پاؤ وزیر اعظم، سوا سیر وزیر خزانہ


سندھ کے شہری علاقوں میں ہونے والے انتخابات کے بعد سامنے آنے والے تنازعہ اور دھاندلی کے الزامات کی روشنی میں قیاس کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران پنجاب اور خیبر پختون خوا کے متوقع انتخابات اور قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے منظور ہونے کے بعد منعقد کیے جانے والے ضمنی انتخابات میں کیا صورت حال سامنے آئے گی۔ اس وقت پاکستان کا سیاسی منظر نامہ صرف اپوزیشن پارٹی کی غیر ذمہ داری کی کہانی ہی نہیں ہے بلکہ اتحادی حکومت کی نا اہلی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت میں شدید کمی اور اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے دردناک تصویر بھی پیش کرتی ہے۔

یہی دیکھ لیا جائے کہ پنجاب میں عبوری حکومت کے قیام اور انتخابی حکمت عملی پر مشورہ کے لئے ملک کے وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ لندن پہنچے ہیں تاکہ اپنے قائد نواز شریف سے مشاورت کے بعد فیصلے کرسکیں۔ واضح رہے کہ عدالتی حکم کے تحت تمام سیاسی عہدوں کے لئے نا اہل ہونے کے بعد سے نواز شریف کو اپنی ہی سیاسی پارٹی میں کوئی باقاعدہ عہدہ حاصل نہیں ہے۔ اور وہ محض پارٹی میں اپنے وفاداروں کے لئے رہبر اعلیٰ کی مسند جلیلہ پر فائز کیے گئے ہیں۔ شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں لیکن ان عہدوں پر ان کی کارکردگی کا اندازہ محض اس ایک واقعہ سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ جب الیکشن کمیشن میں گزشتہ ہفتہ کے دوران پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ سامنے آیا تو پارٹی کے وکیل نے الیکشن کمیشن کو مطلع کیا کہ پارٹی صدر ملک کے وزیر اعظم بھی ہیں، اس لئے وہ اس طرف توجہ نہیں دے سکے۔ اس پر چیف الیکشن کمشنر کا یہ جملہ ملکی سیاسی تاریخ میں کلاسیکل حیثیت اختیار کرے گا کہ ’اور کچھ نہیں تو مذاقیہ انتخاب ہی کروا لیں‘ ۔

سیاسی پارٹیوں کو مذاق اور ذاتی اجارہ داری بنانے والے سارے سیاست دان اس وقت اپنے اپنے طور پر ملک کے مسائل حل کرنے کے دعویدار ہیں۔ لیکن درحقیقت وہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور کسی بھی طرح اقتدار تک راستہ ہموار کرنے کے جتن کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر صاحب نظر و صاحب دل کے اس مشورہ کو کوئی خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہے کہ کوئی مشترکہ ایجنڈا تلاش کیا جائے، تمام سیاسی پارٹیاں مل بیٹھ کر ملک کو درپیش چیلنجز کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں اور ان پہلوؤں پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے جن کے بارے میں سب متفق ہیں کہ ان مسائل کو حل کیے بغیر ملکی انتظام چل نہیں پائے گا۔ لیکن ہر سیاست دان نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے اور خواہشات کے محدود ذاتی حصار سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہے۔

ایسے میں قومی مسائل کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے بلکہ جوڑ توڑ کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح دوسرے کی پشت زمین سے لگا دی جائے۔ عمران خان کے بیانات اور طرز عمل کو دیکھا جائے تو ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا ذکر وہ اپنی سیاسی کامیابی کے طور پر کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کے بیانات اور سوشل میڈیا مہمات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ واقعی پاکستان واجب الادا ادائیگیاں کرنے میں ناکام رہا تو تحریک انصاف کے لوگ اس بات پر افسردہ نہیں ہوں گے کہ پاکستان تباہی کی طرف بڑھا ہے بلکہ اس پر بھنگڑا ڈالیں گے کہ دیکھا شہباز شریف ناکام ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی معاصر روزنامہ ڈان نے اپنے اداریہ میں ملکی معاشی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے بجا طور سے لکھا ہے کہ ’اپوزیشن اور حکومت دونوں ملکی مفادات کی بجائے اپنی سیاسی ضرورتوں کے اسیر بنے ہوئے ہیں‘ ۔ یہ صورت حال کسی طور اہل پاکستان کے لئے اطمینان کی خبر نہیں ہے۔

بطور وزیر اعظم شہباز شریف کی واحد قابل ذکر حیثیت یہ ہے کہ وہ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر لیں، اس عہدے سے وابستہ پروٹوکول کے مزے لوٹ لیں یا جب بڑے بھائی کی منت سماجت سے فارغ ہوں تو پر امید نگاہوں سے نئے مقرر کردہ آرمی چیف کی طرف دیکھنے لگیں کہ ’اب آپ ہی ہیں جو میری نیا پار لگا سکتے ہیں‘ ۔

عمران خان نے اگرچہ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا نئے آرمی چیف سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے لیکن اسی سانس میں وہ یہ امید بھی کرتے ہیں کہ فوج ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروانے کی ذمہ داری پوری کرے گی۔ عمران خان کے اسی رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ملک کے ممتاز کالم نگار اور ’ہم سب‘ کے مدیر اعلیٰ وجاہت مسعود نے ایک ٹویٹ پیغام میں استفسار کیا ہے کہ ’اگر انتخابات کروانا فوج کی ذمہ داری ہے تو سرحدوں کی حفاظت کیا عثمان بردار کریں گے‘ ۔

لیکن ملک کے کسی سیاست دان کو قومی مفادات، اصولوں یا آئینی تقاضوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ’غیر سیاسی‘ ہو جانے والی اسٹبلشمنٹ بے شک اس وعدے پر قائم رہے لیکن بس انہیں تھوڑی سی ’مدد‘ فراہم کردے۔ اور جب متحدہ قومی موومنٹ کے متحارب دھڑوں کو کسی فارم ہاؤس پر جمع کر کے ملانے کا کارنامہ رپورٹ ہوتا ہے تو اسٹبلشمنٹ سے سہارے کی امید لگائے ہوئے سب سیاست دانوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ اور میڈیا کے بزرجمہروں کو یہ خبر ’بریک‘ کرنے کا موقع مل جاتا ہے کہ دیکھا ہمارے اندازے ٹھیک تھے۔ اسٹبلشمنٹ مکمل طور سے غیر سیاسی نہیں ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں اپنا سیاسی کردار ادا کرنا ضروری سمجھتی ہے۔

البتہ اسٹبلشمنٹ کے دانت دیکھنے اور گننے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل و عناصر ہیں جو مسلسل فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ عوامل میں سب سے پہلے ملکی معیشت میں فوجی اداروں کی حصہ داری ہے۔ اور جیسا کہ ممتاز محقق اور تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ بتاتی رہی ہیں کہ ملکی معیشت میں فوج کی بڑھتی ہوئی حصہ داری اس ادارے کو سیاسی اختیارات پر کنٹرول رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اور جن لوگوں یعنی سیاست دانوں کو اسٹبلشمنٹ کے اس کردار کو محدود کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہیں، وہ خود اپنی سرخروئی کے لئے فوج کو خوش کرنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ ایسے میں اصلاح کے امکانات پیدا ہونے کی کوئی صورت دیکھنے میں نہیں آتی۔

ملک میں سیاسی تعطل کی صورت حال مسلسل دگرگوں ہے۔ تحریک انصاف صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے بعد شہباز شریف کی حکومت گرانے کے لئے قومی اسمبلی جانے کا عندیہ دیتی ہے تو اسپیکر راجہ پرویز اشرف یک بیک 35 ارکان کے استعفے منظور کرلیتے ہیں اور اب اشارے دیے جا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے مزید ارکان کے استعفے بھی قبول کیے جائیں گے۔ سابق اسپیکر اسد قیصر کو یہ طرز عمل اسپیکر کے عہدے کے شایان شان نہیں لگا لیکن جب وہ خود بطور اسپیکر اپنے ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ مل کر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے غیر آئینی کارروائیوں کا حصہ بنے ہوئے تھے، اس وقت انہیں اس عہدے کی حرمت و تقدس کا خیال نہیں آیا تھا۔ قول و فعل کا یہ تضاد پاکستانی سیاست میں کسی ایک لیڈر یا پارٹی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ضرورت و احتیاج کے تحت کسی بھی وقت کوئی بھی کسی بھی موقف سے یوٹرن لے سکتا ہے۔ بزعم خویش ملک کے سب سے مقبول اور بڑے لیڈر عمران خان تو یوٹرن کے شہنشاہ کہے جا سکتے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف ملکی معیشت سنبھالنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے تحریک انصاف کی مچائی ہوئی ’معاشی تباہی‘ پر قابو پا لیا ہے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے لیکن وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی معاملہ طے کرنے کے سوال پر مسلسل اپنے ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ’مہارت‘ کے ہاتھوں مجبور محض بنے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف نے ہفتہ عشرہ پہلے آئی ایم ایف کی سربراہ سے بات کر کے اعلان کیا تھا کہ تین دن میں آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آئے گا اور نواں جائزہ مکمل کر کے سوا ارب ڈالر کی رکی ہوئی قسط دستیاب ہو جائے گی۔ وزیر اعظم کا یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوسکا اور آئی ایم ایف سے معاہدہ بدستور تعطل کا شکار ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں بدستور مندی کا رجحان ہے اور سرمایہ کار پاکستان سے دور بھاگنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔

سیاسی و انتظامی اختیار میں شہباز شریف اگر ایک پاؤ ہیں تو اسحاق ڈار کی حیثیت سوا سیر ہے کیوں کہ ان کے سر پر نواز شریف کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ ماضی کا ریکارڈ نہ بھی دیکھا جائے تو بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران اسحاق ڈار نے ملکی معیشت میں جو بے یقینی پیدا کی ہے، اس نے ترسیلات، برآمدات اور سرمایہ کاری کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اسحاق ڈار شاید نواز شریف کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہیں کہ آئی ایم ایف سے سینگ پھنسائے رکھنے سے مسلم لیگ (ن) پنجاب کا انتخابی معرکہ جیت جائے گی۔ اسے ہی قومی مفاد پر سیاسی ضرورتوں کو ترجیح دینا کہتے ہیں ورنہ کوئی با اختیار وزیر اعظم ہوتا تو وہ اسحاق ڈار سے کب کا استعفی طلب کرچکا ہوتا۔ اسحاق ڈار اس وقت ملکی معیشت کا سب سے بڑا اور ناقابل برداشت بوجھ بنے ہوئے ہیں۔

پاکستانی سیاست کو جیسے عمر رسیدہ بزرگوں نے ’گھر کی لونڈی‘ بنایا ہوا ہے، اس تناظر میں نیوزی لینڈ سے آنے والی ایک خبر سبق آموز ہے۔ وہاں 42 سالہ جیسنڈا آرڈن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 7 فروری سے اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہی ہیں کیوں کہ ’چھ سال وزیر اعظم رہنے کے بعد اب میرے پاس یہ ذمہ داری پوری کرنے کی مزید ہمت و صلاحیت نہیں ہے۔ میں یہ عہدہ اس لئے نہیں چھوڑ رہی کہ مجھے آئندہ انتخابات میں ناکامی کا خوف ہے۔ انتخاب تو ہم ضرور جیتیں گے لیکن اب میں ذاتی طور پر اس عہدے میں مزید خدمات سرانجام نہیں دے سکتی‘ ۔

پاکستان میں شاید اس خبر کو ایک کم ہمت خاتون کی سیاسی ’حماقت‘ کے طور پر دیکھا جائے لیکن اس بیان میں یہ سبق پنہاں ہے کہ کسی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں اور لیڈر کس طرح کام کرتے ہیں۔ پاکستان کا ہر شخص اپنے علاوہ کسی دوسرے کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا جس پر وہ خود فائز ہو۔ البتہ ہمارا دعویٰ یہی ہے کہ پاکستان میں انتخابات ہی ترقی کا راستہ ہیں اور ہم جمہوریت کو کامیاب بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments