جنوب مشرقی ایشیا اور یورپی نوآبادیات – ایک مختصر تذکرہ


براعظم ایشیا کا جغرافیائی خطہ، جو مرکزی چین کے جنوب، برصغیر کے مشرق اور آسٹریلیا کے شمال مغرب میں واقع ہے، جنوبی مشرقی ایشیا کہلاتا ہے۔ دو حصوں ( ایشیا سے زمینی طور پر ملحق علاقے اور مشرق اور جنوب مشرق کی جانب جزائر اور مجمع الجزائر ) پر مشتمل اس خطے میں برما ( میانمار ) ہند چینی ( لاوس، ویت نام، کمبوڈیا) ، سیام ( تھائی لینڈ ) ملائشیا، سنگاپور، انڈونیشیا فلپائن، برونائی اور مشرقی تیمور کل گیارہ ممالک شامل ہیں

یہ خطہ اپنے زرعی اور معدنی وسائل کے بنا کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہاں کی پیداوار بالخصوص مصالحہ جات اور ہیرے جواہرات ) کی یورپی منڈیوں میں بڑی مانگ تھی۔ اوائل میں یہاں سے یورپ کو اشیا کی بالواسطہ ترسیل بحر ہند سے مشرقی وسطی اور وہاں سے بحیرہ روم سے ہو کر کی جاتی تھی۔

انڈیا کے لیے براہ راست بحری راستہ دریافت ہونے کے بعد 16 ویں صدی سے خطے اور یورپ کے درمیاں تجارت آسان تر اور براہ راست ہو گئی۔

16 ویں صدی میں پرتگالیوں کا جزیرہ ملاکا ( موجودہ ملائیشیا کی ایک ریاست ) اور فلپائن میں آمد سے یہاں یورپی اثرات کی شروعات ہوتی ہیں۔ اگلی صدیوں میں کئی دوسرے یورپی ممالک نے خطے میں کالونیاں قائم کرنا شروع کیں۔

اپنی آمد کے بعد سے کئی صدیوں تک ان کا بنیادی مقصد تجارتی منافع کمانا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے مابین یہاں کے زرعی اور تجارتی مراکز اور بحری شاہراہوں اور بندرگاہوں پر اجارا داری قائم کرنے کے لیے باہمی تصادم ہوتا رہا۔ مگر 19 ویں صدی کے وسط سے یورپ میں صنعتی انقلاب آنے کے بعد وہاں کی طاقتوں کا خطے میں مقاصد اور پالیسی کا ”نیا سامراجی“ مرحلہ شروع ہوا۔ اپنے حلقہ ہائے اثر کی توسیع اور دفاع۔ منڈیوں اور وسائل پر طویل المیعاد کنٹرول کے حصول کی کاوشوں اور خطے کا بحر الکاہل رم کا حصہ ہونے کے ناتے جیو اسٹریٹجک اہمیت کے باعث یورپی نوآبادیاتی طاقتیں خطے پر قابض ہونے میں باہمی مقابل رہیں۔

ان نو آبادیاتی طاقتوں میں اوائل میں تو یہاں پرتگال اور اسپین سر گرم رہے تھے مگر بعد میں ہالینڈ برطانیہ، اور فرانس کے علاوہ امریکہ اہم رہے، 18 ویں صدی کے اوائل میں ”ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی“ نے 300 میل لمبے انڈونیشیا جزیرے کے بیشتر حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ (موجودہ انڈونیشیا میں واقع ”مغربی کالیمانتن“ 1775 میں چین کی ”قلنگ سلطنت“ کی باج گزار ریاست رہی 1884 میں اس پر بھی ہالینڈ نے قبضہ کر لیا )

برطانیہ نے سنگاپور میں بڑی بندرگاہ بنا ڈالی۔ 1885 میں ملائشیا اور برما ( میانمار ) میں بھی برطانیہ نے تسلط حاصل کر لیا

1840 کے عشرے میں فرانس نے انڈو چائینہ ( ویت نام، لاوس اور کمبوڈیا ) پر قبضہ کر لیا۔ اور اس کو ”فرانسیسی ہند چینی“ کا نام دیا۔ اور اس کا دارالحکومت ”ہنوئی“ قرار دیا

فلپائن۔ 1521 کے بعد سے فلپائن پرتگال کے بجائے اسپین کی نو آبادی بنا رہا تھا۔ انیسویں صدی کے آخری عشروں میں یہاں آزادی کی جنگ شروع ہو گئی تھی جو 1898 میں امریکہ مداخلت کی وجہ سے اسپین امریکی جنگ میں بدل گئی۔ اس کے نتیجے میں معاہدہ پیرس کے تحت اسپین نے اسے امریکہ کو فروخت کر لیا۔ اگلے 48 سال تک فلپائن امریکہ کی ذیلی ریاست رہا۔

مشرقی تیمور پرتگال کے زیر اثر رہا۔

19 ویں صدی کے اخیر تک سیام ( تھائی لینڈ) کے سوا یہاں کے تمام ممالک یورپی اقوام کے زیر تسلط آ گئے تھے

سیام ( تھائی لینڈ ) ۔ برطانیہ کی کالونی برما (میانمار ) اور فرانسیسی انڈو چائنہ کے درمیان واقع سیام واحد ملک تھا جس کو مغربی طاقتوں نے براہ راست نو آبادی نہیں بنایا۔ 1932 میں یہاں ایک پر امن انقلاب سے آئینی بادشاہت کے تحت ایک پارلیمنٹ قائم تھی۔ برطانیہ اور فرانس کی مزاحمتی پالیسی کی وجہ سے یہ آزاد رہا جنہوں نے اس کو اپنے درمیان ایک بفر سٹیٹ کی حیثیت دی۔ یہاں تعلیمی۔ قانونی اور انتظامی اصلاحات کیے ۔ نوآبادیات نہ ہونے کی وجہ سے اس کو سماجی تناؤ، نسلی تفرقات اور معاشی استحصال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

خطے پر نو آبادیاتی اثرات۔

1۔ کسی قوم کا کسی دوسرے ملک یا خطے میں کالونی یا نوآبادیات کا بنیادی مقصد عموماً معاشی مفادات ہوتے ہیں۔ یوں اکثر اس کا پہلا نتیجہ اسی ملک یا خطے کے وسائل کی لوٹ مار کے باعث اس کا معاشی استحصال ہوتا ہے۔ سامراجی قوموں نے اپنے مال مفادات کے لیے اس خطے کے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں خطے کے بیشتر باشندے مسائل کا شکار رہے

2۔ نو آبادیاتی طاقتوں کا بنیادی مقصد اگرچہ تجارتی مفادات تھے۔ تاہم اس کے ساتھ پرتگال اور اسپین وغیرہ کے مشنری خطے میں عیسائیت کی تبلیغ بھی کرنے لگے تھے۔ جس کی وجہ سے یہاں کے ممالک بالخصوص شمالی فلپائن، مشرقی انڈونیشیا۔ مشرقی ملائیشیا اور مشرقی تیمور میں عیسائیت بھی ایک اہم مذہب بن گیا۔

3۔ نوآبادیاتی اقوام چونکہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے خود کو برتر اور مغلوب مقامی باشندوں کو کمتر ثابت کی پالیسی کے تحت عموماً نسلی تفرقات اور امتیازات کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ ان کے اس نوعیت کی پالیسی اور روئیے سے خطے کو مختلف سماجی مضمرات کا سامنا بھی کرنا پڑا

4۔ سیاسی استحکام کے لیے مقامی معاملات میں مداخلت اور یہاں تہذیب کے نام پر بنیادی حقوق۔ مذہب اور تعلیم کے ذریعے اپنا کلچر عائد کرنا شروع کیا

5۔ برطانوی انڈیا اور جین سے بڑی تعداد میں مزدوروں اور تارکین وطن کی آمد سے خطے، بالخصوص جزیرہ نما انڈونیشیا اور ملائیشیا، پر مختلف جہت اثرات پڑے

6۔ ایک طرف اگر چہ نو آبادتی تسلط کی وجہ سے خطہ معاشی استحصال اور سماجی تناؤ جیسے مسائل کا شکار ہوا تاہم خطے میں سامراجی اقوام کا اپنے معاشی مفادات کے لیے کیے گئے تعمیراتی کاموں کے علاوہ تعلیمی اور طبی اصلاحات اور مراکز کا قیام یہاں کے باشندوں کے لیے بھی سہولت اور فائدے کا باعث بنے

اسی طرح ان مغربی اقوام کے ذریعے، سائنسی اور ٹیکنیکل علوم و فنون، سیکولر سیاسی اور تعلیمی تصورات اور نظام متعارف ہوئے جس سے جدیدیت کی سوچ پنپی۔ یورپ کے جدید جمہوری ریاست سے متعلق اداروں اور تصورات اور جدید تعلیم کے باعث یہاں کے عوام میں قوم پرستی اور آزادی کی تحریکوں کو شہ ملی۔

نوآبادیاتی تسلط سے آزادی۔

جنگ عظیم دوم ( 1939 تا 1945 ) کا جنوب مشرقی ایشیا کے مغربی کالونیوں پر اہم اثر پڑا۔ جنگ کے دوران جاپان نے یہاں کے بیشتر یورپی کالونیوں ( فلپائن، سیام برما، انڈونیشیا، مشرقی تیمور برما، سنگاپور، ملایا۔ ہند چینی۔ ) پر قبضہ کر لیا تھا۔ جنگ کے خاتمے پر جاپان کی شکست سے اس کا قبضہ ختم ہو جانے پر یہاں نو آبادیاتی ممالک پھر سے تسلط جمانے لگے تھے۔ تاہم جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر اقوام کو یورپی حاکمیت منظور نہ تھی جن میں سے بعض نے 20 صدی کے آغاز سے آزادی کی تگ و دو شروع کی تھی۔ جنگ عظیم کے بعد اس کی جدوجہد میں تیزی آ گئی۔ جس کے نتیجے میں چند ایک نے تو نسبتاً پرامن طریقے ( باہمی معاہدات ) سے آزادی حاصل کر لی جبکہ بعض اقوام ( ہند چینی اور انڈونیشیا ) کو نو آبادیاتی طاقتوں سے مسلح لڑائی لڑنی پڑی

جولائی 1945 میں جاپان کے بعد فلپائن پھر سے امریکہ کے قبضے میں آ گیا تھا۔ جنگ کے بعد سب سے پہلے فلپائن نے 4 جولائی 1946 کو ایک معاہدے کے تحت امریکہ کو کچھ فوجی اڈوں کی سہولیات دے کر آزادی حاصل کر لی۔

سیام۔ ( تھائی لینڈ ) اگرچہ باقاعدہ یورپی کالونی تو نہیں تھا مگر 1941 میں جاپان کے قبضہ میں آنے کے بعد اس نے اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ جس کی وجہ سے اس کا دارالحکومت ”بنکاک“ امریکہ کی فضائی حملوں کا نشانہ بھی بنا تاہم 1945 میں جاپان کی شکست کے بعد تھائی لینڈ پھر سے مغرب نواز بنا )

برما ( میانمار ) برما برطانوی تسلط سے آزادی کے لیے عرصے سے کوشاں تھا۔ 1947 میں ہندوستان کو آزاد کرانے کے بعد برطانیہ نے جلد برما سے بھی نکلنے کا فیصلہ کیا یوں جنوری 1948 میں یہ خود مختار جمہوریہ بن گیا۔ 1989 میں اس کا نام میانمار رکھا گیا۔

ملائشیا اور سنگاپور۔ 1945 میں جاپان کی شکست کے بعد برطانیہ ملائیشیا واپس آ گیا۔ اس نے ملائشیا کے مختلف اقوام کو ایک ریاست میں ڈھالنے کی ناکام کوشش کی۔ اور وہاں کمیونسٹ بغاوت کو دبانے کی سعی کی۔ ملائشیا کی نسلی گروپوں نے بھی برطانیہ کی مزاحمت شروع کی۔

جزیرہ نما ملایا میں ملاوی نسل اکثریت میں تھے جبکہ اس کے جنوبی سرے پر واقع سنگاپور میں چینی نسل کی اکثریت تھی۔ (جن کو برطانیہ نے یہاں آباد کرایا تھا ) ۔ کئی سال کی شدید محاذ آرائی کے بعد بالآخر 1957 میں ملایا کو آزادی مل گئی۔ سنگاپور، ملایا، سرواک اور صباح پر مشتمل خطوں سے ملائشین وفاق بنا لیا گیا۔

1965 میں سنگاپور نے وفاق سے علیحدگی اختیار کر کے آزاد شہری ریاست بن گیا۔ جبکہ ملایا، سرواک اور صباح پر مشتمل فیڈریشن ملائشیا کہلانے لگا۔

ملائیشیا علاقے کے لحاظ سے 67 واں بڑا ملک ہے۔ مغرب میں اس کی زمینی سرحد تھائی لینڈ کے ساتھ ملتی ہے جبکہ انڈونیشیا اور برونائی دارالسلام اس کے مشرق میں واقع ہیں۔ جنوب میں براستہ پل سنگاپور سے منسلک ہے۔ ویتنام کے ساتھ اس کی سمندری حدود ہیں۔ ملائیشیا کے دو حصوں کے درمیان جنوبی بحیرہ چین ہے۔

انڈونیشیا۔ جنگ کے دوران جاپان کا اس ڈچ کالونی پر قبضہ کرنے کے خلاف انڈونیشی رہنما سوئیکارنو کی قیادت میں گوریلا جنگ شروع کی گئی تھی۔ جاپان کی شکست کے دو دن بعد سوئیکارنو نے انڈونیشیا کی یک طرفہ آزادی کا اعلان کر دیا۔ ہالینڈ ( جو جاپانیوں کی شکست کے بعد پورے انڈونیشیا پر پھر سے اپنا قبضہ قائم رکھنا چاہتا تھا ) نے ابتدا میں برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے انڈونیشیا پر کنٹرول حاصل کر نے کی کوشش کی۔ مگر شکست کھائی۔

روس نے انڈونیشیا کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔ مگر ”جاوا“ اور ”سماٹرا“ کے علاوہ بقیہ علاقوں پر ہالینڈ کا اپنی حکومت قائم رکھنے پر اصرار کے باعث تصفیہ نہ ہوسکا، ۔ یوں فریقین کے درمیان لڑائی کی صورت حال جاری رہی

نومبر 1948 میں ولندیزیوں نے حملہ کر کے جاوا اور سماٹرا پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلامتی کونسل کی مداخلت سے جنگ بندی اور مذاکرات ہوئے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کی حمایت سے محرومی کے بعد ہالینڈ نے 27 دسمبر 1949 کو انڈونیشیاء کی آزادی تسلیم کر لی۔

انڈونیشیا 13600 سے زیادہ جزائر اور 300 مختلف نسلی گروپوں پر مشتمل ملک پے یہاں 250 زبانیں / بولیاں اور ہر بڑے مذہب کے پیروکار پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں آزادی کے بعد بھی کافی عرصے تک خانہ جنگی ہوتی رہی۔

1949 سے 1967 تک سوئیکارنو انڈونیشیا کے صدر رہے۔

1963 میں ولندیزیوں کے زیر قبضہ مغربی نیوگنی ( نیا نام مغربی پاپورا ) بھی آسٹریلیا میں شامل کر لیا گیا

”سوئیکارنو“ اگرچہ کافی مقبول اور باصلاحیت قوم پرست رہنما تھا مگر اس کے دور حکومت کے ابتداء ہی سے ملک میں مختلف گروہوں ( قوم پرستوں اور کمیونسٹوں، مسلم قدامت پرستوں اور فوج) کے مابین ہونی والی خانہ جنگی کی وجہ سے ملک سیاسی مسائل کا شکار رہا۔ ( اس خانہ جنگی کا مکمل تصفیہ 1971 میں ہو جانے کے بعد ملک ترقی کی راہ پر گامزن یو گیا)

1967 میں سوئیکارنو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اور اس کی جگہ جنرل سوہارتو صدر بن گیا جو انتحابات میں مسلسل منتخب ہونے سے 1997 تک صدارت کے منصب پر فائز رہے )

مشرقی تیمور۔ ( آسٹریلیا کے شمالی جانب بحیرہ تیمور کے جزیرہ تیمور کا مشرقی ملک۔ جو 16 ویں صدی سے بیلجیم کی نو آبادی رہا۔ 1943 کے اوائل میں جاپان نے یہاں سے اتحادی فوجوں کو نکال کر اس پر بھی قبضہ کر لیا تھا اس کی شکست کے بعد 1945 میں یہ پھر سے بیلجیم کے کنٹرول میں آ گیا۔

1975 میں مشرقی تیمور نے بلجیم سے آزادی حاصل کرنے کا اعلان کر دیا تو جلد ہی انڈونیشی صدر ”سوہارتو“ نے اس پر قبضہ کر کے انڈونیشیا میں شامل کر لیا۔ جس کے خلاف وہاں کے عوام نے تحریک شروع کی۔ 1999 کے ریفرینڈم میں مشرقی تیمور کے عوام نے بھاری اکثریت سے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ مگر اس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ کافی خون خرابہ کے بعد اقوام متحدہ کی مداخلت سے امن قائم ہوا۔ 2002 میں مشرقی تیمور کی آزادی کو تسلیم کیا گیا۔

انڈو چائنہ ( لاوس، کمبوڈیا اور ویٹ نام ) یوں تو 1920 کی دہائی میں ویت نام کی قوم پرست جماعتیں اصلاحات اور آزادی کا مطالبہ شروع کر رہی تھیں۔ مگر 1930 میں ایک قوم پرست رہنما ”ہوچی منہ“ نے انڈو چائنا کمیونسٹ پارٹی قائم کی تو فرانسیسیوں کے خلاف پر تشدد احتجاجی تحریک شروع کر دی گئیں۔ جس کے دوران فرانسیسیوں نے بے شمار ویٹ نامی باغیوں کو جیلوں میں ڈالا۔ ہوچی منہ کو سزائے موت دی مگر وہ ملک سے نکل کر جلا وطن ہو گیا۔

ویت نام پر جاپانیوں کے قبضے کے اگلے سال ( 1941 ) ہوچی منہ واپس آ گیا اور دوسرے قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ مل کر ویٹ نام آزاد لیگ بنائی۔ 1945 میں شکست کے بعد جاپانیوں کا ویٹ نام سے نکل جانے کے بعد ویٹ نامیوں کا خیال تھا کہ اس کو آزادی مل جائے گی مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس نے ویٹ نام پر پھر سے قبضہ کرنے کے لیے فوج بھیجی تو ویٹ نامی قوم پرستوں اور کمیونسٹوں نے مل کر اس کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی۔

1954 میں ”ہوچی منہ“ کے کمیونسٹ ”جنرل گیپ“ کے ہاتھوں ”ڈین بین بھو“ کے مقام پر فیصلہ کن شکست کے بعد فرانسیسی سرنگوں ہو گئے۔ ویت نام میں فرانس کی شکست کے بعد علاقے ( ہند چائنہ ) کا مستقبل طے کرنے کے لیے جنیوا (سوئزر لینڈ ) میں کانفرنس منعقد کی گئی۔ مندوبین نے ”لاوس“ اور ”کمبوڈیا“ کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا جبکہ ویٹ نام کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ شمالی ویٹ نام میں ہوچی منہ کے کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور جنوبی ویٹ نام میں فرانس اور امریکہ کی حمایت سے نگو ڈھن ڈیم ”کی زیر قیادت کمیونسٹ مخالف حکومت بنائی گئی۔

مگر اس کی آمرانہ حکومت کے خلاف ویٹی کانگ ( کمیونسٹ گوریلے ) جن کو شمالی ویٹ نام کی پشت پناہی حاصل تھی، متحرک ہو گئے۔ اگرچہ 1963 میں جنوبی ویت نام کے جرنیلوں کے گروپ نے“ نگو دئیم ”کو قتل کر کے اقتدار سنبھال لیا۔ مگر وہ بھی مقبول نہ ہو سکے۔ اور جنوبی ویت نام پر“ ویٹی کانگ ”کا قبضہ ناگزیر دکھائی دینے لگا۔

امریکہ کو جنوبی ویت نام کا کمیونسٹوں کے گرفت میں آ جانے کا خدشہ لاحق ہو گیا۔ تو اس نے جنوبی ویت نامی حکومت کی فوجی امداد بڑھا دی۔ جبکہ دوسری طرف چین شمالی ویٹ نام کی کمیونسٹ حکومت کا حامی تھا۔ 1965 میں شمالی ویٹ نام نے جنوبی ویٹ نام پر حملہ کر دیا۔ تو ردعمل میں 1965 کے اخیر میں امریکہ بھاری افواج ( ایک لاکھ 85 ہزار سپاہی ) لے کر شمالی ویٹ نام کے خلاف جنگ شروع کردی۔

1968 تک 5 لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی ویٹ نام کی سرزمین پر لڑ رہے تھے۔ تاہم اس کے باوجود زمینی جنگ میں فیصلہ کن فتح میں ناکام ہونے پر امریکہ نے کمیونسٹ گوریلوں کے ٹھکانوں پر وسیع پیمانے پر بے دریغ بمباری شروع کر دی۔ جنگ میں کامیاب نہ ہونے اور امریکی رائے عامہ کے دباؤ کے باعث امریکی حکومت نے ویٹ نام سے اپنی فوجوں کو 1969 سے واپس نکالنا شروع کیا۔ بے پناہ مادی تباہی اور 15 لاکھ ویٹ نامی اور 58 ہزار امریکی جانوں کی ہلاکتوں کے بعد امریکہ کامیاب نہ ہو سکا تو 1973 میں اپنا آخری فوجی دستہ نکال کر ویٹ نام سے ناکام و نامراد واپس چلا گیا۔ اس کے دو سال بعد ( 1975 ) کمیونسٹ شمالی ویٹ نام نے جنوبی ویٹ نام پر قبضہ کر کے متحد کر لیا۔

جولائی 1976 میں ملک ”سوشلسٹ ریپبلک آف ویٹ نام“ کے نام سے باقاعدہ طور پر متحدہ ملک بن گیا یوں شمالی ویٹ نام کا کمیونسٹ رہنما ہوچی منہ ”دنیا کے طاقتور ترین ملک ( امریکہ ) کے مقابلے میں فتح یاب ہوا

کمبوڈیا۔ ویت نام جنگ کے دوران شمالی ویٹ نام اور ”ویٹی کانگ“ سپاہیوں کے ٹھکانے ہونے کے باعث کمبوڈیا بھی امریکہ بمباری کا نشانہ رہا تھا۔

جنگ کے خاتمے سے علاقے میں قتل و غارت اور تشدد کا فوری خاتمہ نہیں ہوا۔ 1975 میں کھیمروج ( کمیونسٹ باغیوں ) نے اپنے سربراہ ”پول پاٹ“ کی زیر قیادت قائم ہونے والی حکومت کا کمیونسٹ نظام کو بزور نافذ کرنے کی کوشش میں 15 لاکھ سے زیادہ کمبوڈین شہری قتل ہوئے۔

1978 میں ویٹ نام کا کمبوڈیا پر حملہ سے وہاں کھیمروج کی جگہ نسبتاً کم۔ جابر حکومت قائم کر دی گئی تاہم خانہ جنگی جاری رہی۔ 1989 میں ویٹ نامی کمبوڈیا سے نکل گئے۔

1993 میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کمبوڈیا میں نئے جمہوری آئین کے تحت آزادانہ انتحابات کرائے گئے۔ اگرچہ کھیمروج نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ پرنس سہانوک کو آئینی بادشاہ کی حیثیت سے بحال کر دیا گیا۔

حصول آزادی کے بعد اگرچہ خطے کے بعض ممالک کو امن اور استحکام کے حوالے سے بڑے عرصے تک کافی مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر وقت کے ساتھ حالات میں بہتری آنے لگی

مشرقی تیمور کے سوا جنوب مشرقی ایشیا کے بقیہ 10 ممالک۔ معاشی سیاسی۔ تعلیمی سماجی ثقافتی شعبوں میں ترقی اور علاقائی امن و استحکام میں باہمی تعاون کے لیے 1967 سے قائم آسیان ( ایسوسی ایشن آف ساوتھ ایسٹ ایشین نیشنز ) نامی تنظیم کے رکن ہیں

آسیان کا شمار دنیا کے موثر تنظیموں میں ہوتا ہے اور اس کی بدولت جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک مختلف شعبوں میں ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments