شہناز تاتاری۔ خواتین کے حقوق کی علمبردار


مجھے یاد نہیں شہناز تاتاری سے میری ملاقات کب ہوئی لیکن میں نے ابرار رضوی اور شہناز تاتاری کو اکٹھے دیکھا میرا تعارف ابرا رضوی نے ہی کرایا ابرار رضوی مزاحمتی تحریک کا سرخیل تھا ذوالفقار علی بھٹو کا شیدائی جس نے اپنی پوری زندگی پیپلز پارٹی کو دے دی ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات کے لڑ مرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنے والا ابرا رضوی محض اپنی سفید پوشی کی وجہ سے پارٹی میں کوئی بڑا مقام پیدا کر سکا اور نہ ہی اسے پارلیمانی سیاست کے قابل سمجھا گیا گو کہ ]پیپلز پارٹی غریب لوگوں کی جماعت تصور کی جاتی تھی لیکن جلد ہی اس کلچر تبدیل ہو گیا اس میں سفید پوش کارکنوں کی جگہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے لے لی۔

کلف لگے شلوار قمیص میں ملبوس اور لمبی لمبی کاروں میں بیٹھ کر آنے والوں میں بیٹھ کر آنے والوں کے لئے پرانے کارکنوں کے لئے ان کے لئے سٹیج سجانا اور کرسیاں لگانا رہ گیا ہے ابرار رضوی کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے ان کے پاس چار آنے کی رسید آج بھی اپنے کل سرمایہ کے طور محفوظ ہے اس طرح پچھلے 53 سال پیپلز سے وابستہ ہیں سیاست گرم یا سرد انہوں ہمیشہ پیپلز پارٹی کا پرچم سربلند رکھا۔

وہ اس وقت پیپلز پارٹی کے ممبر سینٹرل ورکنگ کمیٹی ہیں پیپلز پارٹی کا پرچم ہی ان کی کل متاع حیات ہے جسے انہوں نے اپنے سینے لگائے رکھا ہے محسن بھوپالی اردو کے مقبول شاعر تھے ان کی زندگی میں ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کر گئے خصوصاً ان کا یہ قطعہ تو ان کی پہچان بن گئی اور ہر مشاعرے میں ان سے اس قطعہ کے پڑھے جانے کی فرمائش کی جاتی تھی

؂تلقین صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

ابرار رضوی ایک نظریاتی کارکن ہے جس نے نصف صدی سے زیادہ زندگی عام آدمی کی حالت بدلنے کے نظریے کی سربلندی میں گزار دی جب تک پیپلز پارٹی کی قیادت ابرا رضوی جیسے کارکنوں کے ہاتھ میں رہی پیپلز پارٹی ملک کی ایک مضبوط جماعت رہی جب شریک سفر نہ ہونے والوں نے منزل پائی تو اس کا سائز سکڑ کر سندھ تک محدود ہو گیا پاور بیس پنجاب کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوتا تھا آج پنجاب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پاس چلا گیا ہے۔

ابرار رضوی ان کی شہناز تاری سے جولائی 1972 میں شادی ہوئی وہ تازہ تازہ کالج فارغ التحصیل ہو کر عملی زنگی میں تو انہوں بھی پیپلز پارٹی کو جوائن کیا اور اسلام آباد میں پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی پہلی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی جانب سے خاتون اول کی حیثیت سے جو پہلا استقبالیہ دیا گیا تو اس میں انہوں پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی نمائندگی کی میں نے اکثر و بیشتر سیاسی و غیر سیاسی اجتماعات میں دونوں میاں بیوی کو اکٹھے دیکھا دونوں نے نصف صدی اکٹھے گزاری ابرار رضوی نے بارہا جیل یاترا کبھی کراچی سنٹرل جیل، کبھی میانوالی جیل اور کبھی اڈیالہ جیل میں ”سرکاری مہمان“ بنائے گئے لیکن شہناز تاری نے ”مرد میدان“ کی طرح تمام مشکلات کا سامنا کیا

ابرار رضوی سوانح حیات جس میں انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کو قلمبند کیا شہناز تاتاری کی حیات میں شائع نہ کرا سکے یہ کتاب زیر طبع ہے اس کتاب کا عنوان ”پچاس سال ایک پرچم تلے“ ہے دو سال قبل ابرار رضوی نے جاوید حکیم قریشی جنہیں جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء دور میں جلاوطن کر دیا گیا تھا کی 25 سال بعد وطن واپسی اپنی رہائش گاہ پر عشائیہ کا اہتمام کیا تھا جس میں اس دور لیڈروں جن میں سردار سلیم، نواز کھوکھر ظفر علی شاہ، راجہ شاہد ظفر بندہ ناچیز (نواز رضا) رشید میر اور عبدالرشید شیخ نے شرکت کی اگرچہ اس عشائیہ کی دعوت ابرار رضوی کی تھی لیکن اس کی اصل میزبان شہناز تاری تھیں جو طبعاً مہمان نواز خاتون تھیں۔

شہناز تاتاری نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز 1975 میں وزارت مذہبی امور و اوقاف کے جریدے ہم وطن سے کیا۔ 1978 میں روزنامہ جنگ میں شمولیت اختیار کی اور اسلام آباد کے شہری امور پر ہفتہ وار ڈائری لکھنی شروع کی جو 15 سال روزنامہ جنگ راولپنڈی میں شائع ہوتی رہی۔ روزنامہ جنگ کے بعد روزنامہ اذکار اور پھر روزنامہ خبریں میں کام کیا 3 سال روزانہ سٹی کالم لکھا۔ شہناز تاتاری نے پہلی کتاب سرزمین معجزات لکھی اور اس کے بعد 10 کتابیں تحریر کیں۔

وہ اپنی وفات تک نوائے وقت میں کالم لکھتی رہیں شہری امور پر ان کی بڑی گرفت تھی وہ اسلام آباد ویمن ایسوسی ایشن کی جنرل سیکریٹری کے بعد سرپرست اعلیٰ رہیں سی ڈی اے کی سپورٹس کونسل کی رکن رہیں ان کا شمار وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کی سینئر خاتون صحافیوں میں ہوتا ہے۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی گورننگ باڈی کی رکن رہیں۔ نیشنل پریس کلب کی سرگرمیوں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ ہم دونوں ماہنامہ اوقاف اور ہم وطن میں اکٹھے کام کرتے رہے ہیں ہمارے ساتھ محمودہ غازیہ، نسرین تاج اور اعظم ملک بھی تھے شہناز تاتاری مہمان نواز خاتون ہونے ناتے ملازمت کے دوران اکثر و بیشتر اپنے ہاتھ کا تیار کردہ پلاؤ کھلواتیں طبعیت کے لحاظ سے بہت نفیس خاتون تھیں۔

ابرار رضوی اور ان کی اہلیہ سے فیملی کی سطح پر تعلقات تھے شہناز تاتاری کی وفات پر دل گرفتہ ہوں ابرار رضوی اکثر اپنے گھر دعوت کا اہتمام کرتے تو مجھے خاص طور پر مدعو کرتے میرے اور ابرار رضوی کی فیملی کے نظریات میں بڑا فرق تھا لیکن ہمارے درمیان عزت و توقیر رشتہ قائم تھا جب بھی ملاقات ہوتی بہت عزت سے پیش آتیں اے پی پی کے شعبہ عربی کے انچارج و سینئر صحافی کاشف رضوی ان کے صاحبزادی اور معروف اداکارہ و شاعرہ یاسرہ رضوی ان کی صاحبزادی ہیں ان کا ایک صاحبزادہ جوانی میں ایک حادثے کا شکار ہو گیا۔ شہناز تاتاری اپنے جواں سال صاحبزادے کی وفات کا صدمہ عمر بھر نہ بھلا سکیں جس کے باعث وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہو گئیں بالآخر عارضہ قلب ہی ان کی موت کا باعث بنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments