلا: دس دن
مانی: جھگڑا ہوا تھا؟
شہنیلا: نہیں۔ فارم ہاؤس پہ ہی ہو گا۔ وہاں سکون محسوس ہوتا ہو گا۔
مانی: اور تم؟ میرا مطلب ہے تم کیا کرتی ہو اپنے سکون کے لئے؟
شہنیلا: مانی پلیز۔ اب تم جاؤ (اٹھ کر اندر چلی جاتی ہے )
( گانا) ۔
منظر :

شہنیلا: (واش روم میں آئینے کے سامنے کھڑی ہے۔ پیٹ پہ ہاتھ رکھ کے تکلیف کا تاثر دیتی ہے ) اس حال میں بھی۔ تم اس حال میں بھی نہیں رکتے۔ تم انسان نہیں، درندے ہو۔ میرا خون پینے والے درندے۔ اور میں۔ میں غلاظت کا وہ ڈھیر بن گئی ہوں جس پہ مزید غلاظت گرتی رہے گرتی رہے۔ کس نے اس ڈھیر کو پھرول کے دیکھنا ہے کہ اس کے اندر ایک انسان دفن ہے۔ جیتا جاگتا انسان۔ دفن ہے

(زور زور سے ہانپتی ہے ) میرا دم گھٹ جائے گا۔ (آنکھوں سے پانی /آنسو گرتے ہیں ) میرا دم گھٹ جائے گا۔
منظر 14 :
مائیکس پکڑے بہت سے صحافی سوال کرتے ہیں۔

صحافی: فن کسی بھی فنکار کو زندہ رکھتا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ آپ کو اچھے کرداروں کے حوالے سے یاد کیا جائے

شہنیلا: ( اٹھلاتی ہوئی ہنسی) تو میں کیا میں کردار اچھے نہیں نبھا رہی؟

صحافی: میم۔ میرا مطلب ہے جو کردار آپ چوز کرتی ہیں وہ معاشرے کے برے کردار مانے جاتے ہیں۔ طوائف، شراب پیتی عورت، طلاق یافتہ عورت، ویشیا۔

شہنیلا: (بڑی ادا سے مسکراتے ہوئے ) یہ سارے مرد کے دیے ہوئے نام ہیں۔ آپ بس اتنا کیجئیے کہ ان کرداروں میں عورت کو تلاشیے

صحافی خاتون: میم۔ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کے بے باک کردار خواتین کو غلط راہ دکھا رہے ہیں۔

شہنیلا: (ادائے دلربائی سے ) تو پھر ان لوگوں سے جا کے یہ پوچھئیے کہ، ان بے باک کرداروں کو یہ راہ کس نے دکھائی۔ ہاں؟ کون ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت کو بازار کی سودے بازی سکھاتا ہے۔

(پہلے صحافی کی طرف دیکھتی ہے ) آپ کو شراب پیتی عورت بھلی نہیں لگتی ناں۔ جب عورت اپنی تذلیل کا زہر پی کے جینا سیکھ لیتی ہے نا، تو اس کے لئے شراب، حیا، ثواب، گناہ سب برابر ہو جاتے ہیں۔

منظر 15 :
فیضی: تمہیں میرے ساتھ سیکس کرنے میں تو کوئی اعتراض نہیں ہے ناں؟
شہنیلا اسے پلٹ کے حیرانی سے دیکھتی ہے

ہم میاں بیوی ہیں۔ دنیا دیکھ بھی لے تو کیا؟ ہیں؟ میں نے بڑا پیسہ دیا ہے ان کو۔ انٹرنیٹ پہ بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ یہ ایک فینٹسی ورلڈ ہے۔ یہاں پر دیکھنے اور دکھانے دونوں کا مزہ ہے۔

شہنیلا کمرے سے باہر نکل جاتی ہے
منظر 16 :
شہنیلا بے تابی سے ٹہل رہی ہے۔ مضطرب ہے۔ گاڑی کی چابی پکڑتی ہے اور باہر نکل جاتی ہے
منظر 17 :
کردار : شہنیلا اور مانی
وقت: رات
مقام: مانی کا گھر

(شہنیلا کو دروازے پہ دیکھ کے مانی حیرت کا اظہار کرتا ہے۔ اسے اندر بلاتا ہے۔ شہنیلا اس سے لپٹ جاتی ہے۔ دونوں کے چہرے انتہائی قریب دکھائے جائیں گے۔ لبوں سے لب ملنے لگتے ہیں۔ شہنیلا پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ پلٹ جاتی ہے )

منظر 18 :
کردار : شہنیلا اور فیضی
مقام: گھر
وقت: دن
(شہنیلا کے چہرے پہ سکون آور مسکان۔ فیضی اسے دیکھتا ہے )
فیضی: خوش نظر آ رہی ہو؟
شہنیلا: ہاں، بہت خوش۔ بہت مسرور۔ واقعی اس کام میں بہت لذت ہے (اسے جلانے کے لئے جھوٹ بولتی ہے )
فیضی: کس کام میں
شہنیلا: (آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے حسن کو نہارتی ہے) کسی دوسرے کے ساتھ سیکس کرنے میں
فیضی؛ کیا مطلب؟

شہنیلا: ہاں، فیض صاحب۔ میں بھی آپ جیسی ہو گئی۔ مگر نا۔ وہ آپ جیسا نہیں۔ اس نے مجھے بہت پیار سے چھوا۔ میرے اندر کی مرتی ہوئی عورت کو بچا لیا اس نے (ہنستی ہے )

فیضی: (اسے جھنجھوڑتا ہے ) کیا بکواس کر رہی ہو؟ کون ہے وہ؟
شہنیلا: تمہارا دوست۔ مانی
فیضی کے حیرت اور غصے کے تاثرات

شہنیلا: (آنکھوں میں آنسو، زخمی لہجہ) کیوں؟ اس کے ساتھ سیکس نہیں کرنا تھی مجھے؟ سیکس بھی تمہاری مرضی سے، تمہارے پسند کے مرد کے ساتھ کروں؟ پالتو کتیا نہیں ہو تمہاری (چنگھاڑتی ہے ) ۔ اور اب مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔ ایک پل بھی نہیں۔

منظر 19 :
کردار: شہنیلا اور مانی
مقام: مانی کا گھر
وقت: رات
مانی: تو اس نے تمہیں روکا نہیں
شہنیلا: میں رکی نہیں۔ (گہری سوچ میں گم) میرے اور اس کے رشتے میں تو میں کہیں تھی ہی نہیں
مانی: ( کچھ سوچتے ہوئے ) تم گیسٹ روم میں رہ سکتی ہو۔ (شراب کا گھونٹ بھرتا ہے )
شہنیلا: (اٹھتی ہے۔ اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیتی ہے )
مانی: o ’wow۔ you can have more
شہنیلا: ہاں، کیوں نہیں۔ (ایک اور گلاس چڑھا جاتی ہے )

(دونوں قریب آتے ہیں۔ ایک کس کرتے ہیں۔ شہنیلا سرگوشی میں اس کے کان کے قریب بولتی ہے ) I need you، Mani

(مانی اسے کس کے بانہوں میں لے لیتا ہے۔ سکرین پہ نرم لائٹ کا تاثر۔ فیڈ آؤٹ۔ دونوں بستر میں لیٹے ہیں گویا سیکس کے بعد ۔ شہنیلا کے چہرے پہ سکون۔ کیمرہ ہاتھوں پہ فوکس۔ انگلیوں میں انگلیاں پیوست )

منظر 20 :
مقام: مانی کا بیڈ روم
وقت: صبح کا وقت
کردار: شہنیلا اور مانی

(شہنیلا جاگ کر ادھر ادھر دیکھتی ہے۔ اپنی قمیض کا گلا درست کرتی ہے۔ مانی سامنے دفتر جانے کے لئے تیار کھڑا ہے۔ ٹائی درست کر تا ہے اور مسکرا کے اس کی طرف دیکھتا ہے۔ شہنیلا اٹھتی ہے اور مانی کے پاس آتی ہے )

شہنیلا: (بے تابی سے ) ۔ مجھ سے نکاح کر لو مانی۔ مجھ سے نکاح کر لو
مانی: نکاح؟ دیکھو، تم تو اب تک فیضی کے نکاح میں ہو۔ میں کیسے تم سے نکاح کر سکتا ہوں

شہنیلا: ( سوچ میں ) ۔ یہ تو گناہ ہے مانی۔ وہ بھی گناہ تھا۔ وہ جو مجھ سے کروانا چاہتا تھا وہ بھی تو گناہ تھا۔ گناہ ثواب کے کھیل میں میں الجھ کے رہ گئی۔ میں ایک عورت۔ مرد کے ہاتھ سے گری تو بس پھسلتی ہی چلی گئی۔ کیا ثواب ہے، کیا گناہ مجھے کچھ پتہ ہی نہیں۔ میرے لئے سب ایک سا ہو گیا۔

مانی: تم ریسٹ کرو۔ شام کو ملتے ہیں۔
شہنیلا: میں اپنی تحقیر ہی تو برداشت نہیں کر پائی تھی مانی۔ مجھ سے نکاح کر لو مانی

مانی: کم آن۔ میں تم سے نکاح نہیں کر سکتا۔ میرے بچے کیا سوچیں گے۔ میں ان کی ماں کے چلے جانے کے بعد ان کا مان یوں نہیں توڑ سکتا۔ ٹرائی ٹو انڈر سٹینڈ

شہنیلا: اور یہ سب؟ یہ جو میرا مان توڑ رہے ہو؟ (خوفزدہ انداز میں ) تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے

مانی: دیکھو شہنیلا۔ مجھے الزام دے کے جرم کا احساس مت دلاؤ۔ میں نے جو کیا تمہاری تسکین کے لئے کیا، تمہاری کون سی نٹ کے ساتھ۔ میری مجبوری کو تم بھی سمجھو۔ میں تم سے نکاح نہیں کر سکتا (جانے لگتا ہے )

شہنیلا: (زہریلی مسکان) تم بھی ویسے ہی نکلے! (آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہے )

مانی: نہیں، میری جان۔ میں ویسا نہیں۔ میں تمہارا سہارا ہوں۔ ساری عمر تمہارا خرچ اٹھاؤں گا۔ اٹھا سکتا ہوں۔ اپنا نام نہیں دے سکتا تمہیں۔ (والٹ میں سے پیسے نکال کر اس کے ہاتھ پہ رکھتا ہے ) رکھو۔ تمہیں ضرورت ہے۔ And please relax۔ شام کو ملتے ہیں ( باہر نکل جاتا ہے )

(شہنیلا گرے ہوئے کاندھوں اور نڈھال چال چلتی گیسٹ روم کی طرف بڑھتی ہے۔ کیمرہ شاٹ پیچھے سے۔ وہ کاریڈور میں بھاری قدموں سے چلتی جاتی ہے۔ ( گانے کے بول۔ یہ کون سی ادا ہے۔ پوچھیں گے آسماں سے۔ یہ تو وہی جگہ ہے۔ گزرے تھے ہم جہاں سے۔ ) ۔ لائٹ کا جھپاک۔ سین فیڈ ان ہوتا ہے۔ وہ سٹیج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گانا یہاں تک مسلسل چلتا ہے )

اناؤنسمنٹ ہوتی ہے
And the best award in female bold category goes to…Ms Shahnila Malik
شہنیلا ایوارڈ حاصل کرتی ہے۔
(گزرے تھے ہم جہاں سے۔ )
اختتام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments